پاکستان

روسی ساختہ دستی بم کراچی پولیس کے اسلحے کے ریکارڈ کا حصہ نہیں تھے، انکوائری رپورٹ

3 اگست کو پیش آنے والے واقعے میں روسی ساختہ دستی بم استعمال کیا گیا جو پولیس کے اسلحہ خانے کے ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے، رہورٹ

کراچی میں 3 اگست کو انتہائی حساس پولیس ہیڈکواٹرز کے علاقے میں ہونے والے دستی بم دھماکے کی پولیس انکوائری رپورٹ میں معلوم ہوا ہے کہ روسی ساختہ دو دستی بم پولیس کے اسلحہ خانے کے ریکارڈ کا حصہ نہیں تھا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انکوائری میں زخمی اسلحہ انچارج سب انسپکٹر سعید احمد اور فائر آرمر بیورو (ایف اے بی) کے ہیڈ کانسٹیبل سہیل عزیز کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے، جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر اعلیٰ افسران کو بتائے بغیر دستی بم اسلحہ خانے سے باہر لے کر آئے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی : پولیس ہیڈکوارٹر میں دستی بم دھماکا، 2 اہلکار جاں بحق، 2 زخمی

دستی بم حملے میں 2 پولیس اہلکار شہزاد اور صابر جاں بحق اور اسلحہ انچارج سب انسپکٹر سعید اور کانسٹیبل علی گوہر شدید زخمی ہوگئے تھے، دھماکے میں دو روسی ساختہ دستی بموں میں سے ایک دستی بم آر جی ڈی ون گارڈن پی ایچ کیو کے باہر پھٹ گیا تھا۔

ڈی آئی جی جنوبی شرجیل کھرل نے ایس ایس پی جنوبی سید اسد رضا کی سربراہی میں انکوائری ٹیم تشکیل دی تھی جس میں سٹی ایس ایس پی (انویسٹی گیشن) آصف احمد بگھیو اور صدر ایس پی علی مردان کھوسو شامل تھے جو اس واقعے کے حقائق کا پتا لگانے کے ذمہ دار ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی: جماعت اسلامی کی کشمیر ریلی میں دستی بم حملہ، 30 سے زائد افراد زخمی

انکوائری رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ڈان کو معلوم ہوا کہ’ واقعہ کے نتیجے میں دو پولیس اہلکاروں کی موت ہوئی، دھماکا انتہائی حساس پولیس ہیڈکوارٹرز کے احاطے میں ایف اے بی مالخانہ میں ہوا جہاں انوینٹری، ہینڈلنگ اور خطرناک ہتھیار موجود ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دھماکا پولیس کانسٹیبل شہزاد کی جانب سے دستی بم سے چھیڑچھاڑ کی وجہ سے ہوا جس کے لیے وہ نہ ہی تربیت یافتہ تھا اور نہ وہ اس کام میں ماہر تھا جس کے نتیجے میں وہ خود جاں بحق ہوگیا، اس کے علاوہ ایک اور شخص کی جان گئی جبکہ دیگر افراد شدید زخمی ہوئے‘۔

انکوائری میں کہا گیا کہ ’ایف اے بی مالخانہ میں دو دستی بموں کی اصلیت ابھی تک واضح نہیں ہوسکی اور سچائی کا پتا لگانا انتہائی ضروری ہے۔‘

تاہم انکوائری رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ ہیڈ کانسٹیبل سہیل نے اپنے اعلیٰ افسران کو بتائے بغیر دستی بموں کو ایف اے بی مالخانہ سے پی ایچ کیو گارڈن مالخانہ منتقل کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: دستی بم حملے میں رینجرز کے سابق افسر جاں بحق

انکوائری رپورٹ میں اس معاملے میں سہیل کے کردار پر شک کیا گیا، رپورٹ میں کہا گیا کہ سہیل کا عمل ان کی نیت اور دیانت پر سنگین شکوک پیدا کرتا ہے، یہ عمل سراسر غفلت اور دوسرے انسانوں کی زندگیوں کو نظر انداز کرنے کا حامل اور انتہائی قابل مذمت ہے۔

انکوائری میں اسلحہ خانے کے زخمی انچارج سب انسپکٹر سعید کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کسی کی اجازت لیے بغیر نامعلوم مقاصد کے لیے دو انتہائی خطرناک دستی بم حاصل کرنے کی وجہ سے سب انسپکٹر سعید کا کردار بھی مشکوک ہے، نااہلی، غفلت اور بدانتظامی کے لیے دونوں مجرم اہلکاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف اے بی میں تعینات ہیڈ کانسٹیبل سہیل 'چیکنگ' کے لیے دو دستی بم لائے اور زخمی اسلحہ انچارج سب انسپکٹر سعید احمد کو بتایا کہ ان دستی بموں کا پولیس کے اسلحہ خانے کے ریکارڈ میں اندراج نہ کرے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں احساس پروگرام کے دفتر پر دستی بم حملہ، ایک شخص جاں بحق

سب انسپکٹر سعید نے دونوں دستی بم ایک میز پر رکھے اور دفتر سے نکل کر قریب موچی کی دکان پر چلا گیا، کانسٹیبل شہزاد نے ایک دستی بم کو موچی کی دکان کے قریب لاکر ڈیٹونیٹر کو دستی بم میں ڈالنا شروع کر دیا۔

سب انسپکٹر سعید کو پولیس کانسٹیبل شہزاد نے دو بار منع کیا اور چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا کہا کیونکہ دستی بم پہلے سے ہی 'زنگ آلود' حالت میں تھا، کچھ دیر بعد دستی بم پھٹ گیا۔

ایف اے بی مالخانہ کے ہیڈ کانسٹیبل سہیل عزیز نے انکوائری ٹیم کو بتایا کہ دو ماہ قبل اُنہیں ’پولیس اسلحہ خانہ سے کچھ بغیر ریکارڈ والے گیس کے خول‘ ملے تھے جو انہوں نے اسلحہ انچارج سب انسپکٹر سعید احمد کے حوالے کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں دستی بم حملہ، 2 افراد زخمی

اس کے علاوہ 3 اگست کو چیکنگ کے دوران انہیں ایک چھوٹے ڈبوں کے اندر دو دستی بم پڑے ہوئے ملے تھے جو ’پولیس ریکارڈ میں نہیں‘ تھے، جس کے بعد انہوں نے دونوں دستی بم اور اس کی پن کو ڈبوں سے نکال کر اپنی قیمض کی جیب میں رکھ دیا اور اسے انچارج کے حوالے کرنے کے لیے پی ایچ کیو آرمری لے گئے۔

انہوں نے سب انسپکٹر سعید کو بتایا کہ یہ دستی بم مالخانہ میں رکھے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں کہ کیا یہ دستی بم کیس پراپرٹی تھے، سہیل نے جواب دیا کہ انہیں اس بارے میں علم نہیں ہے کیونکہ یہ مالخانہ 1974 میں حیدرآباد سے پی ایچ کیو گارڈن، کراچی منتقل کیا گیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں ایسے دستی بموں کے بارے میں کوئی تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ دستی بم کسی اور نے ان کے حوالے کیے؟ تو ہیڈ کانسٹیبل سہیل نے جواب دیا کہ تقریباً دو ماہ قبل اس طرح کے تمام اسلحہ اور گولہ بارود پرانے مالخانہ سے نئے مالخانہ (ایف ڈی آفس) منتقل کردیے گئے تھے جبکہ پرانے مالخانہ میں ’پولیس میوزیم‘ بنایا گیا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح کے دستی بم نئے مالخانہ میں منتقل کردیے گئے ہوں لیکن انہوں نے اچھی نیت کے ساتھ یہ دستی بم اسلحہ خانے کے انچارج کے حوالے کر دیے تھے۔

حقیقی آزادی کے لیے ’ٹائیگرز‘ بنیں، عمران خان کا نوجوانوں کو پیغام

محکمہ موسمیات کی آج سے کراچی سمیت ملک بھر میں مزید بارشوں کی پیش گوئی

توہین مذہب کے واقعات اور ہمارا اجتماعی رویہ