ادبِ اطفال کے 75 سال: 20 ویں صدی میں بچوں کے اردو رسائل
بچوں کو مستقبل میں کارآمد فرد بنانے کے لیے دنیا بھر میں ان کے مزاج اور معاشرت کے لحاظ سے ان کے لیے ادب تخلیق کیا جاتا ہے۔ یہ ادب بچوں کے لیے ان کی دلچسپی کے مطابق اپنے معاملات کو ٹھیک کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
یہ ادب بچوں کو ہمت و جرأت، عزم و حوصلے، سچ سے محبت، جھوٹ سے نفرت، حاضر دماغی، نظم و ضبط، تہذیب، قومی و ملی جذبے، سماجی شعور، بھائی چارگی، رحم دلی، اخوت، حیا، انکساری، کسرِ نفسی اور عزت و احترام جیسی متعدد صفات کا حامل بناتا ہے۔
بچوں کے ذہن میں بہت سارے سوالات ہوتے ہیں اور ان سوالات کی تشفی بچوں کا ادب ہی کرواتا ہے۔ یہ بچوں کا ادب ہی ہے جو بچے میں لطیف جذبات پروان چڑھاتا ہے اور اس کے ذوقِ جمال کو بڑھاوا دیتا ہے۔ غرض یہ کہ کوئی بھی معاشرہ جب اپنے بچوں میں کسی اچھی صفت کو ناپید پائے تو وہ اسے بچوں کے ادب میں شامل کردے۔ چند ہی برسوں میں نئی نسل ان خصوصیات سے متصف ہوگی جو ہم ان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
آزادی کے کئی برس بعد بچوں کے اردو ادب میں منفی اثرات مرتب ہوئے، رسالے بند ہوگئے، ناشرین منتشر ہوئے اور آبادی میں اضافہ ہونے کے باوجود رسائل کی اشاعت کم ہوتی چلی گئی۔ اس پر مستزاد یہ کہ مصنفین اور شعرا نے وہ توجہ اور دلچسپی لینا چھوڑ دی جو پہلے کی نسلیں لیا کرتی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ اردو میں بچوں کا ادب کیا ہے؟ اور اسے اب تک کیسے برتا گیا ہے۔ ہمارے اکثر و بیشتر ادبا و شعرا اب تک اسی مخمصے میں ہیں کہ بچوں کا ادب کسے کہتے ہیں؟
ابتدا میں بچوں کو بہلانے کے لیے جو لوریاں اور لوک گیت وجود میں آئے اسے ہم بچوں کا ادب کہہ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر خوشحال زیدی کہتے ہیں کہ ‘بچوں کے ادب کی ابتدا دراصل ماں کی لوریوں سے ہی ہوتی ہے۔ ان لوریوں کو بچہ اس وقت سنتا ہے جب وہ پہلی بار دنیا میں آکر ماں کی گود میں آنکھیں کھولتا ہے۔ یہ گیت اور لوریاں صدیوں سے رائج ہیں’۔
ہمارے زمانہ حال کے ادیب اپنی تحریروں میں بچوں کے کردار شامل کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادب بچوں کا ہے۔ حالانکہ کسی تحریر میں بچوں کے کردار اور مکالموں سے ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ بچوں کی ہیں۔ بچے تو تحیر و تجسس کے دلدادہ ہیں، وہ تو اپنے مزاج کے مطابق ادبی تحریروں کو پسند کرتے ہیں۔
یہ بات ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ماضی میں بچوں کے لیے باقاعدہ ادب نہیں لکھا گیا تھا بلکہ لکھنے والوں نے لکھا تو بڑوں کے لیے تھا لیکن بچوں نے ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد اسے اپنی ملکیت سمجھا۔
ڈاکٹر محمود الرحمن نے اس بات کا خود بھی اعتراف کیا ہے کہ ‘تھیکرے’ (Thackeray) کی کتاب Henry Esmond جو صرف بڑوں کے لیے لکھی گئی تھی، بچوں میں بے حد مقبول ہوئی۔ اس طرح مشہور شاعر اورادیب ‘جان بینن’ (John Bunyan) نے زنداں کی دیواروں میں مقید ہوکر Pilgrim’s Progress جیسی مذہبی کتاب لکھی، اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ اس کی تخلیق پر بچے اپنی ملکیت کا دعویٰ کر بیٹھیں گے۔
بچہ فطرتاً حرکت و عمل پسند کرتا ہے، جس کہانی یا نظم میں حرکت ہو، صرف مکالمے کے ذریعے نہیں عمل کے ذریعے کہانی آگے بڑھ رہی ہو، ایسی کہانیوں میں بچوں کی دلچسپی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ حرکتِ عمل تحریروں میں جان ڈال دیتا ہے۔ ایسی تحریر بچے اور اس کی شخصیت پر دیرپا اثرات چھوڑتی ہے، ایسی کہانیاں انسانی شعور کا حصہ بن جاتی ہیں اور زندگی کے کئی مواقعوں پر یہ کہانیاں رہنمائی کرتی نظر آتی ہیں۔
غلام حیدر کا اصرار ہے کہ بچوں کا ادب خالص تفریحی، وقت گزاری، مشغلے یا صرف اخلاقی قدروں کو پہچاننے کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے زیادہ افادی بنانے کے لیے اسے تعلیمی زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے ادب کو فرحت ومسرت کے ساتھ تعلیمی اور تربیتی شعور بھی مہیا کرنا چاہیے تاکہ ان بچوں کو آنے والی زندگی کے شعور کے ساتھ آنے والے حالات کے لیے بھی تیار کیا جائے۔
2000ء سے قبل جب ہم ماضی میں بچوں کے ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں ہمیں نظیر اکبرآبادی، سورج نرائن مہر، بے نظیر، تلوک چند محروم، علامہ اقبال، اسمٰعیل میرٹھی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی ممتاز علی، محمدی بیگم، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، رگھوناتھ سہائے، فراق گورکھ پوری، ابوالاثر حفیظ جالندھری، مولانا تاجور نجیب آبادی، عبد المجید سالک، اختر شیرانی اور مولانا چراغ حسن حسرت سمیت بے شمار ادیب اور شعرا نظر آتے ہیں جنہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں، مضامین اور نظمیں لکھیں۔
ان میں نظیر اکبر آبادی، سورج نرائن مہر، تلوک چند محروم، علامہ اقبال اور اسمٰعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے بہترین نظمیں لکھیں۔ مولانا آزاد، مولانا تاجورنجیب آبادی، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، حفیظ جالندھری، مولانا سالک اور مولانا حسرت نے نظم اور نثر دونوں میں لکھا، جبکہ مولوی ممتاز علی، محمدی بیگم اور رگھو ناتھ سہائے نے بچوں کے لیے اخلاقی، اصلاحی اور دلچسپ نثری مضامین اور کہانیاں تخلیق کیں۔
اسی طرح قیامِ پاکستان سے قبل بچوں کے بہت سے رسائل شائع ہورہے تھے۔ خصوصاً تعلیم وتربیت اور کھلونا جیسے رسائل بچوں کے ادب کی پہچان تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بچوں کے 350 رسائل شائع ہوئے، ان رسائل میں نمایاں رسائل کا مختصر تعارف ملاحظہ کیجیے۔
میر خلیل الرحمٰن کے کہنے پر شفیع عقیل نے جون 1951ء میں بھائی جان کا پہلا شمارہ نکالا۔ یہ شمارہ جنگ اخبار کے زیرِ اہتمام نکالا گیا تھا۔ اس سے قبل شفیع عقیل نونہال لیگ کے نام سے جنگ میں بچوں کے لیے صفحہ مرتب کیا کرتے تھے۔
شفیع عقیل نے بچوں کے ادبی ذوق کو دیکھتے ہوئے ‘بزمِ نو آموز مصنفین’ قائم کی۔ اس تنظیم کے تحت ہر اتوار کو پاکستان چوک میں واقع ‘انجمن ترقی اردو لائبریری’ میں اجلاس ہوتے تھے، جہاں بچے اپنے مضامین، کہانیاں اور نظمیں پڑھتے تھے اور ان پر بحث و تنقید ہوتی تھی۔ ان اجلاسوں میں بچوں کے لیے لکھنے والے معروف ادیب بھی شریک ہوئے جن میں حفیظ جالندھری، زیڈ اے بخاری، مجید لاہوری، شوکت تھانوی، ماہر القادری، سراج الدین ظفر، ابن انشا، محشر بدایونی، ادیب جونپوری، تابش دہلوی، اظہر نفیس، صہبا اختر، اکبر آبادی اور دیگر کئی نام شامل تھے۔ ان اجلاسوں کی کارروائی باقاعدہ شائع بھی ہوتی تھی۔
شفیع عقیل بتاتے ہیں کہ ‘بھائی جان کو روایتی ڈگر سے ہٹانے کے لیے پرچے میں نئے لکھنے والوں کے لیے ننھے ادیب کے نام سے سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس سلسلے سے دراصل بچوں کی حوصلہ افزائی مقصود تھی’۔
بھائی جان میگزین کی خاص بات یہ تھی کہ ہر سال ماہ جنوری میں سالِ نو نمبر اور اگست میں سالنامہ شائع کیا جاتا تھا۔ بھائی جان کے خاص موضوعاتی نمبروں نے خوب دھوم مچائی جن میں 1952ء میں بچپن نمبر، اپریل 1953ء میں شرارت نمبر، اگست 1950ء میں جھوٹ نمبر، دسمبر1960ء میں لطیفہ نمبر، اگست 1961ء میں انتخاب نمبر شائع کیا گیا۔
بھائی جان ایک بڑے اخبار سے وابستہ تھا، اس لیے اس کو لکھنے کے حوالے سے اچھے ادیب میسر آئے جنہوں نے خوب جم کر لکھا۔ ان میں ابن انشا، حفیظ جالندھری، محشر بدایونی، صوفی تبسم، راجہ سید مہدی علی خاں، حسینہ معین، محسن بھوپالی، مستنصر حسین تارڑ، نسیم درانی، غازی صلاح الدین، انور شعور، قمر علی عباسی، رضا علی عابدی، عفت گل اعزاز، سحر رومانی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ بچوں کا یہ خوبصورت رسالہ بلآخر نومبر 1962ء کو بند کردیا گیا۔
ماہنامہ ساتھی کا پہلا شمارہ اگست 1977ء کو شائع ہوا۔ ماہنامہ ساتھی نے بہت جلد سالانہ سے ماہنامہ کی طرف چھلانگ لگائی اور تسلسل کے ساتھ شائع ہونا شروع ہوا۔ ماہنامہ ساتھی کی خاص بات یہ ہے کہ اسے طالبِ علم شائع کرتے ہیں۔ طالب علم ہی اس کے مدیر اور مجلس ادارت کی ذمہ داریوں پر فائز ہیں۔ یہ طلبہ رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں اور اس مَد میں کوئی تنخواہ نہیں لیتے۔
ماہنامہ ساتھی کی ٹیم ہر چند برس بعد تبدیل ہوجاتی ہے اور نئے طلبہ اس رسالے کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں۔ اس رسالے سے وابستہ افراد ہی اس کے مدیر مقرر ہوتے ہیں۔ ادارے کا ذہین اور سینیئر طالبِ علم مدیر کے منصب پر فائز ہوتا ہے۔
1977ء سے شائع ہونے والا ماہنامہ ساتھی مستقل مزاجی کے ساتھ ہر ماہ شائع ہورہا ہے۔ ماہنامہ ساتھی کے اب تک 20 مدیران اپنی خدمات سر انجام دے کر زندگی کے مختلف شعبوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام انجام دے رہے ہیں، جبکہ اس وقت 21ویں مدیر عاقب جاوید جامعہ کراچی میں شعبۂ اردو کے طالب علم ہیں۔
ماہنامہ ساتھی دراصل ادارہ ساتھی میں تبدیل ہوچکا ہے اور اس ادارے کے تحت اب تک 20 کے قریب کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ سالناموں کو نکال کر اب تک 40 خاص نمبر بھی شائع ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی کے لیے 15 رائٹرز ایوارڈ منعقد ہوئے ہیں۔ اسی طرح 2 رائٹرز ایوارڈ کے ساتھ مشاعرے کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔
دسمبر 1945ء میں مطبع یونائیٹڈ پبلی کیشنز سے ماہنامہ ہمدرد نونہال کی اشاعت کا بھی پتا چلتا ہے۔ اس کے مدیر کا نام درج نہیں جبکہ یہ 600 کی تعداد میں شائع ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں یہاں یہ بات تحقیق کے حوالے سے کرتا چلوں کہ حکیم محمد سعید کا رسالہ ماہنامہ ہمدرد نونہال اور ماہنامہ نونہال 2 الگ رسالے ہیں۔
حکیم سعید کو بچوں سے خصوصی لگاؤ تھا اور اس لگاؤ کی عملی شکل ہمدرد نونہال میں نظر آتی ہے۔ ماہنامہ نونہال کا آغاز ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی حکیم سعید نے 1953ء میں کیا اور اس کے پہلے مدیران میں فریدہ ہمدرد، ثریا ہمدرد اور مسعود احمد برکاتی کا نام شمار ہوتا ہے۔
مسعود احمد برکاتی تاحیات مدیرِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ مسعود احمد برکاتی کو 2 اعزاز حاصل ہوئے۔ ایک یہ کہ وہ کسی بھی رسالے کے سب سے زیادہ عرصہ رہنے والے مدیر ہیں۔ دوم یہ کہ نومبر 1982ء میں انہوں نے ماہنامہ ہمدرد نونہال ہی میں بچوں کے لیے سفرنامہ ‘دو مسافر دو ملک’ کے نام سے لکھا جو قسط وار شائع ہوا اور اس سفرنامے کو بچوں کے لیے لکھا جانے والا سب سے پہلا سفرنامہ مانا جاتا ہے۔
تعلیم وتربیت کے جائزے میں دیکھا گیا کہ خالد بزمی کا سفرنامہ لاہور سے کاغان تک ستمبر 1977ء کے شمارے میں شائع ہوا جبکہ مسعود احمد برکاتی کا سفرنامہ دو ملک دو مسافر نومبر 1982ء کو نونہال میں شائع ہوا۔ اس طرح تاریخی اعتبار سے خالد بزمی کا سفرنامہ پہلے شائع ہوا، یہ سفرنامہ بچوں کے لیے لکھا گیا تھا جو تعلیم وتربیت میں شائع ہوا تھا۔
ہمدرد نونہال کا ابتدا میں نام صرف نونہال تھا جو اپریل 1956ء میں معمولی اضافے کے ساتھ ماہنامہ ہمدرد نونہال ہوگیا۔
ہمدرد نونہال ایک طویل عرصے سے خاص نمبر کے عنوان سے صرف سالنامے شائع کر رہا ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب نونہال نے بھی موضوعاتی خاص نمبر شائع کیے۔ ان خاص نمبروں میں آزادی کے علم بردار نمبر، افریشا کی کہانیاں نمبر، غالب نمبر، اقبال نمبر، پاکیزہ نمبر وغیرہ شامل ہیں۔ نونہال نے کئی نسلوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بہت سارے ادیب و شاعر ہمدرد نونہال ہی کے ذریعے بڑے قلمکار بنے ہیں۔ ابتدا میں بڑے ادیبوں نے ہمدرد نونہال کو اپنی تحریروں اور نظموں سے سجایا۔ ان بڑے ناموں میں مسعود احمد برکاتی کے علاوہ رئیس امروہوی، آغا اشرف، ملا واحدی، قمر ہاشمی، محشر بدایونی، رشید احمد بٹ، محمد انور بھوپالی، کشور ناہید، رئیس فاطمہ، ڈاکٹر رؤف پاریکھ وغیرہ کے نام نظرآتے ہیں۔
تعلیم وتربیت کا شمار بچوں کے نمایاں رسائل میں ہوتا ہے۔ لاہور سے شائع ہونے والا یہ رسالہ ابتدا میں اسکولوں کے اساتذہ کی رہنمائی کے لیے جنوری 1928ء کو مولوی فیروزالدین نے نکالا۔ 10 سے 12 سال بعد مولوی فیروزالدین نے محسوس کیا کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رسالہ نکالنا از حد ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے 1941ء میں تعلیم وتربیت کو بچوں کے لیے مختص کردیا گیا۔
رسالے کو چلانے والے لوگ شعوری طور پر یہ بات سمجھتے تھے کہ بچوں کے لیے کس قسم کی کہانیاں اور مضامین ہونے چاہئیں۔ اس لیے ہمیں اس رسالے میں ایک معتدل اور حقیقت پسندانہ انداز نظر آتا ہے۔ مقبول انور داؤدی اس کے مدیر تھے جبکہ ان کے معاونین میں صائب ہاشمی اور سعید لخت شامل تھے۔ اپنی بامقصد تحریروں کی وجہ سے تعلیم و تربیت بچوں میں بہت مقبول ہوا۔ تعلیم و تربیت نے ابتدا میں اپنی ظاہری حالت، کتابت و طباعت کے معیار کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔
قیامِ پاکستان کے بعد بھی تعلیم و تربیت نے اپنی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا۔ مقبول انور داؤدی 1991ء تک تعلیم و تربیت کی مجلس ادارت سے وابستہ رہے۔ تعلیم و تربیت کے لکھنے والوں میں سعید لخت، یونس حسرت، اے حمید، کلیم چغتائی، حسن ذکی کاظمی، سید مقبول حسین شاہ، عبدالحمید عابد، خواجہ عابد نظامی اور نذیر انبالوی وغیرہ شامل تھے۔
تعلیم وتربیت میں شائع ہونے والے ناول بچوں میں بے حد مقبول ہوئے۔ اسی طرح چچا حیرت کا کردار بھی امتیاز علی تاج کے کردار چچا چھکن کی طرح مقبول ہوا۔ تعلیم و تربیت کا ایک خاصا یہ رہا ہے کہ اس نے مافوق الفطرت اور اساطیری داستانوں سے جان بوجھ کر احتراز برتا البتہ تمثیلی کہانیوں کے ذریعے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا سامان کیا جاتا رہا۔
قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں بچوں کے متعدد رسائل شائع ہوئے اور ہورہے ہیں لیکن جو شہرت آنکھ مچولی کو ملی، اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ احمد فوڈ انڈسٹریز نے گرین گائیڈ اکیڈمی کے تحت بچوں کے لیے جولائی 1986ء میں یہ رسالہ نکالا۔
آنکھ مچولی میں ابتدا ہی سے ہمیں بڑے بڑے نام نظر آتے ہیں جنہوں نے آنکھ مچولی کو بین الاقوامی معیار کا رسالہ بنانے کی کوشش کی۔ آنکھ مچولی کے ابتدائی مدیران میں مدیرِ اعلٰی ظفر محمود شیخ، اور مدیر مسئول تجمل حسین چشتی تھے، جبکہ امجد اسلام امجد اور سلیم مغل اعزازی مدیران تھے۔ کچھ عرصے بعد ادارتی ٹیم میں نئے لوگ شامل ہوئے جس کے مدیران میں سلیم مغل اور طاہر مسعود جبکہ معاون مدیران میں منیر احمد راشد اور محمد عمر احمد خان کے نام شامل ہوئے۔
آنکھ مچولی میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں تفریح کے عنصر کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔ سماجی برائیوں کو دلچسپ اشتہارات کے ذریعے اجاگر کیا جاتا۔ اسکیچز میں آنکھ مچولی بڑی عمدہ تصاویر کے ساتھ کہانیاں پیش کرتا رہا۔ سال میں 2 خاص نمبر شائع کرنے والا آنکھ مچولی متعدد منفرد خاص نمبر نکالنے کی روایت کو آگے بڑھاتا رہا۔ ان خاص نمبروں میں کرکٹ اسپیشل نمبر، خوفناک نمبر، حیرت انگیز نمبر اور عالمی ادب اطفال نمبر شامل تھے۔ ان خاص نمبروں کے ساتھ عموماً کوئی تحفہ بھی ہوتا تھا۔ یہ بچوں کے رسائل میں ایک اچھی روایت تھی۔
آنکھ مچولی میں لکھنے والے متعدد قلم کاروں نے بڑا نام کمایا۔ آنکھ مچولی میں لکھنے والوں میں فاطمہ ثریا بجیا، اخلاق احمد، احمد حاطب صدیقی، سیما صدیقی، نعیم احمد بلوچ، عبدالقادر، بن یامین، منیر احمد راشد اور سلیم مغل وغیرہ شامل تھے۔ مارچ 1997ء کے بعد آنکھ مچھولی کو بند کردیا گیا۔
تعبیر پبلشرز نے اکتوبر 1999ء میں لاہور سے دوبارہ آنکھ مچولی جاری کیا۔ اس میں احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، اشتیاق احمد، احمد حاطب صدیقی، شاہ نواز فاروقی، سید قاسم محمود، جاوید احمد غامدی، عطاالحق قاسمی وغیرہ نے لکھا۔ اس کے مدیر نعیم احمد بلوچ تھے۔ بالآخر یہ بھی بند ہوا اور پھر 2002ء میں پیغام ڈائجسٹ کے سابق مدیر ڈاکٹر رضوان ثاقب نے اس رسالے کو خریدا اور چند برس چلا کر انہوں نے بھی آنکھ مچولی بند کردیا۔
پیغام ڈائجسٹ کا آغاز جنوری 1976ء میں ہوا اور اس کی جائے پیدائش ضلع سیالکوٹ کا ایک دُور افتادہ قصبہ کلاس والا تھا۔ پیغام ڈائجسٹ کے بانی مدیر ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر ہیں۔
پیغام کی خاص بات یہ ہے کہ طلبہ تنظیم کا پرچہ ہونے کی وجہ سے طالب علم ہی اس کی انتظامیہ میں شامل ہوتے ہیں اور ہرچند برس بعد پیغام کی ٹیم تبدیل ہوتی ہے۔ اب تک پیغام کے 25 مدیران پیغام کو سنوارتے نکھارتے ہوئے عملی زندگیوں میں قدم رکھ چکے ہیں۔ ان مدیران میں ڈاکٹر افتخار کھوکھر، محمد عملش، حامد ریاض ڈوگر، نجم الحسن عارف، زبیر خان بابر، ڈاکٹر رضوان ثاقب، اشفاق احمد خان، ناصر محمود اعوان، ڈاکٹر احمد حسن رانجھا اور طلحہ ادریس کے نام نمایاں ہیں۔
پیغام ڈائجسٹ کا اجرا کیسے ہوا؟ اس کی تفصیل ڈاکٹر افتخار کھوکھر بتاتے ہیں کہ ‘ایک طلبہ تنظیم کا صدر منتخب ہونے کے بعد ہم نے معمول سے ہٹ کر کچھ کرنے کا سوچا۔ اس مقصد کے لیے کلاس والا کے صاحبِ حیثیت حضرات سے ماہانہ بنیاد پر وسائل جمع کرنے کا پروگرام بنایا۔ یہ سلسلہ اسی وقت مؤثر ہوسکتا تھا جب ہمارے معاونین کو ہر ماہ ہماری سرگرمیوں اور کام کی وسعت سے باخبر رکھا جاتا۔ اسی مقصد کے لیے سوچا گیا کہ ماہانہ خبرنامے یا بلیٹن کا آغاز کیا جائے۔ یوں ایک دعوتی پمفلٹ، ہمارا پیغام سے لفظ پیغام کو لے کر پیغام ڈائجسٹ کا اجرا کیا گیا۔ جون 1970ء سے پیغام ڈائجسٹ کا آغاز ہوا لیکن یہ خبرناموں پر مشتمل تھا۔ بچوں کی دلچسپی کا سامان پیدا کرکے پہلا باقاعدہ رسالہ جنوری 1976ء میں شائع ہوا’۔
2015ء میں پنجاب شمالی اور پنجاب جنوبی کے پیغام الگ الگ کردیے گئے۔ پنجاب شمالی سے پیغام اقبال نکلنے لگا جبکہ جنوبی سے پیغام ڈائجسٹ تسلسل کے ساتھ آج بھی شائع ہورہا ہے۔
محمد طارق خان کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ ‘پاکستان میں بچوں کے اُدرو رسائل: 1971 تا 2000’ کے موضوع پر ایم فل کرچکے ہیں۔ آپ بچوں کے ایک سے زائد ماہنامہ رسائل کے نائب مدیر اور مدیر رہ چکے ہیں اور اس وقت بھی ایک رسالے ‘بچوں کا آشیانہ’ سے بحیثیت مدیر وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔