پاکستان

ممنوعہ فنڈنگ فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری

یہ 70کی دہائی نہیں کہ پاگل پن میں کوئی کسی جماعت کو تحلیل کرے گا، آپ ہمیں صرف اپنے تحفظات بتائیں کیا ہیں، جسٹس بابرستار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست کو قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کا شوکاز نوٹس فوری معطل کرنے کی استدعا پر بھی فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں جسٹس میاں گل حسن اور جسٹس بابر ستار پر مشمتل تین رکنی لارجر بینچ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کی جہاں درخواست گزار کی جانب سے بیرسٹر انور منصور اور دیگر وکلا نے دلائل دیے۔

سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو دلائل کے لیے 24 اگست کو طلب کرلیا اور پی ٹی آئی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 دن میں سنانے کا حکم کالعدم قرار

بیرسٹر انور منصور نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ 2018 میں پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی اسکروٹنی شروع کی گئی جبکہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ تمام جماعتوں کے اکاؤنٹس کی اسکروٹنی کی جائے مگر الیکشن کمیشن نے صرف پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اپنے اختیارات سے آگے نکل گیا۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کسی شکایت پر کارروائی کی تھی، جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے انور منصور نے جواب دیا کہ پارٹی کا رکن ہونے کے دعویدار کی معلومات پر کارروائی ہوئی، اگر کسی پارٹی نے ممنوعہ فنڈنگ وصول کی تو الیکشن کمیشن وہ فنڈنگ ضبط کر سکتا ہے، اسی طرح الیکشن کمیشن کے پاس ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرنے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں۔

انور منصور نے دلائل دیے کہ قانون میں سیاسی جماعت کی جانب سے وصول کیے گئے ممنوعہ فنڈز ضبط کرنے کا ذکر ہے، کسی جماعت کی معلومات پی پی او کے مطابق نہ ہو تو درستی کا موقع بھی دیا جاتا ہے اور رُول 10 کے مطابق سیاسی جماعت کو درستی کا موقع دیا جا سکتا ہے اور اس قانون کے مطابق الیکشن کمیشن دوبارہ معلومات درست کر کے جمع کرانے کا کہہ سکتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو مارچ 2018 میں اسکروٹنی کا نوٹس جاری کیا، دیگر دو جماعتوں کو بھی الیکشن کمیشن نے اپریل 2018 میں نوٹس جاری کیا تھا، جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کون سا قانون لاگو کیا تو انور منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی پی او 2002 اپلائی کیا مگر اسکروٹنی کمیٹی نے الگ قانون پر انحصار کرکے رپورٹ جمع کروائی۔

یہ بھی پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: پی ٹی آئی نے 30 دن کی ڈیڈ لائن کو چیلنج کردیا

وکیل انور منصور نے کہا کہ رمیتا شیٹی کے اپنے شوہر کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ سے فنڈز آئے، الیکشن کمیشن نے خود تصور کرلیا کہ آدھی رقم رمیتا شیٹی اور آدھی ان کے شوہر کی طرف سے تھی، ویب سائٹ سے چیزیں نکال کر بغیر تصدیق کیسے رپورٹ کا حصہ بنائی جا سکتی ہیں۔

انہوں دلائل دیے کہ اسی طرح پی ٹی آئی کے اپنے ایجنٹس کو فارن کمپنیاں ظاہر کرکے دکھا دیا گیا مگر یہ حقیقت تو کبھی ہم نے چھپائی ہی نہیں تھی۔

وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کو ووٹن کرکٹ سے رقم 2013 میں آئی اور عارف نقوی پر برطانیہ میں الزام 2018 میں عائد ہوا مگر الیکشن کمیشن کہتا ہے، پی ٹی آئی کو 2013 میں پتا ہونا چائیے تھا اس شخص پر مستقبل میں جعل سازی کا الزام عائد ہوگا۔

جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ انور منصور صاحب آپ کیس کو ایک نکتے پر کیوں نہیں رکھتے، کیا یہ فنڈز ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے نہیں آئے، جس پر وکیل نے کہا کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنی سے نہیں ہے، ملٹی نیشنل کمپنی کی تعریف موجود ہے، اس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ کہاں ہے ملٹی نیشنل کمپنی کی تعریف وہ ہمیں دکھائیں۔

بینچ کے سوال پر پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے ملٹی نیشنل کمپنی کی مختلف تعریفیں پڑھ کر سنائیں جس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ کیا آپ نے یہ سب الیکشن کمیشن کو بتایا تھا تو انور منصور نے جواب دیا کہ ہم نے سب کچھ دیا تھا مگر انہوں نے اس پر ایک لفظ نہیں کہا، قانون میں یہ نہیں لکھا کہ انفرادی شخص کے علاوہ کسی سے فنڈ نہیں لینا، جس پر جسٹس عامر فارق نے کہا کہ قانون میں یہ ضرور لکھا ہے کہ صرف انفرادی فنڈز لینے ہیں تو صرف کے لفظ کو کیسے نظر انداز کریں گے۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ سنگل اونر کمپنی کو ایک انفرادی شخص کا فنڈ ہی کہا جائے گا، ڈومیسٹک طور پر بنائی گئی کمپنی کا ذکر الگ رکھا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی آج سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی

بینچ کے رکن جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ کیا آپ الیکشن کمیشن کی آبزرویشن حذف کرانا چاہتے ہیں تو انور منصور نے جواب دیا کہ عدالت کمیشن کی رپورٹ سے کئی آبزرویشنز حذف کر سکتی ہے، تاہم عدالت نے کہا کہ ہم کس دائرہ اختیار کے تحت یہ آبزرویشنز حذف کریں یہ تو صرف ایک رپورٹ ہے یہ کوئی الیکشن کمیشن کا ایکشن تو نہیں۔

انور منصور نے مزید کہا کہ یہ ایکشن ہی ہے جو میں آپ کے سامنے پڑھ دیتا ہوں، الیکشن کمیشن نے اسے آرٹیکل 17 کا معاملہ ڈیکلئیر کردیا ہے، غیر ملکی فنڈنگ والی پارٹی کون سی ہو گی وہ قانون میں واضح ہے مگر بڑی مہارت سے معاملے کو آرٹیکل 17 دو کا مقدمہ بنایا گیا۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ 70کی دہائی نہیں کہ پاگل پن میں کوئی کسی جماعت کو تحلیل کرے گا، آپ ہمیں صرف اپنے تحفظات بتائیں کیا ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اس معاملے کو الگ سے دیکھ رہا ہو گا مگر یہ بتائیں کہ آپ چاہتے کیا ہیں، فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے حقائق تو ہم جا کر ٹھیک نہیں کر سکتے، الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ آپ اپنے اکاؤنٹس ظاہر نہیں کرسکے اور ایف آئی اے کو اسی صورت کارروائی کرنی ہے جب ان کا دائرہ اختیار بنے گا اور ایف آئی اے تفتیش میں دیکھے گا کہ ان کا دائرہ اختیار بنتا ہے یا نہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا ہے، عدالت نے کہا کہ ابھی وفاقی حکومت نے خود کو مطمئن کرنا ہے کہ کیا تحریک انصاف فارن فنڈڈ پارٹی ہے، وفاقی حکومت ڈیکلریشن دینے سے پہلے تحریک انصاف کو نوٹس جاری کرے گی اور آپ (وکیل) جن خدشات کا اظہار کر رہے ہیں وہ تو بہت پری میچور ہیں۔

مزید پڑھیں: ای سی پی کو پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 روز میں کرنے کا حکم

وکیل انور منصور نے کہا کہ ایف آئی اے نے الیکشن کمیشن کی رپورٹ کو حکم کے طور پر لیا ہے جس پر جسٹس عامر فارق نے کہا کہ ایف آئی اے کے سامنے کوئی جرم آئے گا تو وہ کارروائی کرے گا، ایف آئی اے 302 کی کارروائی تو نہیں کرے گا۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر شوکاز نوٹس دیا جائے گا، شوکاز نوٹس دیا جا چکا ہے، اس کے بعد معاملہ فنڈز ضبطی کا ہے اس لیے ہمارا مؤقف یہ ہے کہ فنڈز کے ذرائع ممنوعہ نہیں تھے، الیکشن کمیشن کو کوئی ڈیکلریشن نہیں دینا چاہیے تھا کیونکہ الیکشن کمیشن کوئی عدالت یا ٹربیونل نہیں ہے جبکہ عمران خان کو کوئی نوٹس جاری کیے بغیر ان کا سرٹیفکیٹ غلط قرار دیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا تھا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا جبکہ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے نے اسے الیکشن کمیشن کا فیصلہ تصور کر لیا ہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ سماعت کا فیصلہ

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر اس رپورٹ کو کالعدم بھی قرار دے دیں تو پھر بھی ایف آئی اے تفتیش تو کر سکتا ہے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ بہت سی چیزیں نیب اور ایف آئی اے کو ارسال کر دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی وکیل کی جانب سے دلائل کے بعد عدالت نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کا شوکاز نوٹس فوری معطل کرنے کی استدعا پر بھی فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا اور اس معاملے پر 24 اگست کو دلائل دینے کے لیے طلب کرلیا۔

کیا کپتان بند گلی میں چلے گئے؟

نیدرلینڈز کو 7 وکٹوں سے شکست، پاکستان کی سیریز میں فیصلہ کن برتری

بیوی اور بیٹی سے ڈرتا ہوں، اہلیہ کے سامنے کوئی اوقات نہیں، خلیل الرحمٰن قمر