سرکاری سطح پر جشنِ آزادی کی بڑی عوامی تقریبات کیوں نہیں ہوتیں؟
مشرق سے مغرب تک آسمان آتش بازی کے لال، سبز اور سفید رنگوں سے دمک رہا تھا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی آسماں پر رنگ ہی رنگ، روشنی ہی روشنی اور چمک ہی چمک بکھری تھی۔ پھلجھڑیاں بکھرنے کی دھیمے حدت انگیز موسیقی پورے ساحل پر بکھرے ہزاروں افراد کو دم بخود کرنے کے لیے کافی تھی۔ ہر ملک ہر قومیت کے لوگ، ان کے خاندان اور بچے کیمرے موبائل لیے ان خوبصورت نظاروں کو محفوظ کرنے میں مصروف تھے۔
حالانکہ یہ نظارے یہاں تقریباً ہر سال نظر آتے ہیں مگر ہر سال ہر کوئی اس کے لیے وقت نہیں نکال پاتا اکثر لوگ کچھ ہی سالوں میں واپس کوچ کر جاتے ہیں چنانچہ یہ نظارہ ہر کسی کے لیے بہت محظوظ کن اور قیمتی تھا۔
اگرچہ میں نے برج خلیفہ کے نیچے سارا دن گزار کر رات 12 بجے ہونے والی نیو ایئر نائٹ کی آتش بازی بھی دیکھ رکھی ہے مگر اس کا بھی ابوظہبی کے ساحل پر ہونے والی اس آتش بازی سے کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ یہ نظارہ اپنے آپ میں کوئی الگ ہی چیز تھا۔
یہ عرب امارات کا دارالحکومت ابوظہبی کا 8 کلومیٹر طویل کارنیش تھا جو نیشنل ڈے کے موقع پر چاروں طرف سے ابوظہبی، دبئی اور دوسری ریاستوں سے آنے والوں سے بھرا ہوا تھا، جن میں عربی، یورپی، امریکی اور ایشیائی کی کوئی تمیز نہ تھی۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عرب امارات کا دارالحکومت ابوظہبی ہے جو اپنی امارت، سیکیورٹی، سہولیات اور طرزِ زندگی میں دبئی سے کئی درجے آگے رہتا ہے۔
تو یہ عرب امارات کے نیشنل ڈے یعنی 2 دسمبر پر منائے جانے والا سب سے بڑا جشن تھا جس کے لیے لوگ ہر ریاست سے یہاں جمع ہوتے ہیں۔ صبح سے گاڑیاں بھر بھر کر لوگ چاروں طرف سے کرسیاں، میز، کھانے کا سامان، بچوں کے کھلونے، سائیکلیں، اسکوٹیاں، ٹینٹ اور بار بی کیو کا سامان لیے کارنیش روڈ پر نمودار ہونے لگتے ہیں اور کارنیش پر، ساحل پر اور اس کے آس پاس موجود تمام پارکس میں جگہ جگہ ڈیرہ جماتے چلے جاتے ہیں۔
دوپہر سے چاروں طرف کی سڑکیں بھر جاتی ہیں اور ٹریفک کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔ جہاں لوگوں کو دبئی سے ابوظہبی پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے وہاں ان دنوں ابوظہبی کے سینٹر سے کارنیش تک پہنچتے پہنچتے 4، 5 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ بس اسی لیے سمجھدار لوگ صبح سویرے رش بڑھنے سے پہلے ہی یہاں پہنچنے اور من پسند جگہ پر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آتش بازی کا مظاہرہ عموماً رات 8 یا 9 بجے تک شروع ہوتا ہے جو اکثر باقاعدہ 2 دن یعنی یکم اور 2 دسمبر کو منعقد ہوتا ہے۔ مگر اس کارنیش پر ہونے والی تقریب 30 تاریخ سے شروع ہوجاتی ہیں کیونکہ 30 نومبر یہاں یومِ شہدا کے طور پر منایا جاتا ہے۔
چار دن تک کارنیش پر میلے کا سماں رہتا ہے تاکہ لوگ اپنی آسانی اور فرصت سے اس میں شرکت کرسکیں۔ وسیع ساحل کی وجہ سے کثیر تعداد میں عوام کی موجودگی کے باوجود بھی یہاں گھٹن کا ماحول پیدا نہیں کر پاتی۔
جس سال ہم نے یہ میلہ دیکھا تب اس آتش بازی سے پہلے اماراتی افواج کی طرف سے لڑاکا طیاروں کا فضائی مظاہرہ بھی شامل تھا جو شام 5 بجے اسی ساحل پر پیش کیا گیا، جس میں طیاروں نے خوب کمال کے کرتب پیش کیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ طویل ترین ساحل پر ایک طرف بڑا سا اسٹیج بنایا گیا تھا جس پر شام سے ملی نغمے اور گیت بجنے لگے تھے۔
مختلف اسکولوں اور کالجوں کی طرف سے ڈانسز، نغمے اور علاقائی رقص پیش کیے گئے۔ یہ اپنی طرز کا خوبصورت کنسرٹ 4 دن تک رات دیر تک چلتا رہتا ہے۔ میوزک اور انتظامات اس قدر اعلیٰ کہ ہمارے ہاں مہنگے سے مہنگے کنسرٹ میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتے۔ سیکیورٹی اتنی مضبوط کہ سارا امارات ساحل پر موجود مگر کسی کی دوسرے کو ہاتھ لگانے کی جرأت نہیں۔
صرف یہی نہیں آگے چلیے تو بہت سے حصوں میں جگہ جگہ الگ کمپارٹمنٹ بنا کر بچوں کے لیے مختلف کھیلوں کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس میں عملہ ایک ایک بچے کو باری باری اپنی نگرانی میں مختلف قسم کے کھیل کھیلنے میں مدد دیتا ہے اور کوئی ایک نہیں بلکہ ایسے بہت سے پلے گراؤنڈ بنائے گئے تھے۔
سب سے بڑھ کر یہ بات کہ یہ سارے انتظامات، یعنی میلے سے کنسرٹ، اور فضائی مظاہرے سے بچوں کے گیمز اور آتش بازی تک بالکل مفت ہے۔ لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بچے قطار میں لگے مختلف کھیلوں میں حصہ لے رہے ہوتے ہیں۔ آپ ایک دن جائیں یا چاروں دن جاکر مفت کی پکنک کا لطف اٹھائیں وہ پوری فیملی کے لیے مزے سے بھرا دن ہوتا ہے۔
مانا عرب امارات ایک دولت مند ریاست ہے مگر دولت کے ساتھ کام کرنے کا ہنر اور جذبہ بھی ہو تو بات بنتی ہے۔ جہاں ہر سال اربوں روپے پاکستان کے طاقتور حلقے، سیاستدان، بیوروکریسی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں یا بیرونِ ملک اکاؤنٹ میں بھجوا دیتے ہیں اگر اس میں سے کچھ عوام کی خوشی کے لیے خرچ ہوجائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ صرف جذبہ اور نیت چاہیے۔
امارات کا تو نیشنل ڈے ہے یعنی وہ دن جب ساتوں ریاستیں متحد ہوئیں لیکن ہمارا تو یومِ آزادی ہے جب ہم نے نہ صرف بھرپور قربانیوں کے بعد انگریز سے آزادی حاصل کی بلکہ اپنے لیے الگ ملک بھی حاصل کیا۔ عوام سے دُور محفوظ جگہوں پر پریڈ اور پرچم کشائی کروانے میں عوام کا کیا حصہ ہے؟
پاکستان کے دارالحکومت میں اس اہم دن پر عوام کے لیے حکومت کی طرف سے کیا گیا جشن یا انتظامات کچھ بھی نہیں؟ پھر شکایت کیسی کہ عوام سڑکوں پر نکل کر ہلڑ بازی کرتے ہیں اور باجے بجاتے ہیں۔ جب آپ کے پاس ان کے لیے کوئی منصوبہ ہی نہیں تو جو ان کے اختیار میں ہوگا وہ وہی کریں گے۔
لوگ کہتے ہیں کہ تنقید کرنا آسان ہے، بہتری کے لیے تجویز دی جائے، تو سوچا کیوں نہ کچھ تجاویز دے دوں کہ میں نے دیکھا ہے ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے محکمے میں ایک چھوٹا سا ایسا طبقہ ضرور ہوتا ہے کہ جو وہ کرنا چاہتے ہیں کر دکھاتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے یہ سارا نظام چل رہا ہے۔
تو جناب کیا پورے اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ کے آس پاس یا اندر کوئی کونا ایسا نہیں جہاں اس جشن کی حکومتی تیاری ہوسکے۔ کوئی میلہ، کوئی مینا بازار کوئی کلچرل شو جہاں سارے شہر کے اسکول اور کالج کے بچے ملی نغمے گا سکیں؟ جہاں کوئی ایک دو گلوکار لائیو گیت گا سکیں؟ جہاں بچے اور نوجوان مختلف کھیلوں اور مقابلوں میں حصہ لے سکیں؟ اپنے جوش اور جذبے کا اظہار کرسکیں۔
یہی عوام جو گانے سننے جلسوں میں چلے جاتے ہیں، کیا ان کے لیے ایسا کوئی مفت کا بندوبست حکومت نہیں کرسکتی جہاں ہر طبقے کے لوگ پورا ایک دن تفریح کرسکیں اور جشن آزادی منا سکیں۔ کچھ جھولے کچھ تفریح بچوں کے لیے، کوئی آتش بازی اس عوام کے لیے جو آزادی کے اس دن کو منانا چاہتی ہے مگر منا نہیں پاتی۔
اگر ایسا کرلیا گیا تو یہ جو جگہ جگہ سڑکیں بند ہوجاتی ہیں، ہم اس سے بھی بچ جائیں گے اور جشن بھی چلتا رہے اور کاروبار زندگی بھی۔ لوگوں کے پاس اس روز کچھ کرنے کے لیے کوئی جگہ کوئی اہتمام ہو۔
ہزار ہزار پردوں میں ہونے والی پرچم کشائیاں اور پریڈ سے عام عوام کو کیا ملا ہے؟ ایک نظارہ تک نہیں! کیا اس میں سے اس روز عوام کو کچھ حصہ نہیں مل سکتا؟ بس یہی عرض ہے کہ کچھ تو کیجیے کہ جس میں کبھی کبھار عوام اپنی ریاست سے خوش ہوجائے اور اس کا ناچنے کو دل کرے تو اس پر شرمندہ نہ ہو۔ پھر چاہے آپ باجے بین کردیں اور موٹرسائیکل کے سائلنسر نکال کر چلنے والوں کو گرفتار کرلیں۔ مگر جب تک آپ جذبات کے اظہار کا محفوظ بندوبست نہیں کریں گے وہ اسی طرح سے ابل ابل کر سڑکوں پر امڈتے اور ضائع ہوتے رہیں گے۔
صوفیہ کاشف ادبی مضامین اور افسانے لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ آپ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ SofiaLog پر پڑھ سکتے ہیں اور ان کے ولاگ ان کے یوٹیوب چینل SofiaLog. Vlog
پر دیکھ سکتے ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔