سندھ اسمبلی پہلی بار پارلیمانی سال میں 100 روز تک اجلاس کے انعقاد میں ناکام
سندھ اسمبلی میں طویل مدت کے بعد پہلی مرتبہ حالیہ پارلیمانی برسوں میں اجلاس کے انعقاد کے لیے 100 روز کی مقررہ تعداد سے کم دنوں تک اجلاس کا اہتمام کیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہر پارلیمانی سال میں کم از کم 100 روز اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد لازمی ہے، تاہم 12 اگست (کل) کو ختم ہونے والے موجودہ پارلیمانی سال میں یہ اجلاس صرف 71 روز تک منعقد کیا گیا۔
اسمبلی کے قواعد میں کہا گیا کہ ’ایک پارلیمانی سال میں اسمبلی کے کم از کم 3 سیشنز ہوں گے اور ایک سیشن میں اسمبلی کی آخری اجلاس اور اگلے سیشن کی پہلے اجلاس کی مقرر کردہ تاریخ کے درمیان 120 روز سے زیادہ کا وقفہ نہیں ہوگا'۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی نے 'رات گئے' بجٹ منظور کرلیا
رولز آف پروسیجر کے قاعدہ نمبر 28 کے ذیلی قاعدہ نمبر ایک میں کہا گیا ہے کہ 'بشرطیکہ اسمبلی ہر پارلیمانی سال میں کم از کم 100 کام کے دنوں کے لیے اجلاس منعقد کرے'۔
اس اصول پر عمل درآمد کے حوالے سے سندھ اسمبلی شہرت کی حامل ہے کیونکہ کورونا وبا کے دوران بھی سندھ اسمبلی میں 100 روز تک سیشن جاری رہا۔
2018 میں شروع ہونے والے موجودہ دور حکومت کے پہلے پارلیمانی سال میں صوبائی اسمبلی کا سیشن 130 روز، دوسرے پارلیمانی سال میں 101 روز اور تیسرے پارلیمانی سال میں 100 روز تک جاری رہا تاہم چوتھے پارلیمانی سال میں یہ سیشن صرف 71 روز تک جاری رہا۔
مزید پڑھیں: 'سندھ اسمبلی کی کمیٹیوں میں اپوزیشن کی نمائندگی نہیں'
اسمبلی قواعد میں دیے گئے شیڈول کے مطابق بھی سندھ اسمبلی اجلاس کے انعقاد میں ناکام رہی جس میں کہا گیا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس جون میں کم از کم 15 روز، ستمبر اور دسمبر میں کم از کم 12 روز اور اگست، اکتوبر، نومبر، جنوری، فروری، اپریل اور مئی میں کم از کم 7 روز منعقد ہوگا۔
اسی طرح سندھ اسمبلی نے اسمبلی قواعد کے مطابق صبح 10 بجے سے دوپہر 2 بجے تک اجلاس کے مخصوص اوقات کی پابندی نہیں کی۔
رواں پارلیمانی سال کے دوران اسمبلی کے تمام اجلاس ایک گھنٹے سے زائد تاخیر سے شروع ہوئے، صرف ایک اجلاس آدھے گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ہفتے میں کام کے دن کم کرنے پر غور
گزشتہ ماہ 4 جولائی سے شروع ہونے والے مون سون بارشوں کے پہلے اسپیل کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور مکیش کمار چاولہ نے بتایا کہ رواں سال مون سون سیزن میں 180 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جن کے سبب اسمبلی قواعد کے مطابق اسمبلی کا اجلاس 100 روز تک نہ ہو سکا۔
انہوں نے کہا کہ 'حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام اراکین اسمبلی اور صوبائی کابینہ کے اراکین بارش کے دوران پارٹی قیادت کی ہدایت کے مطابق اپنے اپنے علاقوں میں موجود رہے، ان کا اسمبلی اجلاس میں جانا ناممکن تھا کیونکہ وہ امدادی کارروائیوں اور بحالی کے کاموں میں مصروف تھے'۔
اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ اسمبلی قوانین کے مطابق 100 روز تک اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد یقینی نہیں بنا سکی۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے اسمبلی کو جاگیرداروں کے لیے ’اوطاق‘ بنا دیا ہے جہاں قانون اور اسمبلی کے قواعد کے مطابق کارروائی نہیں کی جاتی۔