کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر عمر خالد خراسانی افغانستان میں ہلاک
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے کمانڈر عمر خالد خراسانی دیگر دو ساتھیوں سمیت افغانستان میں سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں ہلاک ہوگیا۔
ٹی ٹی پی عہدیداروں کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ عمر خالد خراسانی کی کار اتوار کی شام کو افغانستان کے صوبے پکتیکا کے ضلع برمل کے قریب حملے کی زد میں آئی۔
مزید پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی رہنما محمد خراسانی افغانستان کے صوبے ننگرہار میں ہلاک
پاک-افغان سرحد کے قریب علاقے مہمند ایجنسی میں ٹی ٹی پی کی سربراہ رہنے والے عمر خالد خراسانی کا اصل نام عبدالولی مہمند تھا۔
انہوں نے افغانستان کے طالبان حکومت پر زور دیا کہ وہ واقعے کی تحقیقات کریں اور جاسوسی کرنے والوں کے بارے میں حقائق سامنے لائیں، جو ٹی ٹی پی کمانڈر کی ہلاکت کا ذمہ دار ہوسکتا ہے۔
واقعے میں ہلاک دیگر دو افراد کی شناخت مفتی حسن اور حافظ دولت خان کے نام سے ہوئی، یہ ٹی ٹی پی کے ان کمانڈروں میں شامل تھےجنہوں نے 2014 میں داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔
خیال رہے کہ عمر خالد خراسانی ٹی ٹی پی کی اس ٹیم کا حصہ تھا جو پاکستانی سرکاری عہدیداروں، پشتون جرگہ اور حال ہی میں افغانستان کا دورہ کرنے والے علمائے کرام کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھی۔
عمر خالد خراسانی مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ٹی ٹی پی کے ان اکثریتی اراکین میں شامل تھے جنہوں نے 2014 میں ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کرکے الگ گروپ تحریک طالبان پاکستان جماعت احرار تشکیل دیا تھا۔
بعد ازاں ٹی ٹی پی کے سربراہ مولوی فضل اللہ نے ان کو گروپ کے اعلان کے بعد معطل کردیا تھا، جن میں مہمند ایجنسی کے تقریباً ٹی ٹی پی کے تمام لیڈرز شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت، کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان غیر معینہ مدت تک جنگ بندی پر اتفاق
ٹی ٹی پی کے قیادت پر ان کا الزام تھا کہ وہ گروپ کے نظریے سے دور جا رہے ہیں۔
اس گروپ اس وقت پر کھل کر سامنے آیا جب جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے نومبر 2014 میں واہگہ بارڈر حملے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں 70 سے زائد شہری جاں بحق ہوئے تھے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر کی ہلاکت کو ایک ایسے وقت میں دھچکا قرار دیا جارہا ہے جب وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھے۔
عمر خالد خراسانی پاکستانی حکومت کو سیکیورٹی فورسز، قبائلی عمائدین اور علاقے میں امن کمیٹی کے اراکین پر حملوں کے سلسلے میں ملوث ہونے پر مطلوب تھے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندی کمیٹی نے جولائی 2017 میں پاکستان کی درخواست پر جماعت الاحرار کو اثاثے منجمد کرنے، سفری پابندی اور اسلحے کی پابندیوں کی فہرست میں شامل کرنے کی منظوری دے دی تھی۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے مارچ 2018 میں عمر خالد خراسانی کا نام امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ریوارڈ فار جسٹس کی مطلوبہ فہرست میں شامل کرلیا تھا۔
مزید پڑھیں: افغانستان: کالعدم ٹی ٹی پی سے پشتون جرگے کے مذاکرات کا ایک اور دور مکمل
امریکا نے ان کی معلومات فراہم کرنے پر 30 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا۔
یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں مولوی فضل اللہ سمیت ٹی ٹی پی کے کئی رہنماؤں کو افغانستان میں مارا گیا ہے جہاں وہ قبائلی علاقوں، سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے مختلف علاقوں میں آپریشن کے بعد سرحد پار کر کے گئے تھے۔
سوات میں ٹی ٹی پی کے سربراہ رہنے والے مولوی فضل اللہ کو جون 2018 میں افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
حالیہ برسوں میں ٹی ٹی پی رہنماؤں کی ہلاکت
ٹی ٹی پی نے رواں برس جنوری میں تصدیق کی تھی کہ ان کے سینئر کمانڈر مفتی خالد بلتی عرف محمد خراسانی کو مشرقی ننگر ہار صوبے میں ہلاکت ہوگئی ہے۔
اس سے قبل جولائی 2016 میں عمر منصور عرف خلیفہ منصور کو افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا، جو 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا جہاں بچوں سمیت 150 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
ٹی ٹی پی کے علاوہ داعش خراسان کے سربراہ حافظ سعید خان کو جولائی 2015 میں ننگرہار صوبے میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
اسی طرح ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان شاہداللہ شاہد اور دیگر 24 دہشت گردوں کو بھی جولائی 2015 میں ننگرہار میں امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کالعدم تحریک طالبان نے سینئر رہنما کی ہلاکت کی تصدیق کردی
شاہد اللہ شاہد اکتوبر 2014 میں سعید خان کے ساتھ داعش میں شامل ہوگیا تھا۔
اس سے قبل ٹی ٹی پی کے بانی بیت اللہ محسود کو اگست 2009 میں جنوبی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا، اسی طرح ٹی ٹی پی کے ایک اور سربراہ حکیم اللہ محسوس کو نومبر 2013 میں شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون میں مارا گیا تھا۔