جاپان میں بننے والی امریکی ایکشن فلم ’بلیٹ ٹرین‘ میں کیا غلطیاں ہوئیں؟
دنیا بھر میں کمرشل سینما تخلیق ہوتا رہا ہے لیکن ہولی وڈ نے جب بھی کمرشل سینما کی طرف قدم بڑھایا تو کوشش کی کہ کہانی میں فلم بینوں کے لیے دلچسپی کا سامان بھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہولی وڈ کی فلموں میں کہانی کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، دنیا بھر کی لوکیشنز اور ان ملکوں کے مقامی اداکاروں کو انگریزی فلموں میں کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
مذکورہ فلم ’بُلٹ ٹرین‘ رواں ہفتے، پوری دنیا کے سینما تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کردی گئی ہے اور پاکستان میں بھی اس فلم کو ریلیز کیا گیا ہے۔
جاپان میں بننے والی یہ امریکی فلم بہت جلد مقبول ترین امریکی اسٹریمنگ پورٹل ’نیٹ فلیکس‘ پر بھی دستیاب ہوگی۔ کیا آپ کو یہ فلم سینما تھیٹر میں جاکر دیکھنی چاہیے یا نہیں، اس کے لیے، اردو زبان میں اس فلم کا واحد تفصیلی تبصرہ اور تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔
فلم سازی و ہدایت کاری
فلم سازی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز کسی بھی فلم کا پروڈکشن ڈیزائن ہوتا ہے۔ یہ فلم عہدِ حاضر کے جدید جاپانی پس منظر میں شاندار پروڈکشن ڈیزائن کی مثال بن سکتی تھی، مگر بدقسمتی سے فلم ساز نے اس پہلو کو نظر انداز کیا۔
فلم کا ٹریلر دیکھ کر پہلا خیال یہ آیا تھا کہ فلم میں جاپان کے مختلف شہروں، بالخصوص ٹوکیو کی بہت ساری لوکیشنز دیکھنے کو ملیں گی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ٹوکیو اور اوساکا جیسے شہر نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی جیسے شہروں سے زیادہ جدید اور صاف ستھرے ہیں۔ ان شہروں میں کی گئی فلم بندی فلم بینوں کو اپنی طرف راغب کرسکتی ہے، بالخصوص ٹوکیو تو عالمی فلموں کے لیے ایک بہترین کینوس ہے، لیکن مذکورہ فلم میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
اس سلسلے میں ہولی وڈ کے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو چاہیے کہ وہ جاپان کی مقامی فلمیں اور ویب سیریز دیکھیں، تو ان کو اندازہ ہوگا کہ یہاں کسی فلم کو عکس بند کرنے کے لیے کس نوعیت کے اقدامات ہونے چاہئیں خاص طور پر ٹوکیو جیسے شہر کے شاندار کینوس کو کس طرح استعمال کیا جانا چاہیے۔
اس فلم کو 3 امریکی پروڈکشن کمپنیوں نے باہمی اشتراک سے بنایا ہے جن میں کولمبیا پکچرز جیسا مستند ادارہ بھی شامل ہے۔ پوری دنیا میں سینما تھیٹرز میں اس فلم کی تقسیم کاری کے حقوق سونی پکچرز کے پاس ہیں۔ 9 کروڑ ڈالر کے بجٹ پر مشتمل اس فلم کو چند یورپی ممالک میں جولائی اور باقی ممالک سمیت امریکا، انڈیا اور پاکستان میں اگست کے ابتدائی ہفتے میں ریلیز کیا گیا ہے، جبکہ جنوبی کوریا اور دیگر ایشیائی ممالک میں یہ فلم رواں مہینے کے آخر میں پیش کی جائے گی۔
حیرت کی بات ہے کہ جس ملک میں یہ فلم بنی ہے، یعنی جاپان، وہاں یہ فلم سب سے آخر میں یعنی یکم ستمبر کو ریلیز ہوگی۔
مذکورہ فلم کے ہدایت کار ڈیوڈ لیچ ہیں اور ان کا فلم سازی کا زیادہ وسیع تجربہ تو نہیں ہے لیکن وہ معروف امریکی اداکار بریڈ پٹ کے ساتھ ساتھ کئی نامور اداکاروں کے لیے بطور اسٹنٹ ورکر کام کرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی ہدایت کاری میں فلم کے مرکزی کردار کے لیے ان کا پہلا انتخاب بریڈپٹ ہی تھے۔
اس فلم کے ایکشن پر مبنی مناظر بہت شاندار اور حقیقت سے قریب تر ہیں، لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اس فلم میں زیادہ تر ایکشن مناظر کے اسٹنٹ بریڈ پٹ نے خود کیے ہیں۔ ان خدمات کے لیے انہیں 2 کروڑ ڈالر کا خطیر معاوضہ ادا کیا گیا ہے۔
فلم کی کاسٹ میں امریکا اور جاپان دونوں ممالک سے اداکار شامل ہیں اور بہت متوازن کاسٹ ہے، لیکن کچھ فلمی ناقدین کی طرف سے کہا گیا کہ اگر جاپانی اداکار ہی زیادہ کام کرتے تو اس فلم کا معیار مزید بہتر ہوسکتا تھا۔ فلموں کے تبصروں کے حوالے سے معروف ویب سائٹ روٹین ٹومیٹوز کے مطابق ابھی تک فلم کے ناقدین نے اس کو 54 فیصد جبکہ فلم بینوں نے 80 فیصد ریٹنگ دی ہے۔
مرکزی خیال، کہانی اور اسکرپٹ
اس فلم کی کہانی کو جاپانی ناول نگار کوتارو اساکا کے ناول سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس ناول کی انگریزی مترجم سیم ملیزا ہیں۔ یہ ناول جاپانی زبان میں 2010ء میں شائع ہوا جبکہ انگریزی میں گزشتہ برس 2021ء میں ہی اس کی اشاعت ممکن ہوئی۔ انگریزی میں ترجمہ ہونے کے بعد اس پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے پہلے بھی اس جاپانی مصنفہ کے ناولوں پر کئی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔
یہ ناول مزاح پر مبنی لیکن خوفناک ایکشن کی کہانی ہے جس میں جاپان کے مقامی گروہوں کے درمیان تصادم کی داستان ہے۔ اس کو جاپان کی تیز ترین ٹرین بُلٹ ٹرین میں متصادم ہوتے دکھایا گیا ہے۔ اس ٹرین کو جاپانی زبان میں 'شنکان سین' کہتے ہیں۔ اس فلم کے اسکرپٹ رائٹر زک اولکویچ ہیں۔
اس فلم کے لیے فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی نے ایک عمدہ سرخی جمائی کہ ’چلتی ہوئی تیز رفتار ٹرین میں سوار 5 قاتلوں کو یہ پتا چلا کہ ان سب کے مشن میں کچھ مشترک ہے‘۔
فلم کے پوسٹر پر جس سطر کو جلی حروف میں لکھا گیا وہ بھی اس کی کہانی کی ایک جھلک پیش کرتی ہے کہ ’حد کا اختتام ہی درحقیقت آغاز ہے‘۔
اس طرح سے کہیں کہیں کہانی کے درمیان کرداروں کی زبانی ادا ہونے والے جملے، خاص طور پر بریڈ پٹ کے ڈائیلاگ دلچسپ رہے لیکن پوری فلم میں ان کو انگریزی بولتے ہوئے دکھایا گیا، کاش ایک دو الفاظ کے علاوہ بھی کچھ جاپانی زبان بولی ہوتی۔ حتیٰ کہ جہاں جاپانی کردار جاپانی زبان میں ان سے مخاطب ہے وہاں بھی وہ انگریزی بولتے پائے گئے۔
اس پہلو نے کہانی کے لسانی بیانیے کو ثقافتی انداز میں مجروح کیا ہے۔ جہاں تک جاپانی اداکاروں کے مناظر ہیں، جن میں وہ آپس میں گفتگو کر رہے ہیں، تو وہ تمام مناظر جاپانی زبان میں ہی عکس بند ہوئے ہیں۔
ُبلٹ ٹرین کی کہانی میں کئی کرداروں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی دیگر کہانیوں کو جوڑ کر دکھایا گیا ہے۔ اس تکنیک سے کہانی کا ردھم کافی تیز ہوگیا، لیکن فلم میں کہانی کی طوالت نے اکتاہٹ بھی پیدا کی۔
ناول کی حد تک کرداروں کی اتنی تفصیل ٹھیک رہتی ہے مگر فلم میں ہدایت کار کو اختصار سے کام لینا چاہیے تھا۔ ایک طرف جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے گروہ کی داستان ہے تو دوسری طرف اس گروہ کا شکار ایک مرکزی کردار اپنا انتقام لیتا اور اپنے خاندان کو بھی ان سے محفوظ رکھتا ہے۔
فلم میں جن مرکزی کرداروں کو دکھایا گیا ہے وہ سب ایک ہی مقصد کے پیچھے لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ایک بریف کیس کو حاصل کرلیا جائے جس میں کافی رقم ہے اور ساتھ ساتھ اس گروہ کے سربراہ کے بیٹے کو محفوظ طریقے سے منزل تک پہنچا دیا جائے۔ کرداروں کی اس کشمکش میں کہانی آگے بڑھتی ہے اور ایک مضحکہ خیز انجام کو پہنچتی ہے، جس کے لیے آپ کو خود فلم دیکھنا پڑے گی۔
اداکاری
اس فلم کے مرکزی اداکاروں میں امریکی اداکار بریڈ پٹ جبکہ جاپانی اداکار ہیریوکی سنادا شامل ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ بہت سارے دیگر امریکی اور جاپانی اداکاروں نے مرکزی اور ذیلی کردار نبھائے ہیں۔
مجموعی طور پر تمام اداکاروں کی اداکاری اچھی رہی لیکن ان دونوں مرکزی اداکاروں نے اپنی اداکاری سے ثابت کردیا کہ وہ لِونگ لیجنڈ ہیں۔ پوری فلم کا بوجھ ان دونوں کے کاندھوں پر محسوس ہوتا ہے جس کو انہوں نے بہت اچھے طریقے سے اٹھایا ہے۔ معروف امریکی اداکارہ ساندرہ بلوک کو فلم میں ضائع کیا گیا ہے۔ ایسے کچھ اور بھی اداکار دکھائی دیے جن کی شمولیت کامقصد صرف یہ محسوس ہوا کہ فلم کی کاسٹ بڑی اور وسیع دکھائی دے، میرے خیال میں اس کے لیے بریڈ پٹ اور ہیریوکی سنادا ہی کافی تھے۔
موسیقی، نغمات، گیت نگاری و دیگر
اس فلم کا سب سے بڑا سرپرائز اس کی موسیقی تھی۔ انگریزی اور جاپانی زبان میں دورِ جدید کے انداز میں شامل کیے گئے گیتوں نے فلم بینوں کو بہت متاثر کیا۔ خاص طور پر فلم کے کلائمکس میں ایک جاپانی اداس گیت ’توکی نیوا ہاہا نو نائیکو نویونی‘ نے تو گویا فلم کے پردے پر سحر طاری کردیا۔ اسی طرح ایک انگریزی گیت ’فائیو ہنڈر مائلز‘ نے بھی سماں باندھ دیا۔ ان گیتوں میں اداسی ہے، ٹرین چھوٹ جانے کا تفکر ہے اور انسانی مسافت کی داستان حیات ہے۔
اسی طرح تیز موسیقی والے گیتوں نے بھی انگریزی اور جاپانی زبانوں میں خوب لطف دیا۔ ان کو سنتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا دوسرا نام رعنائی اور جمالیات ہے، سرور و مسرت ہے اور می رقصم ہے۔
امریکی موسیقار ڈومینک لیوس نے اس فلم میں اپنی فنی صلاحیتوں کا عمدہ مظاہرہ کیا ہے جبکہ جاپانی اور امریکی گلوکاروں نے بخوبی اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔
اس فلم کا سب سے شاندار پہلو موسیقی کا ہی رہا جس کی توقع ایسی ایکشن فلموں سے کم ہی کی جاتی ہے۔ فلم کے مکالموں کے تناظر میں اور گیتوں میں بھی انگریزی اور جاپانی زبان کے علاوہ روسی اور ہسپانوی زبان کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ جاپانی زبان میں تو باقاعدہ کئی مکمل مناظر دکھائے گئے ہیں۔
پاکستان میں غیر ملکی فلموں کے تقسیم کاروں کے لیے ایک بات
یہاں ایک اور بات کہنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی بین الاقوامی فلمیں بشمول ہولی وڈ فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں ان فلموں کی متعلقہ ویب سائٹس یا آزادانہ کام کرنے والی ویب سائٹس کے شیڈول میں پاکستان کا کہیں تذکرہ نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ بہت چھوٹے اور فلموں کے لیے کم مقبول ممالک تک کے نام لکھے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر اس فلم کے لیے لتھوینیا اور کمبوڈیا جیسے ممالک کی تفصیل تک موجود تھی۔ پاکستان میں اگر کوئی فلم باقاعدہ طور پر ریلیز کی جارہی ہے تو پاکستان کا نام بھی ہونا چاہیے۔
یہ پہلو اخلاقی و پروفیشنل پہلو سے فکر انگیز ہے جس پر پاکستان میں ان غیر ملکی فلموں کے تقسیم کاروں کو غور کرنا ہوگا۔ ایک طویل عرصے سے یہ فلمیں پاکستان میں ریلیز ہو رہی ہیں مگر آفیشل سطح پر ہمارے ملک کا نام کہیں نہیں لکھا جاتا، اس کا جوابدہ کون ہے؟
پاکستان میں فلم دیکھنے پر ٹیکس ادا کرتے ہوئے پاکستانی شہریوں کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک کا نام آفیشل طور پر ان فلموں کے ریلیز شیڈول میں دیکھیں اور اگر یہ نہیں ہو رہا تو اس کے ذمے دار کے بارے میں جانیں۔
حرفِ آخر
آپ کو اگر مزاح پر مبنی ایکشن فلمیں پسند ہیں اور جرائم کی دنیا میں پوشیدہ تصادم کی تفصیلات جاننے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں، تو یہ فلم آپ کے لیے ٹھیک ہے، لیکن اگر آپ اس فلم میں بُلٹ ٹرین کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں یا جاپان کی لوکیشنز دیکھنے کے خواہش مند ہیں، تو پھر آپ کے لیے اس میں کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ فلم خالص امریکی ایکشن فلموں کے انداز میں بنائی گئی ہے، جس میں ہلکا پھلکا جاپانی مزاج اور ثقافت کا تڑکا لگایا گیا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ جاپانی فلم بین بھی اس فلم کو بہت زیادہ پسند کریں گے۔
جاتے جاتے ایک اور بات یہ کہ امریکی فلم سازوں نے اگر 2016ء میں ریلیز ہونے والی جنوبی کوریا کی فلم ٹرین ٹو بوسان جیسی شاہکار فلم کو ذہن میں رکھ کر اس فلم کو بنایا ہے تو اس کوشش میں وہ ناکام ہوئے ہیں۔ ان کے ذہن میں اگر 1975ء کے جاپانی فلم ساز جونیا ساتو کی فلم بُلٹ ٹرین تھی تو وہ اس کی پیشکش تک نہیں پہنچ سکے۔
یہ مذکورہ فلم ایک اوسط امریکی فلم ہے جس کو وقت گزاری کے لیے دیکھا جاسکتا ہے مگر اس سے کچھ غیر معمولی توقعات نہیں رکھی جاسکتیں۔ سنجیدہ فلم بین کے لیے اس میں کچھ نہیں ہے۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔