عورت کے لیے شیلف لائف نامی لفظ استعمال کرنے والوں کو شرم نہیں آتی؟
‘آپا میں نے شبیر کو کہا بھی تھا کہ نیا چاول مت بھیجنا۔ پرانا چاول چاہیے مگر دیکھیں، بوری کھولی تو بالکل نیا…‘
امّاں پھوپھی کے سامنے سے دکھڑا رو رہی تھیں۔
‘مگر امّاں نئی چیزیں تو اچھی ہوتی ہیں، جیسے نئے کپڑے، نئے کھلونے اور نئی نکور دلہن۔’
ان دنوں ہمیں شادیوں میں دلہن دیکھنے کا بہت شوق تھا۔
‘نہیں بیٹا، نیا چاول لئی بن جاتا ہے۔ پرانے چاول کا دانہ دانہ علیحدہ سے پھول جاتا ہے۔ اسکا مزا ہی اور ہے’، امّاں نے لفظ دلہن کو نظر انداز کیا۔
‘جیسے پرانی شراب کا’، ہم لہک کر بولے۔
‘ہائے ہائے، اس لڑکی کی زبان دیکھو، کیسی لمبی ہے۔ کہاں سے سن لیا تم نے یہ؟ کیسی باتیں کرتی ہو’، امّاں کی آنکھیں باہر ابلنے کو آئیں۔
‘وہ رسالوں میں لکھا ہوتا ہے نا ایسا’، ہم ہکلاتے ہوئے بولے۔
‘اور پڑھوائیں باوا جان رسالے ان کو، شیطان کے کان کترنے لگی ہیں، آتے ہیں تو بتاتی ہوں۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہی تھی آپا کہ کسی کام کا نہیں نیا چاول۔’
مزید پڑھیے: ساڑھے 9 برس کی ماہواری اور مردانہ پیڈز!
‘لیکن امّاں نئی دلہن تو پیاری ہوتی ہے’، ہماری سوئی نئی دلہن پر اٹکی ہوئی تھی۔
‘ارے بیٹا بس چار دن ہی پیاری لگتی ہے، بعد میں تو بچاری بوسیدہ کاٹھ کباڑ’، اب کے پھوپھی بولیں۔
‘کیا مطلب؟ کیوں؟ کیا دولہا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟’
‘لو ہوگئے شروع ان کے سوال! آپا تم نے بھی کسے چھیڑ لیا؟’، امّاں زچ ہوکر بولیں۔
‘بتائیں نا، پھوپھی امّاں آپ بتائیں’، ہم نے کہا۔
‘ارے بیٹا، مرد ساٹھا پاٹھا’
‘اس کا کیا مطلب؟’
‘مطلب یہ کہ بوڑھا ہوکر بھی بوڑھا نہیں ہوتا اور عورت کو جوانی ہی میں بوڑھا بنا دیتا ہے۔ آہ ہاہ’، پھوپھی اداس ہوگئیں۔
‘ایسا کیوں؟ ‘
‘بس بیٹا ہمارا معاشرہ عورت کو 20، 30 برس ہی دیتا ہے جینے کو’۔
آج ہمیں یہ ساری گفتگو یاد آئی ہانیہ رضا کے ایک سوال کے بعد کہ آپ کیسے کہتی ہیں 25 برس کی عمر میں شادی کرنا جلد بازی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو اس عمر کی عورت پر لیبل لگ جاتا ہے کہ اس کی شیلف لائف ختم ہونے والی ہے، سو دفع کرو اسے اور 15 برس کی ڈھونڈو۔
دل پر ایک گھونسا سا لگا، شیلف لائف نامی لفظ کا استعمال عورت کے لیے؟
سوچا اس پر بحث کا آغاز کرتے ہیں۔
لیجیے جناب چھڑ گئی گرما گرم۔
ایک صاحب نے لکھا کہ مینو پاز کے بعد عورت قابلِ استعمال نہیں رہتی سو شیلف لائف والی بات درست ہے۔
بہت سے لوگوں نے سوال کیا کہ شیلف لائف ہے کیا؟
سنیے سپر مارکیٹ گئے ہیں نا گھر کا سودا سلف خریدنے۔ نوڈلز، کیچپ، دالیں، چاول، چینی، گھی۔ لیجیے جناب آپ نے کیچپ کی بوتل پکڑی، الٹ پلٹ کر دیکھی، 2 تاریخیں نظر آئیں۔
پہلی، جس پر فیکٹری نے کیچپ بنائی۔ فرض کر لیجیے، فروری 2022۔
دوسری تاریخ، Best before فروری 2024۔
تو بس کیچپ کی شیلف لائف نکل آئی یعنی 2 برس، بننے کی تاریخ سے لے کر استعمال کرنے تک۔ اب ان 2 برسوں میں کیچپ کا ذائقہ اور اجزا تبدیل نہیں ہوں گے۔ لیکن 2024 کے بعد اس کا ذائقہ بدل جائے گا۔
مزید پڑھیے: باکرہ بیوی چاہیے!
اسی طرح دواؤں پر ایکسپائری تاریخ لکھی ہوتی ہے جس کے بعد دوا کی افادیت ختم یا کم ہوجاتی ہے۔
شیلف لائف اور ایکسپائری تاریخ ان چیزوں کی ہوتی ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے اپنے کارخانوں میں بناتا ہے اور وہ چیزیں انسان کے زندگی گزارنے کے کام آتی ہیں۔
لیکن کارخانہ قدرت میں بننے والے انسانوں کی شیلف لائف؟
یعنی مرد سمجھتا ہے کہ عورت کی افادیت محدود مدت تک ہے اس کے بعد ناکارہ۔ عورت نہ ہوئی موئی میگی نوڈلز کا پیکٹ ہوگئی۔ تاریخ کے بعد بنایا تو تھو کڑوا۔
کیا یہ خدا کی خدائی کا مذاق اڑانا نہیں کہ وہ اپنی مخلوق کی افادیت ایک خاص تاریخ کے بعد ختم کردیتا ہے؟ اور اگر کرتا ہے تو پھر یہ اصول مرد پر لاگو کیوں نہیں؟ کیا خدا کا عدل اس بات کی اجازت دیتا ہے۔
کچھ اور باتوں کی وضاحت بھی کرلیتے ہیں۔
اس کائنات میں رہنے والی ہر جاندار چیز میں عمر کے ساتھ تبدیلیاں آتی ہیں۔ درخت عمر رسیدہ ہوکر کھوکھلے ہوجاتے ہیں۔ پانی بخارات میں بدل جاتا ہے۔ دن رات بدلتے ہیں، لوگ ملک عدم کو سدھارتے ہیں۔ جانوروں کی ایجنگ بھی ہوتی ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے اور اس کے مطابق مرد اور عورت دونوں کے اعضا اور قوی مضمحل ہوتے ہیں۔
دونوں کے بال سفید ہوتے ہیں، منہ پر جھریاں پڑتی ہیں، نظر کمزور ہوتی ہے، ہاتھوں میں رعشہ آتا ہے، دانت گرتے ہیں، پیٹ باہر کو نکلتا ہے، جوڑ جواب دے جاتے ہیں، کھال لٹکنا شروع ہوتی ہے اور بچے پیدا کرنے کا عمل ختم ہوتا ہے یا سست پڑجاتا ہے۔
یاد رہے ان تبدیلیوں میں مرد و عورت کی تخصیص نہیں کیونکہ انسانی جسم ایک ہی ڈیزائن پر بنا ہے سوائے تولیدی اعضا کے۔
اگر عورت میں ماہواری ختم ہوتی ہے اور بچہ پیدا نہیں ہوتا تو مرد میں بھی مادہ منویہ یا سیمن کی مقدار بہت کم ہوجاتی ہے اور نہایت ٹیڑھے میڑھے سپرم بنتے ہیں جن سے اگر بچہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو ابنارمل بچے پیدا ہوتے ہیں۔
مینو پاز کے بعد ہارمونز اگر عورت میں کم ہوتے ہیں تو مرد بھی بچ نہیں پاتا۔ ہارمونز کے نہ ہونے سے جنسی فعل کی سکت بہت کم رہ جاتی ہے اور اسی کا حل دوائی ویاگرا میں ڈھونڈا گیا۔ یاد رہے کہ ویاگرا کا سائیڈ ایفکٹ ہارٹ اٹیک ہے۔ ہماری بات پر اگر یقین نہ ہو تو جیک نکولس کی مشہور ترین فلم something Gotta give دیکھ لیجیے جس میں حضرت ویاگرا کھا کر ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔
سو ثابت ہوا کہ مینوپاز مرد اور عورت دونوں میں ہوتا ہے۔ عورت کا طبل اس لیے بج جاتا ہے کہ ماہواری اس کا اہم نشان ہے اور بند ہونے کی خبر زمانے کو رہتی ہے۔ مرد کی نشانی کا علم صرف گھر والی کو ہوتا ہے جو مرد کی ڈرٹی لانڈری دھو کر سرِ بازار اعلان نہیں کرتی کہ یہ مرد اب قابلِ استعمال نہیں رہا۔
ایک اور بات سمجھ لیجیے۔ جنسی فعل کا تعلق خواہش سے ہے اور خواہش کا سمبندھ جذبات سے۔ خواہش/ جذبات کا آغاز ذہنی کھیل ہے اور یہ کھیل تبھی شروع ہوسکتا ہے جب مرد و عورت کے دل ایک لے پر دھڑکتے ہوں، ایک ساز کا حصہ ہوں، ایک کی آرزو دوسرے کے لیے اہم ہو، آپس میں عزت و محبت کی زنجیر ہو، تب اعضا چاہے نحیف ہوں، خواہش جسم کو دھکا ضرور دے گی۔
لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ دن میں شوہر زوجہ کو پاتال میں پھینکے اور زوجہ بھرے مجمعے میں شوہر کے عیب گنوائے اور خلوت میں دونوں ہیر رانجھا بن جائیں۔
مرد کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے نزدیک جنسی فعل محض ایک کارروائی ہے، 5 منٹ کی دل لگی، جیسے حمام میں بیٹھے اور فارغ ہوگئے۔ ایک صاحب نے اسی لیے عورت کو تھیلے سے تشبیہہ دی ہے، ان جیسوں نے ہی تو عورتوں کے بازار قائم کیے کہ گھڑی دو گھڑی میں کام تمام۔
لیکن عورت کے لیے جنسی فعل ایک دنیا ہے اور اس دنیا میں اس وقت تک داخل نہیں ہوا جاسکتا جب تک عورت پر محبت اور پیار نہ لٹایا جائے، اس کی عزت نہ کی جائے اور اس کی انا کو مقدم نہ جانا جائے۔
گائناکالوجسٹ ہونے کے حوالے سے یہ بھی بتا دیں کہ جنسی فعل کا ہوجانا یا بچوں کی پیدائش اس بات کا قطعی ثبوت نہیں کہ مرد، نامرد نہیں یا عورت جنسی فعل میں شریک ہوئی۔ حمل تو ریپ کے بعد بھی ٹھہر جاتا ہے اور انتہائی کمزور مرد بھی اپنی بیوی کو حاملہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ انڈے کے لیے مادہ منویہ کا ایک قطرہ ہی کافی ہے چاہے کہیں بھی گرا دیا جائے۔
مزید پڑھیے: پھٹی ہوئی آنول، اندھیرا اور راز!
علامہ صاحب نے تو یہ نظم بچوں کے لیے لکھی تھی لیکن جی چاہتا ہے کہ بڈھے بچوں کو پھر سے پڑھوا دی جائے۔ ناحق انوکھے لاڈلے بنے بیٹھے ہیں۔ اجی راہ لیجیے اپنی، چاند آپ کے ہاتھ آنے والا نہیں۔
ایک پہاڑ اور گلہری
(ماخوذ از ایمرسن)
بچوں کے لیے
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور، کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور، کیا کہنا!
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں
جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!
کہا یہ سُن کے گلہری نے، مُنہ سنبھال ذرا
یہ کچّی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا
جو مَیں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا
نہیں ہے تُو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اُس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سِکھا دیا اُس نے
قدم اُٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نِری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دِکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دِکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قُدرت کے کارخانے میں
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔