چوہدری شجاعت حسین کی پرویز الہٰی کو ان کی رہائش گاہ میں آنے کی دعوت
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے سیاست دانوں کو متحد ہونے کی تاکید کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو ان کی رہائش گاہ میں آنے کی دعوت دے دی۔
چوہدری شجاعت حسین نے اسلام آباد میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سچ بولنا گناہ بنتا جارہا ہے، زبان کا غلط استعمال کیا جارہا ہے اور گندی زبان استعمال کی جارہی ہے۔
مزید پڑھیں: چوہدری پرویز الہٰی نے وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھا لیا
انہوں نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات کے حوالے سے میرے بیٹوں کے بارے میں کچھ باتیں کی گئیں اور الزامات لگائے گئے لیکن مجھے اپنے بیٹوں پر فخر ہے، انہوں نے میرے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کیا۔
اپنے بیٹوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے انہیں الزامات کا جواب دینے سےمنع کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، الزامات لگانے والوں کی حیثیت کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ سیاست دانوں پر الزامات لگائے جارہے ہیں اور معیشت کی تباہی کا سارا الزام سیاست دانوں پر ڈالا جائے گا، سب بچ جائیں گے لیکن سیاست دان پھنس جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کو خود کو بچانا بھی ضروری ہے، اس لیے اپنے اعمال ٹھیک کریں اور عوام میں ان چیزوں کو ٹھیک طریقے سے لے کر جائیں اور انہیں غلط فہمی میں رہنے نہ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت کی خرابی کو کسی طریقے سے نہیں روکا گیا تو کام اتنا مہنگا ہوجائے گا سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔
چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کو کیوں مداخلت کرنا پڑی، اس میں ہم سب سیاست دانوں چاہے حکومت میں ہیں یا حکومت سے باہر ہیں سب کا قصور ہے، اگر ہم سب ایک ہو کر دنیا کو پیغام دیں گے اور معاملات خود حل کرنے کی کوشش کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جن لوگوں پر الزامات لگائے گئے ہیں، سارے الزامات اکٹھے کیے جائیں تو ایک سال میں ہمارے ملک کو جتنا نقصان ہو رہا ہے اس کو کسی طرح پورا نہیں کیا جاسکتا، اخباروں میں خبریں ہوتی ہیں جو سوائے الزامات کے کچھ نہیں، اس کو بھی دیکھنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد، چوہدری پرویز الہٰی وزیر اعلیٰ پنجاب قرار
صدر مسلم لیگ (ق) نے کہا کہ الزامات لگانے والوں کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بچوں پر الزامات تھے، جس پر میں اور طارق بشیر چیمہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے پاس گئے اور پوچھا تو انہوں نے مونس الہٰی کے خلاف باتیں کیں۔
چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ موجودہ حکومت کا وقت آیا تو سب نے کہا کہ چوہدری صاحب نے سفارش کروائی تو اس وقت بھی حلفاً کہا تھا کسی سے سفارش نہیں کی، نہ تو نواز شریف اور نہ ہی شہباز شریف سے بلکہ زرداری صاحب خود میرے گھر آئے تھے اور وزارت کی مبارک باد دی تھی۔
ایک سوال پر چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ جہاں میں ٹھہرا ہوا ہوں وہاں اوپر میرے سامنے پرویز الہیٰ کا کمرہ ہے اور ابھی دعوت دیتا ہوں کہ وہ یہاں آئیں۔
چوہدری شجاعت کو صدارت سے ہٹانا ناممکن ہے، طارق بشیر چیمہ
پریس کانفرنس میں مسلم لیگ (ق) کے سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ کارکنان مضطرب تھے کہ چوہدری شجاعت حسین کو پارٹی صدارت اور مجھے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے تو میرا کوئی مسئلہ نہیں، مجھے کہا جائے گا تو عہدہ چھوڑ دوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیکریٹری جنرل کا عہدہ اس لیے بھی چھوڑ دوں گا کیونکہ جس عہدے پر آپ کو کام نہ کرنے دیا جائے اور خود انصاف نہ کرسکتے ہوں تو اس کے ساتھ چمٹے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت کو صدارت سے ہٹانا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ ایک آدمی پارٹی کا بانی ہے اور 22 سال چلایا، آج پنجاب کا ایک عہدیدار اٹھ کر مجلس عاملہ کا اجلاس بھی بلا لیتا ہے اور صدارت بھی کرلیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے چاروں صوبوں کے صدور اور عہدیداراں یہاں موجود ہیں، جنہوں نے مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا تھا ان کو عہدیداروں کے نام بھی معلوم نہیں۔
طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ پچھلے چند دنوں سے ٹیلی فون شروع ہوگئے ہیں کہ آپ لاہور آئیں اور فلاں ہوٹل میں ٹھہرایا جائے گا تاکہ مجلس عاملہ کا اجلاس ہو تو اس طرح کام نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب: چوہدری شجاعت، جے یو آئی، پیپلز پارٹی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست
انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت ایک عزت اور وقار والا نام ہے، عمران خان کے پاس ہم دونوں گئے تھے اور وہ بضد تھا کہ چوہدری سالک کو وزیر بنائیں کسی اور کو وزارت نہیں دینی ہے۔
'پنڈورا بکس کھولو گے تو تکلیف آپ کو ہوگی'
ان کا کہنا تھا کہ پنڈورا بکس کھولو گے تو آپ کو تکلیف ہوگی، پچھلے 20 سال سے پارٹی کے امور کا کافی حد تک ذمہ دار ہوں، میں نے چوہدری شجاعت سے ہر دفعہ منت کی کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے خاندان کا بٹوارا ہو اور انہوں نے وعدہ کیا لیکن شروعات انہوں نے کی۔
سیکریٹری جنرل مسلم لیگ (ق) نے کہا کہ آج وہ کہہ رہے ہیں کہ خاندان تقسیم ہوگیا، چوہدری شجاعت کی صحت فیصلوں پر اثرانداز ہو رہی ہے، طارق بشیر اور سالک حسین سازشی ہیں، یہ باتیں کون کر رہا ہے دیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی شریف آدمی کی اس سے زیادہ کوئی تضحیک نہیں ہوسکتی کہ آپ کس سے باتیں کروا رہے ہیں، کس کو آپ چابی مروڑ کر کہہ رہے ہیں کہ جاؤ اور جاکر باتیں کریں۔
پارٹی اختلافات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت سے ملنے کے لیے وزیراعظم آئے تھے اور بڑے اچھے ماحول میں ملاقات ہوئی اور ان کے جانے کے بعد ٹی وی پر ٹکر چلنے شروع ہوئے کہ مجلس عاملہ نے صدر اور سیکریٹری جنرل کو ہٹا دیا گیا حالانکہ کوئی اجلاس نہیں ہوا، یہ 2 نمبر نہیں بلکہ 20 نمبر کارروائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے کہ ان کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، مجھے نہیں پتا وہ کس کو بلا کر کارروائی کر رہے ہیں کیونکہ وہ 2 نمبر اور 20 نمبر کارروائی کے چمپیئن ہیں لیکن میں ان سے کہوں گا کہ ہوش اور عقل کے ناخن لیں، اپنے خاندان اور گھر کا مذاق نہ بنائیں۔
طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ یہ پارٹی ہے اور اس کو تقسیم کرنے کی انہوں نے جسارت کی ہے، اپنے خاندان کو تقسم کرنے کی کاوش کی ہے، ابھی بھی ہوش کے ناخن لیں، یہ اقتدار آنی جانی چیز ہے، چوہدری پرویز الہٰی کو سب سے زیادہ پتا ہے کہ اقتدار سے ہم کتنے مرعوب ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے 50 دفعہ کہا تھا کہ عمران خان کا وزیر نہیں رہنا چاہتا کیونکہ وہ جھوٹ بولتا ہے، وہ نالائق، نااہل ہے، بات کچھ اور کرتا ہے اور باہر آکر کچھ اور کہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جتنا یہ چلیں گے اتنا ہم ان کے پیچھے چلتے رہیں گے اور نقصان ہوگا کیونکہ بہت ساری ایسی باتیں کھلیں گی اور اخبارات کی زینت بنیں گی جو نہیں کھلنی چاہیے۔
پنجاب اسمبلی کے اراکین کی نااہلی کے لیے الیکشن کمیشن جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ابھی سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنا ہے، فیصلہ آنے کے بعد جانا پڑا تو ضرور جائیں گے، ہماری قانونی ٹیم کام کر رہی ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے سوال پر طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں آتے رہتے ہیں اور یہ بھی زرداری صاحب کے گھر اس وقت جایا کرتے تھے جب ہمیں ڈپٹی وزیر اعظم بننا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت اور میں مولانا فضل الرحمٰن، آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن)کے زعما کے پاس گئے، جس پر کہا گیا کہ بیمار آدمی کو لے کر پھر رہے ہیں، وزارت اعلیٰ کے بغیر ان کا گزارا نہیں ہے۔