پاکستان

تحریک انصاف سے حکومت نہ لی جاتی تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا، مولانا فضل الرحمٰن

عمران خان نے ایسی دلدل میں پھنسایا ہے جس سے نکلنا آسان کام نہیں ہے، انہیں ووٹ دینا ملک کی تباہی میں حصہ دار بننا ہے، صدر پی ڈی ایم

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے حکومت نہ لی جاتی تو آج ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔

پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ڈی ایم میں یہ رائے تھی کہ اسمبلیوں کے اندر تبدیلیاں نہیں لائی جائیں، تحریک کے ذریعے عوامی دباؤ بڑھایا جائے اور اسمبلی کے اندر سے اپنی قوت باہر لاکر نئے انتخابات کے لیے حالات کا دباؤ بڑھایا جائے جو کہ ایک رائے تھی اور موجودہ حکومت میں آنے کے بعد جب پی ڈی ایم کا پہلا اجلاس ہوا تو اسی رائے کا تذکرہ میاں نواز شریف نے کردیا۔

مزید پڑھیں: ہمیں فوری طور پر الیکشن چاہئیں، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ جب اجلاس کا آخری فیصلہ میں جاری کر رہا تھا اس وقت اس کے آخری الفاظ طے کرنے کے لیے نواز شریف زوم میٹنگ پر موجود تھے اور ان کے اتفاق کے ساتھ وہ بیان تیار ہوا جس میں حکومتی مدت پوری ہونے اور انتخابات اپنے وقت پر ہونے کا فیصلہ لکھا ہوا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس (عمران خان) نے ایسے دلدل میں پھنسایا ہے جس سے نکلنا آسان کام نہیں ہے اور میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ایسے بیانات سامنے لاسکتا ہوں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے اپنا ملک بیچ دیا ہے اور آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے جو کہ ان کی باتیں تھیں، مگر میں یہ کہتا ہوں کہ اگر تحریک انصاف سے حکومت نہ لی جاتی تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو معیشت کو بہتر کرنے کے لیے ستون تلاش کر رہے تھے کیونکہ گزشتہ حکومت کے ستون امریکا اور ورلڈ بینک پر انحصار کرتے تھے جو اب بھی ہیں مگر اب ہمیں آئندہ کے لیے نئے ستون تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمارا پہلا قدم چینی سرمایہ کاری اور سی پیک کو بحال کرنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی پیک صرف ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ وہ ترقی کا مکمل پیکج ہے جس میں سڑک، بجلی، ریلوے لائن اور دیگر ترقی کے شعبے شامل ہیں۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے کہا کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ٹرانسمیشن لائنوں میں صرف 17 سو میگاواٹ بجلی برداشت کرنے کی صلاحیت ہے تو اگر نئے صنعتی علاقے بنانے ہیں اور معاشی حب بنانے ہیں تو اس کے لیے بجلی اور گیس کی ضرورت ہوگی، اس لیے سی پیک میں بجلی اور گیس کا منصوبہ بھی شامل تھا۔

'پی ٹی آئی حکومت نے گوادر کا بیڑا غرق کیا'

گوادر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گوادر، ایشیا میں دنیا کی دوسری گہری ترین بندرگاہ تھی جس سے ایران بھی ڈر رہا تھا، چابہار اور دبئی بندرگاہ خطرے میں پڑ گئی، یہ تجارتی لحاظ سے سب سے بڑی بندرگاہ ہوتی مگر گزشتہ حکومت نے اس کا بیڑا غرق کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کل ابراج گروپ کے حوالے سے خبر آئی، اس میں ابوظبی کے بادشاہوں نے بھی پیسہ لگایا ہے اور وہ اس لیے لگایا ہے کہ یہ (عمران) ہر قیمت حکومت میں آئے اور سی پیک کو تباہ کرے اور آج وہ گہری ترین بندرگاہ اس وقت صرف 11 فٹ پر رہ گئی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت سے جانے سے پہلے انہوں نے کہا کہ قومی خزانے میں 25 ارب ڈالر زرمبادلہ رکھا ہوا ہے مگر جب ہم حکومت میں آئے اور معلوم کیا تو صرف 8 ارب ڈالر رکھے ہوئے تھے، تو اگر ڈالر کے ذخائر کم ہوں گے تو اس کی قیمت ضرور بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ اب منگل اور بدھ کو وہ تمام محکمے جن کا تعلق معیشت سے ہے وہ پوری حکمراں جماعتوں کو بریفنگ دیں گے اور پھر تمام حکومتی جماعتیں اس بریفنگ کے مدنظر معاشی استحکام کے لیے اگلے اقدام کا فیصلہ کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جھوٹ کا جو بین الاقوامی اصول ہے اس کا تحریک انصاف نے ٹھیک ٹھاک سبق پڑھا ہوا ہے، میں ملک کے تمام نوجوانوں کو کہتا ہوں کہ تحریک انصاف کو ووٹ دینا ملک کو تباہ کرنے میں حصہ دار بننا ہے۔

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ حکومتی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں جو امیدوار رنر اپ تھا وہی آئندہ انتخابات میں ہمارا متفقہ امیدوار ہوگا۔

'قبائلی نوجوان اپنے مستقبل کے لیے پریشان ہیں'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں قبیلے اپنے علاقے، سرزمین اور امن کا تحفظ کرنا جانتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان سے اسلحہ چھین لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ علاقے میں اب بندوق بردار لوگ آزاد ہیں جو جب چاہیں اور جس علاقے پر چاہیں دھاوا بول دیں اور جانوں کے ساتھ کھیلیں، اس میں ریاست کی جو کمزوریاں ہیں اور بدنظمی پیدا ہوئی ہے تو عام آدمی اس سے بہت پریشان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو طاقتور ہیں وہ عقل سے عاری ہیں اور جو عقلمند ہیں وہ طاقت سے عاری ہیں تو اس پر ہمارے ریاستی اداروں اور حکام کو سوچنا ہوگا اور عوام کو اپنے ساتھ شریک کرکے ان کی رائے لینا ہوگی۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان، ٹانگ، لکی مروت، وزیرستان جیسے تمام علاقوں پر مسلح لوگوں کا راج ہے اور مقامی انتظامیہ ہو یا پولیس وہ خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت قبائلی علاقے میں جہاں اتمانزئی قبیلے کا دھرنا ہے ان کا بھی اپنے حقوق کا تحفظ ہے، مگر وہ اس وقت اپنی جان کا تحفظ مانگ رہے ہیں اور اس حوالے سے میں وزیر اعظم سے اس ہفتے آمنے سامنے ملاقات کروں گا اور موصول رپورٹس پر غور کرکے علاقے میں تحفظ اور امن و امان بحال کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ادارے طاقتور ہونے کا احساس نہ دلائیں، حکومت مدت پوری کرے گی، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ قبائلے علاقے کے نوجوانوں کو یہ امید دلائی گئی کہ انضمام ہوگا اور آپ ترقی یافتہ علاقوں کے برابر آجائیں گے لیکن صورتحال اس سے زیادہ خراب ہوگئی ہے کیونکہ اس وقت ہمارا قبائلی نوجوان سب سے زیادہ اپنے آنے والے مستقبل کے لیے پریشان ہے، حالانکہ ہم اس وقت چیخ رہے تھے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے۔

'قبائلی علاقوں کے فنڈز بھتے کی نظر ہوجاتے ہیں'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ قبائلی جرگہ مسلسل اس معاملے پر اجلاس کرتا رہا مگر کسی میں یہ ہمت نہ ہوئی کہ اس جرگے کی بات سنے، اسلام آباد میں تمام سیاسی پارٹیوں، مذہبی و قوم پرست جماعتوں سمیت ہر طرف سے لوگ اکٹھے کیے گئے، جرگے نے وہاں ملاقاتیں کیں اور اپنا مؤقف دیا حالانکہ بظاہر ان کے حق میں متفقہ طور پر ایک قرارداد بھی منظور کی گئی تھی مگر اس کے باوجود پتا نہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے دماغ پر کیا سوار تھا اور ایسا کونسا بین الاقوامی دباؤ تھا۔

مزید پڑھیں: 'فتنہ عمرانیہ' کے خاتمے تک اس کے خلاف لڑنا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج وہاں نہ کوئی پولیس ہے نہ انتظامیہ اور نہ کوئی کارکردگی ہے اور جو ترقی کے لیے فنڈ جاری ہوتے ہیں وہ بھی بھتے کے نظر ہوجاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جرگے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ وہاں جو گیس برآمد ہوئی ہے اس پر سب سے پہلا حق مقامی لوگوں کا ہوگا اور اس سلسلے میں ہم سروے ٹیم بھی بھیجیں گے تاکہ تمام معاملات علاقہ مکینون کی مشاورت سے طے ہوں اور وہ رپورٹ محمکہ کے پاس بھیجی جائے۔

سکھر بیراج سے مزید 4 لاشیں برآمد، مجموعی تعداد 19 ہوگئی

ٹوئٹر پر ٹوئٹ کو پرائیویٹ رکھنے اور اپڈیٹ کرنے کے نئے فیچرز کی آزمائش

17ویں صدی، بکھرتی مغل سلطنت اور نیکولاؤ منوچی (چوتھا حصہ)