نقطہ نظر

یہ سیاہ کوئلہ کس طرح ہمارا مستقبل تاریک کررہا ہے؟

’اسپتال میں روز 70 سے 80 مریضوں کا معائنہ کیا جاتا ہے جن میں سے نصف بچے ہوتے ہیں جو سینے کے انفیکشن، دمے اور الرجی کا شکار ہیں‘۔

صبح کی خشک ہوا چل رہی ہے اور گہرے سرمئی بادل چھائے ہوئے ہیں۔ بچے اپنے مٹّی اور اینٹوں کے گھروں کے باہر ننگے پاوں کھیل رہے ہیں۔ یہ معدنیات سے مالا مال ضلع دوکی ہے جو پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں واقع ہے۔

دوکی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 230 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ کوئلے کی کان کنی کے باعث اڑنے والی دُھول سے صحت عامہ کو لاحق سنگین خطرات کے باوجود خیبر پختونخوا اور پڑوسی ملک افغانستان کے دُور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے خاندان کوئلے کے ان میدانوں کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔

عطا محمد کوئلے کے سیکڑوں کان کنوں میں سے ایک ہیں اور دوکی کے مضافات میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ 7 بچوں کے باپ ہیں اور ان کے 4 بچے سینے کے انفیکشن میں مبتلا ہیں۔ وہ اکثر ان کا علاج کروانے کے لیے مقامی اسپتال جاتے ہیں۔

عطا محمد کہتے ہیں کہ ’میرا خاندان کوئلے کی دھول اور کالے دھوئیں میں سانس لے رہا ہے لیکن میرے پاس کوئلے کے اس میدان میں رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہاں مقامی بچوں کی ایک بڑی تعداد پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا ہوکر اسپتال پہنچتی ہے‘۔

کوئلے کی کان کنی سے مقامی بچوں کی صحت کو لاحق خطرہ

کوئلہ جسے مقامی لوگ ’کالا سونا‘ کہتے ہیں پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں فیکٹریوں، اینٹوں کے بھٹوں اور توانائی کے شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کوئلے کی کان میں کام کرنے کا نقصان یہ ہے کہ کان کنوں کے بچے زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہوتے ہیں۔

کوئلے کی سطحی کان کنی کی جگہوں کے قریب رہنے والے بچے دمے اور سانس کی دیگر بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ مقامی ڈاکٹروں کے مطابق کوئلے کی دھول کے باعث بچوں میں سانس لینے میں دشواری اور سینے میں انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے۔

پاکستان کا تقریباً 50 فیصد کوئلہ معدنیات سے مالا مال صوبے بلوچستان میں پیدا ہوتا ہے اور کوئلے کی کان کنی صوبے کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن ٹریڈ یونین کے صوبائی نائب صدر امبر خان یوسفزئی کا کہنا ہےکہ دوکی اور چمالنگ میں کوئلے کی کانوں میں 15 سے 20 ہزار مزدور کام کرتے ہیں، جن میں سے اکثر باضابطہ ملازم نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تقریباً 5 سے 6 ہزار خاندان ایسے ہیں جو ان سیکڑوں کانوں کے اطراف میں رہتے ہیں۔ چمالنگ کی کانیں خطے کی سب سے بڑی کانوں میں شمار ہوتی ہیں۔

60 سالہ عبدالرحمٰن نے اس صنعت میں 26 سال تک کام کیا ہے لیکن اب دمے کی بیماری کے بعد وہ گہری کانوں میں کھدائی کرنے سے قاصر ہے۔ اس نے متبادل روزگار تلاش کیا اور اب وہ دوکی بازار میں جوتے اور چپلیں بیچتا ہے۔ اس نے اِنہیلر استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’میں 8 بچوں کا باپ ہوں۔ میرے 2 بچوں کو سانس کی بیماریاں ہیں جن میں سے ایک 5 سال اور دوسرا 9 سال کا ہے۔ مجھے مقامی ڈاکٹروں سے بنیادی علاج پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ میرے سارے بچوں میں سے صرف ایک ہی بچہ اسکول جاتا ہے‘۔

مقامی افراد مائننگ کمپنیوں سے ناخوش کیوں؟

ضلع دوکی سے تعلق رکھنے والی نور بی بی کو بھی ایسا ہی تجربہ ہوا ہے۔ نور بی بی کے 3 بچے ہیں اور ان کے شوہر نے 13 سال کان کنی کی صنعت میں کام کیا ہے لیکن اب وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کے 2 بچے جن کی عمر 7 سے 9 سال کے درمیان ہے پچھلے کئی سالوں سے پھیپھڑوں کی بیماری کا شکار ہیں۔ اسکول جانے کے بجائے یہ بچے سارا دن کانوں کے قریب کان سے نکلنے والے فاضل مادے کے ڈھیر میں کوئلے کے ٹکڑے تلاش کرتے ہیں جو گھر میں جلانے کے کام آتے ہیں۔

نور بی بی نے اپنے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا کہ ’پورا علاقہ گرد اور دھوئیں سے اٹا ہوا ہے اور یہاں بارش بھی نہیں ہوتی۔ کان کنی کمپنیوں کے مالک بھی غریب لوگوں کی مدد نہیں کرتے۔ میں اپنے بچوں کی صحت اور تاریک مستقبل کی وجہ سے پریشان ہوں‘۔

امبر خان یوسفزئی نے کہا کہ صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے مزدوروں کے بچے بیمار ہوجاتے ہیں۔ ’بچوں کی صحت اور تعلیم کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت کو صحت کے مراکز کو مکمل طور پر فعال کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ایک ماہر امراض اطفال کو بھی مزدوروں کے بچوں کے لیے مقرر کرنا چاہیے کیونکہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی آمدنی بہت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کا بہتر علاج نہیں کروا سکتے‘۔

مائنز ایکٹ 1923ء کے تحت مائنز اور منرلز ڈیویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ بلوچستان کی ایک شاخ مائنز لیبر ویلفیئر آرگنائزیشن کان میں کام کرنے والے مزدوروں اور ان کے بچوں کی صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود کی ذمے دار ہے۔ بہرحال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق ’آن سائٹ صحت کی سہولیات برائے نام ہی ہیں‘۔

دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے دوکی کول فیلڈ کے مائنز انسپیکٹر صابر شاہ کا کہنا تھا کہ کول مائنز ریگولیشنز 1926ء اور مائنز ایکٹ 1923ء کے تحت 18 سال سے کم عمر کا بچہ کان میں مزدور کے طور پر کام نہیں کرسکتا پھر چاہے وہ زیرِ زمین یا سطح پر کان کنی ہو یا کوئلہ اٹھانے کا کام ہو۔

صابر شاہ کہتے ہیں کہ ’اگر کوئی اس ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا جاتا ہے تو جانچ کے بعد ایک مائنز انسپیکٹر مقدمہ درج کرتا ہے اور اسے چیف مائنز انسپیکٹر کے ذریعے جوڈیشل مجسٹریٹ کے دفتر میں جمع کرواتا ہے۔ وہاں قانون کے مطابق اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے‘۔

صابر شاہ کا کہنا ہے کہ محکمہ مائنز کے لیبر ونگ نے کان کنی کے تمام علاقوں میں صحت کی سہولیات فراہم کی ہوئی ہیں جہاں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں، ان کے خاندان اور بچوں کو ہونے والی سینے کی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔

تاہم مقامی لوگ ایک مختلف کہانی سناتے ہیں۔ دوکی میں ٹائروں کی مرمت کی دکان چلانے والے محمد عارف نے بتایا کہ ’ہم ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں جو کوئلے کی کانوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں ہر طرف کالا دھواں ہے کیونکہ لوگ کھانا پکانے اور حرارت کے لیے اپنے گھروں میں بھی کوئلہ جلاتے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے زیادہ تر بچے اس سے متاثر ہوئے ہیں اور ان میں میرا بیٹا بھی شامل ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں رہنے والے مزدور نہ تو شہر میں کرائے کے مکانات کی لاگت برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بیمار بچوں کا کوئٹہ کے بڑے اسپتالوں میں علاج کروا سکتے ہیں۔

مقامی لوگوں میں پھیلتی تپ دق اور دمے کی بیماری

محمد عظیم ایک ڈاکٹر اور دوکی میں ڈائریکٹلی آبزرویڈ ٹریٹمنٹ شارٹ کورس (ڈاٹس) ٹیوبر کلوسس (ٹی بی) کنٹرول پروگرام کے سہولت کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے زیادہ تر مزدور ٹی بی کا شکار ہیں۔ یہ بیماری خاندان کے دیگر افراد میں بھی پھیلتی ہے کیونکہ یہ ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے۔ کوئلے کی دھول میں پرورش پانے والے بچے آلودگی سے متاثر ہوتے ہیں اور ضلع کے دیگر علاقوں کے بچوں کے مقابلے ان میں سانس کی بیماریوں کی علامات زیادہ ہوتی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ’زیادہ تر مریض نابالغ ہیں۔ غربت، گندگی کے ماحول میں رہنا اور صحت کی سہولیات کا نہ ہونا ایسے عوامل ہیں جو ٹی بی کے مرض کو پھیلاتے ہیں‘۔

احمد ولی بھی ایک ڈاکٹر ہیں اور کوئٹہ میں ٹی بی کنٹرول پروگرام کے اہلکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’عالمی سطح پر کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والوں میں ٹی بی کے واقعات عام آبادی کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہوتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’بلوچستان کے کوئلے کے میدانوں میں کوئلے کی دھول کا ارتکاز بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ ماحولیاتی قوانین کا غیر مؤثر اطلاق اور درست انداز سے نگرانی کا نہ ہونا ہے۔ اس کے علاوہ کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں اور کان کے مالکان کی طرف سے اپنائے جانے والے حفاظتی اقدامات کی کمی اس صورتحال کو اور بھی بدتر بنا دیتی ہے‘۔

احمد ولی نے بتایا کہ ٹی بی کنٹرول پروگرام بلوچستان کے پاس ڈی ایچ کیو اسپتال دوکی میں نگہداشت کی سہولت موجود ہے لیکن اس بیماری سے متاثر افراد کی تعداد کے مقابلے میں سہولیات کا بہت زیادہ فقدان ہے۔

محمد عظیم نے تصدیق کی کہ ’اسپتال کے بیرونی مریضوں کے شعبے میں 70 سے 80 مریضوں کا روزانہ معائنہ کیا جاتا ہے جس میں سے نصف بچے ہوتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’40 میں سے 30 بچے عام طور پر سینے کے انفیکشن، دمے اور الرجی کا شکار ہیں‘۔

کول ورکرز نیوموکونیوسس (سی ڈبلیو پی) جسے بلیک لَنگ دیزیز بھی کہا جاتا ہے کان کنوں کے بچوں میں عام ہے۔

احمد ولی کا کہنا ہے کہ ’سی ڈبلیو پی اور کرونک آبسٹرکٹیو پلمونری ڈیزیز (سی او پی ڈی) دو ایسی بیماریاں ہیں جو زیادہ تر کوئلے کی کان سے اٹھنے والی دھول کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ کوئلے کے کان کنوں کو کرسٹلائن سیلیکا ڈسٹ کا سامنا بھی رہتا ہے جو سیلیکوسس جیسی بیماریوں کا سبب بنتی ہے‘۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انوائرمنٹل اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر وقار احمد کا کہنا ہے کہ جب کوئی بچہ گرد و غبار سے بھری ہوا میں سانس لیتا ہے تو اس کے نظام تنفس پر بُرا اثر پڑتا ہے اور اس سے الرجی ہوتی ہے۔ بچے زیادہ خطرے سے دوچار ہوتے ہیں کیونکہ ان کی سانس کی نالی بڑوں کے مقابلے میں چھوٹی ہوتی ہے اس لیے سوزش کے نتیجے میں ان کا دم گھٹ سکتا ہے۔

ماحولیاتی اثرات کی کوئی جانچ نہیں کی جاتی

کوئٹہ میں صوبائی محکمہ ماحولیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شیخ خالق داد مندوخیل کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے دوکی کے علاقے میں ماحولیاتی اثرات کی جانچ کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ماحولیات سے متعلق کسی بھی مسئلے کی صورت میں عام طور پر میں خود کوئلے کے میدانوں کا دورہ کرتا ہوں۔ دھول کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کی جگہ پر پانی کے چھڑکاؤ کے نظام کی ضرورت ہے۔ ماحولیات قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں کان کے مالکان کو فراہم کردہ این او سی منسوخ کیا جاسکتا ہے‘۔

کراچی میں انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے پروگرام ہیڈ دانش راشدی کا کہنا ہے کہ پاکستان پیرس کلائیمیٹ ایگریمنٹ کے دستخط کنندگان میں سے ایک ہے جس کا مقصد گلوبل وارمنگ کو محدود کرنا ہے۔ لیکن دستخط کنندہ ہونے کے باوجود اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان میں کوئلے کی کان کنی کچھ عرصے تک جاری رہے گی۔ ’پاکستان میں توانائی کی ضروریات کے پیش نظر کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ وقتی طور پر ایسا لگتا ہے کہ ان بجلی گھروں پر ہمارا انحصار اس وقت تک جاری رہے گا جب تک نجی شعبہ کاربن میں کمی کے لیے اقدامات نہیں اٹھاتا، کوئلے کے اثرات کی تلافی کرنا شروع نہیں کرتا اور مستقبل میں صاف توانائی کی طرف نہیں جاتا‘۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا جسے بااجازت یہاں شائع کیا جارہا ہے۔

رفیع اللہ مندوخیل
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔