پاکستان

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے ریفرنس پر نظرثانی درخواست اعتراض کے ساتھ واپس

صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے تحت صدر کی جانب سے بھیجا جاتا ہے، تشریح کا معاملہ عدالت اور صدر کے درمیان ہوتا ہے، رجسٹرار آفس
|

سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار آفس نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر کردہ صدارتی ریفرنس پر فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی۔

یاد رہے کہ 17 مئی 20222 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ رکن کی تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریخ کا ریفرنس صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے عدالت عظمٰی کو بھیجا گیا تھا، صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کو صدر مملکت کی جانب سے بھیجا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: منحرف رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، تاحیات نااہلی کا فیصلہ پارلیمان کرے، سپریم کورٹ

رجسٹرار آفس نے مزید کہا کہ کسی بھی آرٹیکل کی تشریح کا معاملہ سپریم کورٹ اور صدر مملکت کے درمیان ہوتا ہے۔

اعتراضات عائد کرتے ہوئے رجسٹرار آفس نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پر دیے گئے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔

آرٹیکل 63 اے کے عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی منحرف رکن عائشہ نواز نے دائر کی تھی۔

خیال رہے کہ 21 مارچ 2022 کو صدر مملکت عارف علوی نے اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 63 اے کے اغراض و مقاصد، اس کی وسعت اور دیگر متعلقہ امور پر سپریم کورٹ کی رائے طلب کرتے ہوئے صدارتی ریفرنس کی منظوری دی تھی۔

مزید پڑھیں: آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس میں کب، کیا ہوا؟

صدر عارف علوی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق سپریم کورٹ سے 4 اہم سوالات پوچھے گئے تھے کہ کیا آرٹیکل 63 اے محدود یا وسیع ہونا چاہیے، تشریح کیا ہے؟ کیا منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا؟ کیا منحرف اراکین تاحیات نااہل ہوں گے؟ انحراف، فلور کراسنگ اور ووٹ کی خریداری روکنے کے لیے کیا اقدامات ہوسکتے ہیں؟

آرٹیکل 63 اے

آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

اگر پارلیمنٹیرین وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اسے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے مقرر

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ 'منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا'۔

اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔

بعدازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 روز ہوں گے۔

آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے تصدیق ہو جاتی ہے، تو مذکورہ رکن 'ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی'۔

تمام اداروں کا آئینی حدود میں کام کرنا ضروری ہے، وزیراعظم شہباز شریف

جے سوریا، مینڈس کی عمدہ باؤلنگ، پاکستان کو دوسرے ٹیسٹ میں شکست

ہمایوں سعید کا اس عمر میں رومانوی ہیرو بننا اچھا نہیں لگتا، نور بخاری