2018 سے اب تک مزید ایک کروڑ خواتین ووٹر لسٹوں میں شامل
نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے چیئرمین طارق ملک نے بدھ کے روز کہا کہ 2018 کے عام انتخابات سے اب تک مزید ایک کروڑ خواتین کو ووٹرز لسٹوں میں شامل کیا گیا ہے تاکہ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 5کروڑ 69 لاکھ 50ہزار تک پہنچ جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین کو مسلسل ووٹر کے طور پر رجسٹر کیا جا رہا ہے کیونکہ خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کر دیا گیا اور پالیسی فیصلے کے تحت انہیں بہتر رسائی دی گئی۔
مزید پڑھیں: قومی شناختی کارڈ کا حصول اب تک لاکھوں افراد کیلئے محض ایک خواب
وہ اسلام آباد میں عورت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام افراد، حکومتوں اور سول سوسائٹی کے ذریعے خواتین کے شہری اور سیاسی حقوق کے فروغ اور تحفظ میں اہم مقرر کی حیثیت سے خطاب کر رہے تھے، اس موقع پر بڑی سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیم، عورت فاؤنڈیشن اور زندگی کے مختلف شعبوں کے نمائندے بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں آخری انتخابات کے بعد سے مردوں کے مقابلے خواتین ووٹرز کے اندراج میں 53.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
نادرا کے چیئرمین نے کہا کہ مجموعی طور پر صنفی فرق اب کم ہو کر 8.9 فیصد رہ گیا ہے، نادرا کی توجہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے اضلاع پر تھی جہاں خواتین اور مرد ووٹرز کے درمیان فرق 10 فیصد سے زیادہ تھا، خواتین کی بہتر رجسٹریشن کی سہولت کے لیے ملک بھر میں 109 نئے دفاتر کھولے گئے۔
ان کے مطابق نادرا نے پاکستان میں غیر رجسٹرڈ خواتین کی رجسٹریشن کو بڑھانے کے لیے صرف خواتین کے لیے 19رجسٹریشن مراکز قائم کیے اور 10 موبائل رجسٹریشن وینز تعینات کیں، انہوں نے کہا کہ نادرا خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کثیر الجہتی اقدامات میں مصروف ہے، نادرا نے خواتین کی رجسٹریشن کو بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے نادرا کے پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز
اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ خواتین کی رجسٹریشن کے لیے نادرا کے 258 رجسٹریشن سینٹرز ہفتے کے روز بھی کام کرتے رہیں گے، اس کے علاوہ 222 موبائل رجسٹریشن گاڑیاں بڑے پیمانے پر غیر رجسٹرڈ شہریوں بالخصوص دور دراز یا پسماندہ علاقوں میں رہنے والی خواتین کی رجسٹریشن کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں، مزید برآں، خواتین کے 66 صنفی ڈیسک قائم کی جانی تھیں جہاں الیکشن کمیشن اور عمل درآمد کرنے والے شراکت داروں کے نظام کی فراہمی پر صنفی فرق 10 فیصد سے زیادہ تھا، صنفی فرق کو کم کرنے کا ایک اہم ذریعہ خواتین افسروں کو نیشنل رجسٹریشن سینٹر کا انچارج بنانا تھا جہاں 96فیصد خواتین عملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے خواتین اور غیر رجسٹرڈ شہریوں کی رجسٹریشن کو بڑھانے کے حوالے سے کئی پالیسی اصلاحات کی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے مارچ میں بچوں کو سنگل پیرنٹ کے ساتھ رجسٹر کرنے کی پالیسی شروع کی تاکہ سنگل مائیں اپنے بچوں کو والد کے شناختی کارڈ کے بغیر آسانی سے شناختی کارڈ حاصل کر سکیں۔