ڈپٹی اسپیکر رولنگ کے خلاف عدالتی کارروائی کی اندرونی کہانی
سپریم کورٹ نے 3 سماعتوں میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر 4 ماہ سے چلتا ہوا سیاسی بحران وقتی طور پر ٹال دیا ہے، لیکن کیا یہ طوفان تھم چکا ہے اور آگے کوئی بحران پیدا نہیں ہوگا، اس کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔
پنجاب میں بحران اس وقت شروع ہوا جب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنی وفاقی حکومت کو بچانے اور مسلم لیگ (ق) کی حمایت لینے کے لیے 27 مارچ کو عثمان بزدار کو قربانی کا بکرا بنانے کا فیصلہ کیا اور ان سے استعفی لے کر 10 صوبائی نشستیں رکھنے والے پرویز الہٰی کو اپنی جماعت کی طرف سے پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار نامزد کردیا۔
پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز کے بیچ وزارتِ اعلیٰ کے معاملے پر شروع ہونے والا یہ تنازعہ پہلے دن سے ہی عدالتوں کی دہلیز پر تھا کبھی حمزہ شہباز تو کبھی پرویز الہٰی درخواست گزار بنے رہے۔
عدالتی محاذ پر لڑی جانے والی یہ جنگ پہلے لاہور ہائیکورٹ تک محدود تھی لیکن آخرکار معاملہ سپریم کورٹ میں آگیا اور سپریم کورٹ نے 3 سماعتوں میں اس معاملے کو نمٹا دیا اور پرویز الہٰی پنجاب کے نئے وزیرِ اعلی بن گئے۔
لاہور رجسٹری میں پہلی سماعت سے لے کر اسلام آباد میں 26 جولائی کو رات پونے 9 بجے تک اس اہم سیاسی تنازعے پر فیصلہ آنے تک عدالت کے اندر اور باہر ہونے والے تمام واقعات کو ہم مختصراً یہاں بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
26 جولائی کو سپریم کورٹ میں جب ساڑھے 4 بجے آخری سماعت ہوئی تو بتایا گیا کہ کیس کا فیصلہ شام 5:45 تک محفوظ کرلیا گیا ہے، پھر وقت میں تبدیلی ہوئی اور بتایا گیا کہ اب فیصلہ 7:30 پر سنایا جائے گا۔
لیکن انتظار مزید طویل ہوتا رہا۔ سپریم کورٹ میں فیصلے کا انتظار کرنے والے تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی چپ سادھے خاموشی سے بیٹھے رہے۔ فواد چوہدری حسبِ معمول خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ شبلی فراز اور دیگر رہنما بھی تھے لیکن اس انتظار سے پرویز خٹک اکتا کر چلے گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیوں جارہے ہیں تو بولے میں 11 بجے سے عدالت میں ہوں باقی قیادت موجود ہے میں جارہا ہوں۔
فیصلہ سننے کے لیے حکمران اتحاد اور ان وکلا کی جانب سے کوئی بھی موجود نہیں تھا جنہوں نے پہلے فل کورٹ کی استدعا کی اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں پھر بائیکاٹ کا اعلان کیا۔
8:45 سے کچھ منٹ بعد سپریم کورٹ کے جج حضرات فیصلہ سنانے عدالت میں پہنچے۔ چیف جسٹس نے جیسے ہی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر قانونی اور پرویز الہٰی کو منتخب وزیرِ اعلی بنانے کا اعلان کیا تو عدالتی کمرہ نعروں سے گونج اٹھا۔سیاسی نوعیت کے مقدمات میں سپریم کورٹ کے فیصلے تاخیر سے آنا پرانی بات ہے لیکن رات کے اندھیروں میں فیصلے آنا بھی معمول کی بات بن چکی ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات فیصلہ آنے سے پہلے فیصلے کا پتہ لگ جانے کا ہے۔
حکمران اتحاد اور چوہدری شجاعت کے وکلا کے بائیکاٹ کرنے کی بھی شاید یہی وجہ تھی۔ کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے دفاع کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا، ویسے بھی سپریم کورٹ کے اندر اور باہر یہی بات زبان زدِ عام تھی کہ فیصلہ پرویز الہٰی کے حق میں ہی ہوگا۔ ہاں لیکن فیصلے سے پہلے حکومت کا سپریم کورٹ کا بائیکاٹ ایک انوکھی بات تھی کیونکہ اس کی مثال پہلے ملتی نہیں۔
اب آتے ہیں اس عدالتی مقدمے کی عدالتی کارروائی کے پہلے دن یعنی پہلی سماعت پر جو لاہور میں سپریم کورٹ رجسٹری برانچ میں ہوئی۔
حمزہ شہباز اور پرویز الہٰی میں رن آف الیکشن سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 22 جولائی کو ہوا۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی بنیاد پر پرویز الہٰی کے حق میں پڑے 10 ووٹ مسترد ہوئے تو اسی رات پرویز الہٰی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ یہ درخواست بھی رات کے اندھیرے میں داخل ہوئی اور بقول مریم نواز درخواست تیار ہونے سے پہلے درخواست وصول کرنے والے لاہور رجسٹری میں پہنچ چکے تھے۔
اگلی صبح یعنی 23 جولائی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اس مقدمہ کی سماعت شروع کی۔ ویسے ہفتہ یعنی چھٹی والے دن چیف جسٹس عمر عطا بندیال اکثر اپنے شہر لاہور میں گزارتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن بھی لاہور میں موجود تھے لیکن فل بینچ کے لیے تیسرا جج درکار تھا تو ایک جج کو اسلام آباد سے بلانا پڑا۔
چھٹی والے دن درخواست کی سماعت ہونے پر بھی تنقید ہوتی ہے لیکن اب یہ بھی کوئی عجیب بات نہیں رہی، ویسے تو پرویز مشرف کے دور 2007ء کو 3 نومبر کی ایمرجنسی بھی ہفتے کے دن لگی تھی اور افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ بھی اسلام آباد میں اسی رات بیٹھی اور اسی رات ان غیر آئینی اقدمات پر اسٹے جاری کیا۔ ججوں کو پی سی او پر حلف لینے سے روک لیا گیا اور تمام حکام کو غیر آئینی اقدمات پر عملدرآمد سے روکنے کے احکامات جاری ہوئے۔
بہرحال 23 جولائی کو جب لاہور میں یہ درخواست لگی تو اس کی مختصر کارروائی کرکے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز کو ٹرسٹی وزیرِ اعلیٰ بنا دیا گیا۔ آئینی اعتبار سے یہ بحث اس لیے اہم ہے کہ ٹرسٹی وزیرِ اعلیٰ کیا ہوتا ہے، کیونکہ آئین میں وزیرِ اعلیٰ کے لیے اس قسم کا کوئی ذکر نہیں۔ ویسے تو آئین میں کسی منحرف ممبر کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا بھی ذکر نہیں، لیکن سپریم کورٹ نے آئین کی شق 63 اے کی تشریح کرتے ہوئے یہ رائے دے دی کی پارٹی پالیسی کے خلاف اگر کوئی ممبر ووٹ دے بھی دیتا ہے تو وہ شمار نہیں ہوگا۔
آئین کےمطابق وہ ووٹ شمار ہوگا اور اس کے بعد اس رکن اسمبلی کے خلاف کارروائی ہوگی، اگر اس شق کو آئین میں دیکھا جائے تو اس کی تشریح واضح ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھا جائے تو معاملہ بالکل مختلف اور آئین کے برعکس لگتا ہے، اس لیے سوال اٹھتے ہیں کہ آئین سپریم ہے یہ یا آئین کی کوکھ سے جنم لینے والی عدالتِ عظمیٰ؟
قانون سازوں کی اکثریت اور کئی ماہرِ قانون عدالت کی اس تشریح کو ہضم نہیں کر پارہے اور ان کا اعتراض یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس تشریح کی بنیاد پر آئین میں ایک نئی شق کا اضافہ کردیا ہے جو کبھی آئین کا حصہ نہیں رہی۔ قانونی ماہرین کے مطابق پاکستانی قانون کے مطابق سزا جرم کے بعد ہوتی ہے، مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب ایسا ہوگا کہ جرم ہوگا ثابت بھی نہیں ہوگا لیکن ملزم مجرم تصور ہوجائے گا۔
آئین سازوں کے ذہنوں میں آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کرتے وقت کچھ تو ہوگا، اور پنجاب کے حالیہ بحران نے سپریم کورٹ کی اسی تشریح کے بعد جنم لیا تھا۔
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں اس فیصلے کا ہی حوالہ دیا گیا تھا۔ فرض کریں کہ آرٹیکل 63 اے اپنی اصلی حالت میں ہوتا تو بھی صورتحال مختلف ہوتی۔
23 جولائی کو لاہور میں ہوئی ابتدائی سماعت میں چیف جسٹس نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ بات تو اب ڈپٹی اسپیکر ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے عدالتی فیصلے کے کس پیراگراف کی بنیاد پر ووٹ مسترد کردیے، اور اس کی وضاحت کے لیے ڈپٹی اسپیکر کو عدالت نے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
آئین کے 3 ستون یعنی اتنظامیہ، مقننہ اور عدلیہ، ٹرائکوٹامی آف پاور کا یہ تصور بھی آئین میں واضح ہے کہ ان 3 اداروں کے کیا کیا کام ہیں۔ جمہوری دنیا میں کسی ملک کا کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کرتا، لیکن ہمارے ہاں قصہ اس کے الٹ ہے اور ہر ادارہ اپنا کام کرنے کے بجائے دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت خوشی خوشی کرتا ہے۔
ڈپٹی اسپیکر کی طلبی پر اس لیے تنقید ہوئی کہ وہ قائم مقام اسپیکر اور ایک اسمبلی کے کسٹوڈین ہیں۔ قاسم سوری نے تو آئین کو سبوتاژ کیا تھا جب انہیں طلب نہیں کیا گیا تو دوست محمد کو کیوں بلایا گیا؟ اختیارات کے تقسیم کے ان اصولوں کو نظر میں رکھ کر ہی شاید ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئے اور عدالت نے بھی اس بات کو نظرانداز کردیا۔
لاہور میں سماعت کے دوران ڈپٹی اسپیکر کے وکیل اور جارحانہ انداز میں دلائل دینے والے عرفان قادر نے سوال اٹھایا کہ آرٹیکل 3 ون اے کے تحت منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں یہ عدالت کی تحقیق تھی نا؟ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے فوری طور پر جواب دیا کہ یہ تحقیقات نہیں عدالتی فیصلہ تھا۔
پھر جب سپریم کورٹ نے یہ آبزرویشن دی کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ خطرے میں ہے تو مقدمہ کا آدھا فیصلہ تو اسی دن سامنے آگیا تھا باقی کی کارروائی رسمی طور پر پوری ہونی تھی۔ اس ابتدائی سماعت کے بعد ایک دن کے وقفے سے پیر 25 جولائی کو مقدمے کی اہم سماعت سپریم کورٹ اسلام آباد کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
حمزہ شہباز کے خلاف درخواست کا مقدمہ اسلام آباد منتقل ہوا تو یہ مقدمہ قانونی اور آئینی حیثیت سے زیادہ مزید سیاسی رنگ پکڑ گیا۔ سماعت کے لیے ایک بجے کا وقت مقرر کیا گیا لیکن سماعت سے پہلے چاروں اطراف سیاسی رابطے، اجلاس، مشاورت اور ملاقاتوں کا عمل شروع ہوگیا۔
وزیرِاعظم ہاؤس میں حکمران اتحاد کا اور بنی گالا میں تحریک انصاف کے اجلاس شروع ہوئے، وزیرِاعظم ہاؤس کے اجلاس کے بعد حکمران اتحاد کی جانب سے ایک تند و تیز پریس کانفرنس ہوئی۔ مریم نواز کی سربراہی میں ہونے والی پریس کانفرنس میں حکمران اتحاد نے متفقہ طور پر مطالبہ کردیا کہ مقدمے کی سماعت 3 ججوں کے بجائے فل کورٹ کرے۔
بنیادی طور پر وہ پریس کانفرنس سپریم کورٹ کے ان 3 ججوں پر عدم اعتماد کا کھلا اظہار تھی۔ اسی اثنا میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (جی یو آئی)، مسلم لیگ (ق)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور اتحاد سے باہر چوہدری شجاعت حسین نے مقدمے میں فریق بننے کی درخواستیں دائر کرکے سپریم کورٹ سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کردی۔
سپریم کورٹ کے اندر کے حالات بھی کچھ عجیب تھے۔ سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی، عدالتی احاطے کے باہر پولیس اور ایف سے کو مقرر کیا گیا۔ داخلی دروازوں پر کڑی نگرانی کے ساتھ ساتھ وکلا، سائلین اور میڈیا کے لیے عدالتی دروازے بند کردیے گئے۔ سپریم کورٹ سے پہلے یہ اعلان ہوا کہ کسی سیاسی رہنما کو سپریم کورٹ نہیں آنے دیا جائے گا اور عدالت میں لگے موبائل جیمرز کو فعال کردیا گیا جبکہ وکلا اور صحافی داخلی دروازوں پر کھڑے پولیس اہلکاروں سے الجھ رہے تھے۔
عدالتی احاطے میں دروازوں پر نو انٹری کا سماں تھا اور یہ صورتحال کافی وقت تک رہی۔ لیکن پھر ایک حل نکالا گیا اور وکلا، سیاستدانوں اور میڈیا کی ایک فہرست پولیس کو فراہم کی گئی۔
مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے پہلے سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون اور سابق صدر عبداللطیف آفریدی کی صدارت میں بار کے سابق 10 صدور کا اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ عدالت سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جائے گی۔
جب سپریم کورٹ نے سماعت شروع کی تو سینیئر وکیل اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر عبداللطیف آفریدی نے عدالت سے استدعا کی کہ سیاسی صورتحال سنگین ہے، ایسے حالات میں ضروری ہے کہ یہ مقدمہ فل کورٹ سنے جس پر چیف جسٹس نے ان کو یہ کہہ کر لاجواب کردیا کہ آپ کے لیے عزت ہے لیکن آپ کے دباؤ میں آکر ہم فل کورٹ تشکیل نہیں دیں گے۔
فل کورٹ کے حوالے سے چیف جسٹس کا یہ پہلا ردِعمل تھا لیکن جب ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر اور حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے بھی فل کورٹ کی استدعا کی تو عدالت نے مقدمے کے حقائق کو ایک طرف رکھ کر فل کورٹ کی تشکیل پر دلائل سننے شروع کیے اور پھر اس بارے میں کچھ غور کرنا شروع کردیا۔
فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل کے مرحلے میں عدالت کے اندر وکلا اور بینچ کے بیچ سخت جملوں کا تبادلہ بھی دیکھنے کو ملا۔ ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر جسٹس جواد ایس خواجہ کے وقت اپنے اسی رویے کی وجہ سے اپنا وکالت کا لائسنس معطل کروا بیٹھے ہیں۔ اس بار بھی بینچ کے ایک معزز جج کو اپنی بات سمجھانے کے لیے عرفان قادر کو بار بار روکنا پڑا۔ آخر میں چیف جسٹس کو مداخلت کرکے یہ کہنا پڑا کہ اگر آپ عدالت کی بات نہیں سنیں گے تو آپ اپنی نشست پر ہوں گے۔
عرفان قادر بھی کہاں رکنے والے تھے انہوں اس بات کو دل پر لے لیا اور آئین کا حوالہ دے کر کہا کہ آئین انسان اور ججوں کی عظمت کی بات کرتا ہے آپ مجھے جتنا بھی ڈانٹیں میں بُرا نہیں مناؤں گا کیونکہ وکیل کو ڈانٹنا جج کا حق ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم آپ کو ڈانٹ نہیں رہے ہم آپ کو محترم کہہ کر مخاطب ہیں، جس کے جواب میں عرفان قادر کا کہنا تھا کہ آپ مجھے جتنا محترم کہیں گے میں اس سے زیادہ آپ کو محترم کہوں گا۔
مدھم لہجے میں بولنے والے قانونی ماہر فاروق ایچ نائک کو ایک موقع پر چیف جسٹس نے یہ کہہ کر بٹھانے کی کوشش کی آپ صبر کریں ابھی آپ پارٹی بھی نہیں ہیں امید ہے کہ آپ کی نشست ابھی بھی خالی ہوگی، جس پر فاروق نائک نے کہا کہ کرسی کی کیا بات ہے؟ کرسی آنی جانی ہے، بندے کو اپنے پاؤں پر پختہ رہنا چاہیے، جس کے جواب میں چیف جسٹس نے ذو معنی بات کردی کہ ایسی باتیں کرنے والوں کی کرسی اکثر چلی جایا کرتی ہے۔
عرفان قادر کے دلائل الجھنے، جذباتی ہونے، ڈانٹ کھانے، بات نہ سمجھنے، نا سمجھا سکنے کے باوجود اس بات پر ختم ہوئے کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
اسی دن سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے سیاسی جماعت کی ایسی تشریح کردی کہ عدالتی کمرے میں قہقہے گونج اٹھے۔ انہوں نے کہا کہ 'اصل میں سیاسی جماعت وہی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہوتی ہے'۔
سیاسی جماعت کی یہ تشریح دنیا کی کسی ڈکشنری میں نہیں ملے گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اس مقدمے میں سب سے زیادہ فعال رہے اور حمزہ شہباز کے وکیل کو ان کے سوالات سے باہر نکلنے میں کافی وقت لگتا رہا۔ جب فل کورٹ کے معاملے پر بھرپور زور دیا گیا اور بار بار استدعا کی گئی تو عدالت نے یہ کہہ کر وقفہ لے لیا کہ ہم اس پر مشاورت کرتے ہیں اور تھوڑا وقفہ کر لیتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے واضح نہیں کیا کہ یہ فل کورٹ کی تشکیل پر فیصلہ محفوظ ہوا ہے یا عدالت مشاورت کے لیے وقفہ کر رہی ہے لیکن میڈیا پر خبریں چل چکی کہ فل کورٹ کی تشکیل پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
ایک لمبے وقفے کے بعد جب بینچ واپس آیا تو چیف جسٹس نے یہ کہا کہ ہم نے فل کورٹ کی تشکیل پر غور کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اہم آئینی امور پر فل کورٹ بنتا ہے، آئینی ترامیم یا اس نوعیت پر عدالت فل کورٹ بنانے کا حکم دیتی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ فل کورٹ بنانے کے لیے ہمیں مزید قانونی نکات پر دلائل درکار ہیں۔
جب کوئی بینچ فل کورٹ تشکیل دینے پر فیصلہ محفوظ کرکے واپس آکر مقدمے کے حقائق پر دلائل طلب کرے تو فنی اعتبار سے اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ فل کورٹ بنانے کی استدعا رد ہوچکی ہے اور میڈیا نے بھی یہی خبریں چلانا شروع کردیں کہ فل کورٹ تشکیل کی استدعا مسترد کردی گئیں اور 3 جج ہی مقدمہ سنیں گے۔
وقفے کے بعد واپس آکر چیف جسٹس صاحب نے یہی کہا کہ وکلا مقدمے کے حقائق پر دلائل دیں، فل کورٹ کو بعد میں دیکھیں گے، لیکن اکثر وکلا حضرات کی استدعا ہی فل کورٹ کی تھی تو وہ میرٹ پر دلائل دینے کے بجائے یہ کہنے لگے کہ میرٹ پر 3 ججوں کے سامنے مقدمہ رکھنے کے لیے ہمیں اپنے اپنے موکلوں سے ہدایات درکار ہیں اس لیے مہلت دی جائے۔
فاروق نائک نے کہا صورتحال گرم ہے بدھ یا جمعرات تک مقدمے کو رکھ لیں تب تک ہم تیاری کرلیں گے لیکن عدالت نے یہ استدعا مسترد کردی۔ یہاں یہ بات سب کو سمجھ آگئی کی فل کورٹ نہیں بن رہا، آگے چل کر چیف جسٹس صاحب نے اس کی وجہ بھی بیان کردی کہ عدالت میں گرمیوں کی چھٹیاں چل رہی ہیں اور فل کورٹ جتنے جج سپریم کورٹ میں موجود نہیں اور یہ اتنا پیچیدہ معاملہ بھی نہیں۔
سماعت کے دوران وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کی اس بات کو بھی عدالت نے بُرا منایا جب انہوں نے کہا کہ '12 کروڑ آبادی والے صوبے کو ایسے نہیں چھوڑا جا سکتا، ہماری جماعت کا واضح مؤقف ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے'۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 'آپ کو اپنی پسند کے بندے چاہئیں؟ اگر فل کورٹ بنے تو فیصلہ ٹھیک ورنہ فیصلہ خراب ہے'۔
اعظم نذیر تارڑ نے معذرت کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ 'آپ معذرت نہ کریں، اسی عدالت کے 5 ججوں نے جب ایک وزیرِاعظم کو گھر بھیجا تو آپ نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں'۔
اسی دن عدالت نے حمزہ شہباز کے وکیل کو وزیرِ قانون سے ہدایات لینے سے یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ آپ حمزہ شہباز کے وکیل ہیں تو وفاقی وزیر سے ہدایات کیسے لے سکتے ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا میں کوئی ہدایت نہیں لے رہا جبکہ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ منصور اعوان نوجوان وکیل ہیں ان کے کاندھوں پر بھاری وزن ہے۔
وقفے کے بعد فل کورٹ کی تشکیل پر فاروق نائک اور چوہدری شجاعت کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد کے دلائل سنے گئے۔ صلاح الدین احمد نے کہا کہ پارٹی بھی ہماری، خط بھی ہم نے لکھا اور وہ خط اراکین اسمبلی کو پہلے ہی مل گیا تھا تو پھر آگے کیا رہ جاتا ہے، اس بات پر عدالت نے کہا کہ میرٹ پر بات نہیں کریں فل کورٹ کیوں بنے اس پر دلائل دیں۔
ان دلائل کے بعد فل کورٹ کے معاملے پر باقاعدہ فیصلہ محفوظ ہوا اور طویل انتظار کے بعد 9:15 بجے سپریم کورٹ نے فل کورٹ کی تشکیل کی تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے سماعت دوسرے دن 26 جولائی تک ملتوی کردی۔
اس فیصلے نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کے چہروں کو مسکراہٹیں بخش دیں کیونکہ ان کے وکلا نے فل کورٹ کی مخالفت کرکے اسی بینچ کو مقدمہ سننے کی استدعا کی تھی۔ فل کورٹ کی تشکیل کی استدعا مسترد ہونے کے بعد سارے مقدمے کی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی، اب یہ مقدمہ مزید سیاسی رنگ میں رنگ گیا تھا۔
فل کورٹ نہ بننے کے فیصلے والی رات 11:15 بجے حکمران اتحاد نے عدالتی بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ یہ پریس کانفرنس نما اعلان پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بلاول بھٹو زرداری، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال و دیگر رہنماؤں کی موجودگی میں کیا۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی بڑی اکثریت نے عدالت سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی ہو اور سپریم کورٹ کے 3 ججوں نے اسے مسترد کرکے ماحول مزید گرما دیا۔
منگل کے دن 26 جولائی کو جس دن مقدمے کی سماعت ہوئی اس دن سپریم کورٹ کا ماحول اتنا گرم نہیں تھا۔ باہر بھی اتنی سختی تب تک نہیں تھی جب تک فیصلہ محفوظ نہیں ہوا۔ حکمران اتحاد پہلے ہی عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکا تھا لیکن ان کے وکلا جب سپریم کورٹ آئے تو سب کو حیرانی ہوئی، لیکن ان وکلا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا وہ عدالت میں اپنا مؤقف پیش کریں گے۔
جب مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو ایک ایک کرکے فاروق نائک، صلاح الدین احمد اور عرفان قادر عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہم اس کارروائی کا حصہ نہیں بن رہے ہیں اور فل کورٹ تشکیل نہ بنانے کے فیصلے کے خلاف ہم نظرثانی اپیل داخل کر رہے ہیں۔
وہاں بیٹھے ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ وکلا حضرات عدالت سے سیاست سیاست کھیل رہے ہیں اور کوئی نظرثانی درخواست نہیں داخل ہوگی۔
چیف جسٹس نے بھی جواب میں کہا کہ آپ کا شکریہ جو چاہیں درخواست دے سکتے ہیں لیکن مقدمے میں اب بھی کچھ باقی ہے آپ بیٹھیں اور سنیں۔ ان میں سے کچھ وکلا چلے گئے کچھ رہ گئے جس کو چیف جسٹس نے نوٹ کرکے فرمایا کہ شکر ہے کچھ فریقین عدالت میں ہیں جو کارروائی میں حصہ نہیں مگر وہ سن رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جن ممالک کے پاس اقوامِ متحدہ کی ممبرشپ نہیں ہوتی ان کی حیثیت مبصر کی ہوتی ہے آپ دل بڑا کریں۔ چیف جسٹس نے ان سے گزارش کی کہ آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، ورنہ آپ نے جو پہلے دن دلائل دیے ہیں ہم ان کو فیصلہ کا حصہ بنا دیں گے۔
آخری دن مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے فورم اوپن کرکے تمام وکلا کو دعوت دی کہ جس کو معاونت کرنی ہے وہ کرے، یہ نہ ہو کہ کوئی ابہام رہ جائے۔ لیکن مقدمہ تو اصل فریقین کا تھا جو روسٹرم سے دُور تھے۔
آخری دن پرویز الہٰی کے وکیل کا تھا جنہوں نے پورا مقدمہ بیان کردیا، پھر وہ وکلا بھی میدان میں آگئے جن کا کیس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اظہر صدیق اور احمد اویس بھی ان میں سے تھے۔ یہ بظاہر یکطرفہ کارروائی تھی کیونکہ دفاع میں آئے ہوئے فریقین نے فل کورٹ کی حد تک دلائل دیے تھے۔ ایکس پارٹی فیصلے بھی آتے رہتے ہیں۔
عدالت میں جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے تو ایک معزز جج نے انہیں کہہ دیا کہ کیا حکومت حکمران اتحاد سے الگ ہوچکی ہے؟ جس پر انہوں نے وضاحت کی کہ وہ آئین کےمطابق عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے دلائل کا ایک تیر نہیں چل سکا اور پھر عدالت نے وہی فیصلہ دیا جس کی تحریک انصاف اور حکمران اتحاد کو امید تھی۔ صوبے کے وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ عدالتی حکم پر گھر چلے گئے، جبکہ پرویز الہٰی وزیراعلیٰ بن گئے اور رات گئے حلف بھی لے لیا۔
ابراہیم کنبھر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں۔ ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔
ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔