بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف سے ساڑھے 4 ارب ڈالر کی مدد مانگ لی
بنگلہ دیش نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (ائی ایم ایف) سے مدد کی درخواست کی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی ملک نے حالیہ ہفتوں میں طویل بلیک آؤٹ کا سامنا کیا ہے، بعض اوقات دن میں 13 گھنٹے تک عوام کو بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یوٹیلیٹیز کو ڈیزل اور گیس کی طلب کو پورا کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش، بھارت میں بارش اور سیلاب سے 41افراد ہلاک، لاکھوں بے گھر
ملک بھر کی لاکھوں مساجد سے کہا گیا ہے کہ وہ بجلی کے گرڈ پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے اپنے ایئر کنڈیشنرز کے استعمال کو کم کریں کیونکہ کرنسی کی قدر میں کمی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے بجلی کے شارٹ فال میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وزارت خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈھاکا نے رقم ظاہر کیے بغیر آئی ایم ایف سے کریڈٹ لائن مانگی تھی۔
البتہ مقامی اخبار ڈیلی اسٹار نے رپورٹ کیا کہ آئی ایم ایف نمائندوں کے حالیہ دورے کے بعد بنگلہ دیش واشنگٹن میں مقیم قرض دہندہ سے 4.5 ارب ڈالر کا مطالبہ کر رہا ہے۔
جونیئر وزیر برائے منصوبہ بندی شمس العالم نے کہا کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد ایندھن کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکام ایک بحران سے نمٹ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں مودی مخالف احتجاج پر پولیس کا ربر کی گولیاں، آنسو گیس کا استعمال
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ادائیگیوں کا توازن منفی زون میں ہے، ہمیں اپنی شرح مبادلہ کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
کفایت شعاری کے اقدامات
شمس العالم نے کہا کہ حکومت نے بجلی کی بچت کے علاوہ کفایت شعاری کے اقدامات شروع کیے ہیں جن میں درآمدی پابندیاں اور ترقیاتی اخراجات میں کٹوتیاں شامل ہیں۔
ملک بھر میں ڈیزل پاور پلانٹس، جن کی پیداواری صلاحیت 1500 میگاواٹ ہے، گرڈ سے ہٹا دیے گئے ہیں جبکہ گیس سے چلنے والے کچھ پلانٹس بھی غیرفعال ہیں۔
حکومتی اندازوں کے مطابق بنگلہ دیش کی غیر معمولی مالی حالت شمال مشرق میں بے مثال سیلاب کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گئی ہے، جس سے 70 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے گھر زیر آب آئے اور تقریباً 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
حزب اختلاف کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے حکومت کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس پر اربوں ڈالر کے غلط منصوبوں پر نقد رقم ضائع کرنے کا الزام لگایا ہے۔
مزید پڑھیں: 'بنگلہ دیش کا جھکاؤ پاکستان اور چین کی جانب بڑھنے لگا'
صرف بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ کئی جنوبی ایشیائی ممالک تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عالمی معاشی سر گرمیوں کی وجہ سے عوامی مالیات کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے نبرد آزما ہیں۔
ڈیلی اسٹار نے ان دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ بنگلہ دیش نے اپنی ادائیگیوں میں توازن اور بجٹ کی ضروریات کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوششوں کے لیے فنڈز مانگے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیر خزانہ اے ایچ ایم مصطفیٰ کمال نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کو خط لکھا۔
بنگلہ دیش میں وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے دفتر کے حکام نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
بنگلہ دیش بینک نے حال ہی میں پرتعیش سامان، پھل، غیر سیریل فوڈز اور ڈبہ بند اور پراسیسڈ فوڈز کی درآمد کی حوصلہ شکنی کر کے ڈالر کو محفوظ بنانے کی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’پہلے بنگلہ دیش بنا اب نہ جانے کتنے دیش بنیں گے؟‘
بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 20 جولائی تک گر کر 39.67 ارب ڈالر پر آگئے تھے جو تقریباً 5.3 ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں تاہم ایک سال قبل یہ ذخائر 45.5 ارب ڈالر تھے۔
مرکزی بینک نے کہا کہ بیرون ملک مقیم بنگلہ دیشیوں سے موصول ہونے والی ترسیلات زر جون میں 5 فیصد کم ہو کر 1.84 ارب ڈالر رہ گئیں، مرکزی بینک نے کہا کہ کووڈ 19 کے وبائی امراض کی وجہ سے بہت سے تارکین وطن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ان میں سے بہت سے سفری مسائل اور پیچیدگیوں کی وجہ سے گھر نہیں جا سکے۔