جب فیصلے آئین، قانون اور انصاف کے مطابق نہ ہوں تو فل کورٹ سے خطرہ رہتا ہے، مریم نواز
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سپریم کورٹ سے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر فل بینچ تشکیل دینے کی درخواستیں مسترد ہونے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب فیصلے آئین،قانون اور انصاف کے مطابق نا ہوں تو فل کورٹ سے خطرہ رہتا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ 'مجھے کم از کم یقین تھا فل کورٹ نہیں بنے گا اور انصاف نہیں ملے گا اور یہی میں قوم کو بتانا چاہتی تھی'۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستیں مسترد کردیں
انہوں نے کہا کہ 'جب فیصلے آئین، قانون اور انصاف کے مطابق نا ہو تو فل کورٹ سے خطرہ رہتا ہے کیونکہ ایمان دار ججوں کے شامل ہونے سے فیصلے کی خامیاں منظر عام پر آ جاتی ہیں اور لوگ جان جاتے ہیں کہ فیصلہ آئین و قانون نہیں، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کیا گیا ہے مگر اب کچھ بھی کر لیں، لوگ تو جان گئے'۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کی حکومتی اتحاد کی درخواستیں مسترد کردیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری، حمزہ شہباز اور چوہدری پرویز الہٰی سمیت دیگر فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا کہ معاملے کی بنیاد قانونی سوال ہے کہ ارکان اسمبلی کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں، وکلا نے فل کورٹ بنانے اور میرٹ پر دلائل دیے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا رولنگ عدالتی فیصلے اور آئین کے خلاف ہے جبکہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا پارٹی سربراہ ارکان کو ہدایت دے سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: '3 اشخاص ملک کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتے'، حکمران اتحاد کا پرویز الٰہی کی درخواست پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ
سپریم کورٹ نے کہا کہ مزید وقت دینے کی استدعا منظور کی جاتی ہے اور مزید سماعت کل ہوگی اور فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ 22 جولائی کو ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت کے ایک خط پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ مسترد کردیے تھے اور حمزہ شہباز وزیراعلیٰ برقرار رہے تھے۔
بعد ازاں چوہدری پرویز الہٰی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا تھا۔