پنجاب کا سیاسی سرکس
صوبہ پنجاب میں جاری موجودہ سیاسی بحران پر بات کرنے سے قبل اس بات کی یاددہانی ضروری ہے کہ یہ ملک بہت امیدوں کے ساتھ وجود میں آیا تھا۔ ان امیدوں کا مرکز پارلیمنٹ تھی جسے قائدِاعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ’۔۔۔آپ کے پاس تمام تر اختیارات ہیں‘۔ یہ بھروسہ بھی تھا اور بوجھ بھی۔
لیکن آج کے پنجاب میں 10 کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کی قسمت کا فیصلہ عوام نہیں کرتے بلکہ گجرات کے چوہدری خاندان کے 3 افراد کرتے ہیں۔
اب یہ چوہدری بھی وہ پرانے چوہدری نہیں رہے۔ ایک وقت تھا جب ظہور الہٰی کے خاندان کی اصل پہچان ہی ان کا اتحاد تھا بھلے اس کی وجہ اقتدار کا حصول ہی کیوں نہ ہو۔ شریف ایک دوسرے سے جھگڑتے، بھٹو ایک دوسرے پر قتل کے الزام لگاتے لیکن پھر ہمارے سامنے غیر منقسم اور غیر متزلزل چوہدری خاندان آتا۔ موجودہ مسلم لیگوں کے فکری خسارے کو دیکھتے ہوئے ’مٹی پاؤ‘ کے فلسفے کو بھی اخلاقیات کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
اب تک تو معاملہ درست تھا لیکن ہر خاندان کی تیسری نسل کی طرح یہاں بھی تیسری نسل نے خاندان کے اتحاد کو برباد کردیا۔ تیسری نسل کے چوہدری 2 بڑی جماعتوں کے ساتھ ملتے رہے۔ آج حالت یہ ہے کہ جس دوران پنجاب میں افراتفری بڑھتی جارہی ہے اس دوران مسلم لیگ (ق) بھی دلدل میں پھنستی جارہی ہے۔
مزید پڑھیے: معاملہ شجاعت، زرداری اور پرویز الٰہی کا: کب اور کیا کچھ ہوا؟
چوہدری شجاعت سمجھتے ہیں کہ ان کا مستقبل شریفوں کے ساتھ ہے لیکن مونس الہٰی سمجھتے ہیں کہ عمران خان ہی اصل مستقبل ہیں۔ چوہدری پرویز الہٰی تو بس وزیرِ اعلیٰ بننا چاہتے ہیں، مستقبل جائے بھاڑ میں۔ (نوٹ: تینوں ہی پنجاب کے لیے بہتر نہیں ہیں اور یہ اپنے مفاد کے مطابق جب چاہیں گے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یا مسلم لیگ (ن) کا ساتھ چھوڑ دیں گے)۔
چوہدری خاندان میں ہونے والی اس بغاوت میں عمران خان کے مخالفین کو ایک موقع نظر آیا۔ ویسے تو سابق صدر آصف علی زرداری خاندانی جھگڑوں کا فائدہ نہیں اٹھاتے لیکن اس مرتبہ انہوں نے فوراً چوہدری شجاعت کی آرام دہ کرسی پر قبضہ جمایا اور انہیں ان کے کزن سے دُور کردیا۔ یوں 22 جولائی کو جماعت کے سربراہ نے اپنی ہی پارلیمانی پارٹی کی مخالفت کا فیصلہ کیا اور اپنے اراکین کو کہا کہ وہ حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دیں۔
ہوا یہ کہ اراکین نے پرویز الہٰی کو ووٹ دے دیا اور پھر راجن پور سے منتخب ہونے والے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری میدان میں آئے۔ مین آف دی میچ دوست محمد مزاری نے قانون کا عجیب و غریب حوالہ دے کر مسلم لیگ (ق) کے ووٹوں کو مسترد کردیا۔
یوں حمزہ شہباز شریف ایک بار پھر وزیرِ اعلیٰ بن گئے۔ جیسے ماضی میں ان کے والد اور اس سے قبل ان کے والد کے بھائی اس منصب پر موجود تھے ویسے ہی آنے والے برسوں میں ان کے بچے اور پھر ان کے بچے اس کرسی پر بیٹھیں گے۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) نے اپنے ازلی دشمن آصف زرداری کی جوڑ توڑ پر خوب خوشیاں منائیں۔ یہ وہی آصف رزداری ہیں جن کی ’سیاسی ذہانت‘ نے ان کی جماعت کو صرف جوڑ توڑ کی سیاست اور ایک صوبے تک محدود کردیا ہے اور وہاں بھی وہ سب سے بڑے شہر سے محروم ہیں۔
مزید پڑیھے: اگر پرویز الہٰی وزیرِ اعلیٰ پنجاب نہ بن سکے تو؟
اب ہم کچھ ذکر آئین کا کرلیتے ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 63 اے کہتا ہے کہ ’اگر کسی پارلیمانی پارٹی کا کوئی رکن وزیرِ اعلیٰ یا وزیرِاعظم کے انتخاب کے لیے ایوان میں اپنی پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے برخلاف ووٹ دیتا ہے یا پھر ووٹ ہی نہیں دیتا تو جماعت کا سربراہ اعلان کرسکے گا کہ وہ اپنی سیاسی جماعت سے منحرف ہوگیا ہے۔۔۔‘۔
یہ بات واضح ہے کہ ووٹنگ پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے مطابق ہوتی ہے اور منحرف قرار دیے جانے میں جماعت کے سربراہ کا کردار شامل ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آئین میں پہلی مرتبہ میں ہی جماعت کے سربراہ کا ذکر ہوتا۔
دوسری بات یہ کہ اگر یہ پارلیمانی پارٹی یا پارٹی سربراہ ایک دوسرے کا متبادل ہوتے تو ’پارلیمانی پارٹی‘ کی اصطلاح ہی بے کار ہوتی اور اس کا کوئی جواز ہی کیوں ہوتا؟
تیسری بات یہ کہ اس طرح کی تشریح پارلیمانی پارٹی جو عوام کی نمائندگی کرتی ہے پر پارٹی سربراہ کو فوقیت دے دیتی جو غیر منتخب بھی ہوسکتا ہے جو چوہدری شجاعت ہیں بھی۔
چوتھی بات یہ کہ ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی بالکل غلط تشریح کی ہے۔ وہ فیصلہ اس حوالے سے ہے کہ جب اراکین نے پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے برعکس ووٹ ڈالا ہو۔ کچھ بھی ہو یہاں پارٹی سربراہ کی حیثیت کو کچھ زیادہ ہی سمجھ لیا گیا ہے، اس کے پاس ووٹنگ کے حوالے سے ہدایت دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یوں چوہدری شجاعت کے خط کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
پھر یہ بھی عجیب بات ہے کہ عین وقت پر پارٹی کے امیدوار پر سوال اٹھا دیا جائے جبکہ لاہور ہائی کورٹ اپنے فیصلے میں پرویز الہٰی کا نام لے چکی ہے اور یہ کہہ چکی ہے کہ یہ رن آف الیکشن ہوگا جس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ امیدوار وہی رہیں گے۔ ایسا آئین کے آرٹیکل 130 کی شق 4 میں بھی واضح ہے۔
مزید پڑھیے: پنجاب کے ضمنی انتخابات: جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا؟
چھٹا نکتہ یہ کہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ موجود نہیں ہے جس کے تحت پارٹی سربراہ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے مترادف ہو۔ اس کا اطلاق عائشہ گلالئی کیس پر بھی ہوتا ہے جو کبھی بھی نااہلی کی حقدار نہیں تھیں کیونکہ انہوں نے کبھی کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ پی ٹی آئی کے پنجاب کے منحرف اراکین صوبائی اسمبلی کا معاملہ بھی پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے گرد گھومتا ہے۔
بہتر یہی ہوگا کہ ہم یہیں رک جائیں۔ عدالتی فیصلے کو دیکھتے ہوئے دوست مزاری کی رولنگ بھی اتنی ہی بوگس ہے جتنی اپریل میں دی گئی قاسم سوری کی رولنگ بوگس تھی۔ اکثریتی مینڈیٹ کو روکنا یا تو ان کا بھول پن تھا یا پھر بددیانتی۔
جہاں تک اس صورتحال کے پیچھے موجود انجینیئرنگ کی بات ہے تو اس کے نتیجے میں گزشتہ کچھ ماہ کے دوران روپے کی قدر گرچکی ہے، نظام تباہ ہوچکا ہے اور عوامی بیزاری کے نتیجے میں پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے میدان مارلیا ہے۔ اب اس ملک پر رحم کریں، کسی اور کو نہیں بلکہ ہمارے عوامی نمائندوں کو چاہیے کہ عام انتخابات کا اعلان کریں اور ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے اور اس کھیل تماشے کو اب ختم ہونا چاہیے۔
یہ مضمون 24 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری بیرسٹر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔