’ٹرسٹی‘ وزیراعلیٰ کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے، قمرزمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور وزیر اعظم کے مشیر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ اور قابل احترام جج صاحبان نے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو 'ٹرسٹی' وزیر اعلیٰ کہا ہے جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن بہرحال ہم جج صاحبان کا احترام کرتے ہیں۔
لالہ موسیٰ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بھی ایک سوال ہے کہ ایسی تشریحات کیوں کردی جاتی ہیں جو آئین سے بظاہر متصادم ہوں؟
انہوں نے کہا کہ جب تک عدالت میں یہ معاملہ زیر سماعت ہے اس مدت تک اگر وزیر اعلیٰ کوئی ایسے اقدامات اٹھاتے جو عدالت کی نظر میں درست نہ ہوتے تو انہیں منسوخ کیا جاسکتا تھا، لیکن ان کے عہدے کو چھوٹا کرکے ’ٹرسٹی‘ کہہ دینے پر تعجب ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا احترام اپنی جگہ لیکن سیاسی اداروں کا احترام بھی کسی سے کم نہیں ہونا چاہیے، سیاسی معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں تو سب کی اپنی اپنی تشریحات ہوتی ہیں اور ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں سیاسی تعطل آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز پیر تک بطور 'ٹرسٹی' وزیراعلیٰ پنجاب رہیں گے، سپریم کورٹ
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اب ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر عدالت میں بحث چھڑی ہے، آج کل ہمارے بہت سے سیاسی معاملات عدالتوں میں جارہے ہیں، میں سیاسی جماعتوں سے بھی کہوں گا کہ ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بہرحال یہ معاملہ اب عدالت میں ہے اس لیے اس پر مزید بحث نہیں کروں گا لیکن حکومتی اتحاد کے تحفظات ہیں کہ ایک ہی بینچ ہے جو اس قسم کے حساس کیسز پر سماعت کر رہا ہے، کل ہونے والی سماعت کے دوران عدالت کے چند جج صاحبان نے کچھ تبصرے کیے ان پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔
رہنما پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ جج صاحبان کا کام فیصلے دینا ہے، اگر وہ فیصلہ سنانے سے قبل اس طرح کے تبصرے کریں گے تو ان کی ذات سے متعلق غیرجانبداری کا تصور متاثر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے حکومتی اتحاد نے مطالبہ کیا کہ اسے فل کورٹ کیا جائے تاکہ یہ معاملہ ایک طرف ہو، اس طرح سارے فریقین فیصلے پر متفق ہوں گے اور آئندہ کے لیے سمت طے ہوگی، ہر روز عدالتی مقدمہ بازی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب: مسلم لیگ (ق) کا رات گئے سپریم کورٹ سے رجوع
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ فل کورٹ کے مطالبے پر عدالت کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے میں ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں جاری غیر یقینی کی کیفیت ختم ہو اور عدلیہ پر سوالات نہ اٹھیں، اس طرح کے معاملات میں عدلیہ کو اپنا دامن دھبوں سے بچا کر رکھنا چاہیے، کچھ ماضی کے دھبے ہیں جو اب تک دھلے نہیں ہیں، عدلیہ مزید دھبوں کی متحمل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بعد شور مچایا گیا کہ پی ٹی آئی کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈال دیا گیا ہے جبکہ انتخاب سے قبل پی ٹی آئی قیادت سمیت دیگر لوگوں نے آصف زرداری کے خلاف مغلظات بکیں اور الزامات لگائے کہ پیسے چل گئے، نوٹوں کی گڈیاں آگئیں جبکہ الیکشن والے روز سب ارکان نے اپنی اپنی پارٹی کو ہی ووٹ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) والے یہ تو بتائیں کہ کہاں گئے آپ کے دعوے اور کس کا مینڈیٹ چوری ہوا؟
قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی الیکشن کے بعد کی پیداوار ہے، اس کا مینڈیٹ نہیں ہوتا، مینڈیٹ قیادت کا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو بھی اب گالیوں، جھوٹ اور الزامات کا سلسلہ ختم کرنا چاہیے، شرم نہیں تو کم از کم جھوٹ بولنے پر ندامت کا احساس ضرور ہونا چاہیے۔