رواں مالی سال کیلئے فنانسنگ کی ضروریات پوری ہو گئیں، قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا ہے کہ پاکستانی کو مالی سال 23-2022 کے لیے 33.5 ارب ڈالرز کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت پوری ہو چکی ہے جبکہ مالی صورت حال کے حوالے سے مارکیٹ کے غیر ضروری خدشات چند ہفتوں میں ختم ہو جائیں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق پاکستان کی گرتی معیشت کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہوا تھا کیونکہ پچھلے ہفتے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں تقریباً 8 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم ہیں اور مہنگائی ایک دہائی کی بُلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے رائٹرز کو ای میل پر جواب میں بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری پروگرام کے سبب ہماری اگلے 12مہینوں کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت پوری ہوچکی ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کا معاہدہ طے پا گیا تھا، جس کے تحت پاکستان کو ایک ارب 17کروڑ ڈالر کی رقم جاری کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سری لنکا نہیں، نہ حالات اس جیسے ہیں، قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک
مرکزی بینک کے قائم مقام گورنر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ اسٹاف لیول معاہدے کا اگلا جائزہ اجلاس پاکستان کو کمزور ممالک کی فہرست سے الگ کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا جبکہ زیادہ تر ممالک کو آئی ایم ایف کی حمایت حاصل نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے کے بورڈ سے معاہدے کی منظوری کے بعد ہی قسط جاری کی جائے گی، جس کا اگست میں امکان ہے جبکہ اس سے قبل پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے۔
لیکن چند لوگ آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے باوجود پاکستان کی بیرونی مالیاتی ضروریات پورا ہونے کی صلاحیت پر سوال اٹھاتے ہیں، جن میں قرضوں کی ادائیگیاں بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے قرضوں کی صورت حال، جو مارکیٹوں کے لیے اہم نکتہ ہے، مقروض دیگر کمزور ممالک کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
مزید پڑھیں: دیوالیہ پن کا شکار سری لنکا کا بیرونِ ملک مقیم شہریوں سے رقم بھیجنے کا مطالبہ
پاکستان کی جی ڈی پی کے مقابلے میں مجموعی قرضوں کا تناسب 71 فیصد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پر بیرونی قرضے کم ہیں، قرضوں کو نسبتاً طویل عرصے بعد آسان شرائط کے تحت واپس کرنا ہوگا، زیادہ تر مہنگے تجارتی قرضے نہیں ہیں بلکہ ان کی نوعیت کثیرالجہتی اور دو طرفہ رعایتی قرضوں کی ہے۔
رائٹرز کے مطابق بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو دی جانے والی حالیہ پریزنٹیشن میں ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے بتایا کہ 33.5 ارب ڈالر کی بیرونی مالیاتی ضرورت کو باآسانی 35.9 ارب ڈالر کی دستیاب فنانسنگ سے پورا کر لیا جائے گا۔
زیادہ تر فنانسنگ کثیرالجہتی اداروں، تیل کی ادائیگی میں سہولت اور دو طرفہ فنانسنگ 'رول اوور' سے ظاہر کی گئی ہے، مالی سال 23-2022 کی دوسری سہہ ماہی میں بھاری فنانسنگ کی ضرورت ہے۔
پریزینٹیشن میں پاکستان کی صورت حال کا موازنہ حال ہی میں دیوالیہ ہونے والے سری لنکا سے کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی بیرونی دباؤ آیا پاکستان نے زری پالیسی کو سخت کردیا اور روپے کی قدر کم کرنے کی اجازت دی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے ساتھ ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کا معاہدہ طے پا گیا، آئی ایم ایف
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کے مقابلے میں سری لنکا کی مالی صورت حال زیادہ خراب ہے اور سری لنکا کا پرائمری خسارہ عالمی وبا کے آغاز سے 3 سے 4 گنا زیادہ ہے۔
قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان کو غیر منصفانہ طور پر زیادہ کمزور ممالک کے گروپ میں رکھا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی متعلقہ طاقت کو نظرانداز کرکے منڈیاں ان صدموں پر غیرمنصفانہ اور عام طریقے سے ردعمل دے دہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں حقیقت ظاہر ہو جائے گی اور پاکستان کے حوالے سے غیر ضروری خدشات ختم ہو جائیں گے۔