نقطہ نظر

حسین شخص اور شاندار اداکار۔۔۔ تنویر جمال کو خراجِ تحسین

وہ کہتے تھے کہ ‘میں اندر سے ایک کمسن لڑکے جیسا ہی ہوں جو جوان ہے، زندگی کی جمالیات اور رعنائیوں سے بھرپور لطف اٹھانا چاہتا ہے‘۔

پاکستان میں ڈرامے کے سنہرے دنوں کو یاد کیا جائے، تو چند نام ایسے ہیں جو اس حسین منظرنامے پر نگینے کی مانند جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، انہی میں سے ایک نام تنویر جمال کا ہے، جو پاکستانی ڈرامے اور فلم کا مستند حوالہ تھے۔

حال ہی میں جاپان میں ان کی رحلت ہوئی جہاں وہ اپنے علاج کی غرض سے موجود تھے۔ وہ یوں بھی جاپان آتے جاتے رہتے تھے کہ وہاں ان کا دوسرا گھر تھا، جہاں ان کی جاپانی شریکِ حیات اور بچے بھی مقیم ہیں۔ وہ اپنی ذات میں شریف النفس انسان، خوبرو اور وجیہہ شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے منجھے ہوئے اداکار کے طور پر زندگی کو بسر کیا۔

آئیے ان کے اوراق زندگی کو پلٹتے ہیں، جس سے ان کی مزید فنی اور شخصی خوبیوں کو دریافت کیا جاسکتا ہے۔ ہائے، کیسا شاندار شخص ہم سے بچھڑ گیا۔

ذاتی زندگی

تنویر جمال کے والدین کا تعلق ہندوستانی شہر لکھنو سے تھا، تقسیمِ ہند کے وقت وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ان کے والد تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے، ان کو اردو زبان و ادب سے خاص شغف تھا۔ پاکستان آنے کے بعد ان کے والد نے پاکستان نیوی میں ملازمت اختیار کی۔ ان کی والدہ گھریلو خاتون تھیں اور تنویر جمال کو پیار سے ‘گڈو’ کہاکرتی تھیں۔

تنویر جمال کی پیدائش کا سال 1960 ہے۔ ان کو والدین سے نرم لہجہ، شائستہ طبیعت اور تہذیبی رویہ ورثے میں ملا۔ وہ اپنے لیے اکثر کہا کرتے تھے کہ ‘میں اندر سے ایک کمسن لڑکے جیسا ہی ہوں جو جوان اور رعنا ہے، زندگی کی جمالیات اور رعنائیوں سے ہمہ وقت بھرپور لطف اٹھانا چاہتا ہے‘۔

وہ ایک بہت اچھے طالب علم بھی تھے، ابتدائی تعلیم سے لے کر پاکستان میں تعلیم مکمل کرنے تک، والدین کی امیدوں پر پورے اترے۔ تعلیم پر بھرپور طور سے توجہ دی اور کامیابی کے ساتھ تعلیمی سنگِ میل طے کرتے چلے گئے، لیکن میٹرک کے امتحانی نتائج نے ان کی دل شکنی کی۔ انہوں نے اس بات کو بہت سنجیدہ لیا اور یہی وجہ تھی کہ 18 سال کی عمر میں وہ مزید تعلیم کے حصول کے لیے پاکستان سے فرانس چلے گئے اور پیرس میں اپنی تعلیم مکمل کی۔

ان کے ہوٹل کے کیریئر کی شروعات یوں ہوئیں کہ جب یورپ میں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی، تو ان کو بحرین سے ملازمت کی پیشکش ہوئی۔ وہ وہاں کے شاہی ہوٹلز کے معروف ادارے سے وابستہ ہوگئے۔ وہاں شاہی خاندان کے سربراہ اور ان کے خاندان کے افراد سے بھی راہ و رسم ہوئی۔ وہاں سے اسی کیریئر کی اگلی ملازمت کے سلسلے میں تھائی لینڈ پہنچے، جو اس وقت اتنا ترقی یافتہ اور گلیمرس نہیں تھا۔ وہاں ان کو ایک جاپانی لڑکی سے محبت ہوئی، جو ایک نجی ایئرلائن میں ایئرہوسٹس تھی۔ انہوں نے اپنی اس محبوب دوست سے، اس کی سرزمین یعنی جاپان پر ملاقات کا ارادہ کیا اور جاپان جا پہنچے۔

وہاں پہنچ کر ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ جاپان اتنا ترقی یافتہ اور صاف ستھرا تھا۔ اس ملک کے سامنے بقول ان کے’ یورپی ممالک بھی کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے۔ ایسی صفائی ستھرائی اور عمدہ نظم و نسق تھا۔ وہ خود تو نفیس اور نستعلیق شخصیت کے مالک تھے ہی، لہٰذا اس نظام اور شفاف فطری ماحول کی محبت میں بھی گرفتار ہوئے اور عاشقِ جاپان بن گئے۔ وہ محبوب دوست تو کہیں حالات کے دھندلکوں میں کھوگئی، جس کے لیے وہ جاپان پہنچے تھے لیکن وہ خود اس سرزمین سے ہمیشہ کے لیے جڑ گئے۔ وہاں کئی کاروبار کیے اور اپنا نظامِ زندگی متوازن کیا۔

وہ جب جاپان میں رہتے تھے تو وہیں ان کی ملاقات اپنی ہونے والی بیوی سے ہوئی، وہ بھی جاپانی تھیں۔ ان سے شادی بخیر و خوبی ہوئی۔ وہ جاپان میں مقیم ہیں اور ان کے 3 بچے ہیں بلکہ اب تو وہ نانا بھی بن چکے تھے اور اپنے نواسے کو بے حد پیار کرتے تھے۔

پیشہ ورانہ حیات

تنویر جمال 1981 میں جاپان پہنچے تھے اور وہاں رہتے ہوئے ان کو ماڈلنگ کا موقع ملا۔ وہ پہلے پاکستانی تھے جنہوں نے وہاں جاپانی اور دیگر غیر ملکی آٹو موبائل کمپنیوں کے لیے ماڈلنگ کی۔ ان میں سے چند جاپانی کمپنیوں نے جب پاکستان میں اپنا تشہیری مواد بھیجا تو وہ پاکستان میں بھی متعارف ہوگئے اور یوں انہیں پاکستانی شوبز میں بھی داخل ہونے کے مواقع ملے۔

1989 میں پی ٹی وی سے نشر ہونے والے مشہور زمانہ ڈراما سیریل ’جانگلوس‘ سے تنویر جمال کو پاکستان میں شہرت ملی اور چند ایک پاکستانی فلموں میں بھی انہوں نے کام کیا۔ ان کے چند مشہور اور نمایاں ڈراموں میں ’جناح سے قائد‘، ’سمجھوتا‘، ‘بابر‘، ‘انتہا‘، ‘جنم جلی‘، ‘جلتے سورج‘، ‘تیری رضا‘، ‘خلش‘، ‘کوئی چاند رکھ‘، ‘خواب زادی‘، ‘دل کیا کرے‘، ‘میرے دوست میرے یار‘، ‘رازِ الفت‘، ‘مہلت‘، ‘میرے اپنے‘ اور دیگر شامل ہیں۔

90 کی دہائی میں اداکاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا پروڈکشن ہاؤس بھی کھولا، جس کے تحت پاکستان کا پہلا ایکشن ڈراما ‘گاڈ فادر‘ بنایا، جس کو پاکستان اور جاپان میں شوٹ کیا گیا۔

ان کا کیریئر تقریباً 4 دہائیوں پر مشتمل تھا، جس میں انہوں نے ہر طرح کے کردار ادا کیے۔ ان دنوں وہ اپنی بنائی ہوئی اردو فیچر فلم ‘جیپنیز کنیکشن‘ کو ریلیز کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک فلم ’اب پیامبر نہیں آئیں گے’ بنائی تھی، اور تنویر جمال نے جاپان میں اپنے حلقہ احباب کے لیے اس کی نمائش کی تھی، مگر اس کی باقاعدہ ریلیز دونوں ملکوں میں نہ ہوسکی تھی۔ اس کی ریلیز نہ ہونے کا بھی ان کو بے حد دکھ تھا۔

جاپان میں فلمائی گئی پاکستانی فلم ’جیپنیز کنیکشن’ کی کچھ تفصیلات

اس مذکورہ فلم کی تفصیلات بہت دلچسپ ہیں۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ اپنی نئی فلم ’جیپنیز کنیکشن’ کی پاکستان اور جاپان میں ریلیز کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اس فلم کا آفیشل ٹریلر بھی جاری ہوچکا تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ‘میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ منشیات کے خلاف کام کرنے میں گزارا، لہٰذا یہ فیچر فلم بھی اسی موضوع پر ہے‘۔

وہ اس فلم کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر، رائٹر اور ایکٹر بھی تھے۔ اس فلم کی 70 فیصد عکس بندی جاپان میں ہوئی۔ اس کا مرکزی خیال 2 بچپن کے دوستوں کی کہانی ہے، لیکن وہ جب کیریئر بناتے ہیں تو ایک پولیس افسر بن جاتا ہے اور دوسرا منشیات فروش، پھر کس طرح ان دونوں کا آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے، اسی تناظر میں یہ کہانی فلمائی گئی ہے۔

اس فلم کا معیار ہولی وڈ کی انگریزی فلموں جیسا رکھا گیا تاکہ یہ بین الاقوامی معیار کی فلم ثابت ہوسکے۔ اس فلم کی پروڈکشن مکمل ہوچکی ہے، اس میں ان کے ساتھ صرف ایک ہی پروڈیوسر ہیں، جو پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔

یہ 2 گھنٹے پر مشتمل فلم ہے، جس میں 2 گیت بھی شامل ہیں۔ 8 کروڑ کے بجٹ میں اس فلم کو بنایا گیا ہے۔ اس فلم کے چند نمایاں فنکاروں میں مرینہ خان، ہمایوں اشرف، رعنا علی، تیمور خان، مائرہ خان اور ایک معروف پاکستانی تاجر رانا عابد حسین سمیت دیگر شامل ہیں۔ اس فلم میں تقریباً 20 اداکاروں نے کام کیا، 3 ہفتے تک جاپان میں اس کی عکس بندی ہوئی اور اس میں کئی کاریں بھی تباہ ہوتے دکھائی گئیں، جن میں مرسڈیز اور دیگر قیمتی کاروں کے ماڈل شامل ہیں۔

عالمی اداکاروں سے راہ رسم اور کچھ تذکرے

ان کو ہندوستان سے بھی فلموں میں اداکاری کی پیشکش ہوئی تھی اور معروف بھارتی اداکار ’پران’ نے ان کو اپنے ہاں مدعو کیا تھا۔ یہ وہاں گئے، دلیپ کمار سمیت کئی فنکاروں سے ملے اور تبادلہ خیال کیا۔ دلیپ کمار کی نصیحت کو ذہن نشین کرلیا کہ ‘زیادہ مشہور آدمی تنہا رہ جاتا ہے، کوشش کرنا کبھی زیادہ مشہور نہ ہونا‘۔

وہ ہندوستانی فلم میں کام تو نہ کرسکے، مگر وہاں کی یادیں ان کے ذہن میں نقش تھیں۔ انہوں نے زندگی کو بہت شاندار اور آسودہ طریقے سے گزارا۔ پاکستان کے سماجی و معاشرتی حالات پر ان کا دل ایک محب وطن پاکستانی کی طرح آزردہ ہوتا تھا، خاص طور پر جب وہ یورپی ممالک اور جاپان جیسے ملک میں رہتے تو ان کا یہ احساس اور شدید ہوجاتا کہ پاکستان بھی ویسا ہی ملک بن جائے، یہاں بھی لوگ صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں، قوانین کی پابندی کریں، وقت کی قدر کریں وغیرہ وغیرہ۔

ان کے پسندیدہ اداکاروں میں فرانسیسی اداکار ’ایلن ڈلن’ تھے جبکہ امریکی اداکار ’ال پیچینو’ بھی اچھے لگتے تھے۔ دلیپ کمار بھی ان کو بے حد پسند تھے، وہ اداکاری میں ان کی خدمات کو بہت سراہتے تھے۔ پاکستان میں طلعت حسین، عابد علی، خالدہ ریاست کی اداکاری بہت اچھی لگتی تھی۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ بہروز سبزواری، بشری انصاری وغیرہ سے بھی رابطے میں تھے۔

پاکستان جاپان ثقافتی تعلقات کے اعزازی سفیر

کراچی میں راقم نے پاکستان جاپان لٹریچر فورم کی تشکیل کی اور اس کے تحت فاطمہ ثریا بجیا کے ڈراموں کی ایک کتاب کی تدوین کی اور ’خاموشی کا شور’ کے نام سے وہ کتاب شائع ہوئی، تو اس کی تقریب پذیرائی کا اہتمام جاپان معلوماتی و ثقافتی مرکز کے تحت قونصل خانہ جاپان، کراچی میں کیا گیا۔

اس سلسلے میں ہم نے تنویر جمال کو وہاں مدعو کیا تو وہ بہت خوشدلی سے شریک ہوئے، کتاب کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور دونوں ممالک کے درمیان ہمارے اس ادبی کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ میرا ان سے رابطہ تھا، آخری ملاقات ان سے رواں برس کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہوئی تھی، جہاں میرے بچوں نے ان کے ساتھ تصویر بھی بنوائی اور آٹوگراف بھی لیے۔ یہ لمحہ بھی میری یادداشت میں پیوست رہے گا اور میں یہ ہرگز نہیں جانتا تھا کہ یہ ان سے ہماری آخری ملاقات ہے۔

حرفِ آخر

تنویر جمال رخصت ہوچکے ہیں، پاکستان اور جاپان میں ان کے دوست اور خاندان کے افراد سوگوار ہیں۔ اگر ہم ایسے لوگ تلاش کرنے جائیں تو ممکن ہے کہ اب کوئی ہمیں نہ مل سکے۔ وہ اپنی شخصیت میں بے حد عمدہ تھے اور لطیف انسان بھی، فنکار تو وہ اچھے ہی تھے۔ ان کے جمال کی پرچھائیاں فن اداکاری میں طویل عرصے تک قائم رہیں گی اور پاکستان جاپان کے ثقافتی تعلقات میں ان کی خدمات کو ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھاجائے گا۔

تنویر جمال پاکستان کے ایسے سفیر تھے، جنہوں نے بے لوث ہوکر اپنے ملک کا نام جاپان سمیت دنیا بھر میں روشن کیا۔ ان کی خدمات دونوں ممالک میں طویل عرصے تک یاد رکھی جائیں گی۔


حوالہ جات:

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔