نقطہ نظر

'عروس البلاد' اپنے نئے ناظم کے لیے چشم براہ!

کراچی میں بلدیاتی حکومت کا آغاز 1933 سے ہوا اور جمشید نسروانجی شہر کے پہلے میئر منتخب ہوئے جو آج بھی معمار کراچی تسلیم کیے جاتےہیں

مون سون کی بارشوں میں ڈوبتا ابھرتا کراچی بلدیاتی انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ’عروس البلاد‘ کی خستہ حال سڑکیں، جابجا غلاظت کے ڈھیر، پارکوں میں قائم کچرا کنڈیاں اور ہر گلی کی نکڑ پر ابلتے گٹر شہر کے بلدیاتی انتظام کے منتظر ہیں اور اس پس منظر میں شب و روز پریشانی سے دوچار کراچی کے کروڑ ہا عوام 7 سال بعد، 24 جولائی کو ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات سے متعلق غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہیں۔

سندھ میں دوسرے مرحلے کے تحت کراچی اور حیدرآباد کے 16 اضلاع میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام انتظامات مکمل ہوگئے ہیں۔ کراچی کے 7 اضلاع میں رجسٹرڈ لگ بھگ 85 لاکھ ووٹرز کے لیے 5003 پولنگ اسٹیشن قائم کردیے گئے ہیں۔

سندھ حکومت نے لوکل باڈیز ترمیمی ایکٹ 2021ء کے تحت کراچی کے 7 اضلاع کو 26 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے اور ان میں کُل 246 یونین کمیٹیز قائم کی گئی ہیں۔ ہر یونین کمیٹی میں سیٹوں کی تقسیم متعلقہ ضلع کی آبادی کے مطابق کی گئی ہے۔ 246 یونین کمیٹیوں میں سے جو پارٹی 124 یوسیز میں اکثریت حاصل کرے گی، سٹی کونسل میں اس کے میئر اور ڈپٹی میئر منتخب ہوں گے۔

بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی، پاک سرزمین پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن)، تحریک لبیک پاکستان، مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور آزاد امیدوار شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق کراچی سے کُل 9153 امیدوار انتخابی میدان میں اترے ہیں۔

ملک کی سب سے زیادہ آبادی کے حامل شہر کراچی پر حکمرانی کے لیے بلدیاتی انتخابات کا معرکہ بپا ہونے کو ہے تاہم انتخابات سے محض 5 روز قبل، 2015ء کے لوکل باڈیز الیکشن کی فاتح جماعت ایم کیو ایم کی جانب سے انتخابات میں التوا کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

ایم کیو ایم کو سندھ حکومت کی جانب سے شہری علاقوں کی نئی حلقہ بندیوں پر شدید اعتراض ہے۔ قبل ازیں جماعت اسلامی نے بھی سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کا تنازعہ حل ہونے تک انتخابات ملتوی کے جائیں۔ ان سطور کی اشاعت تک ممکن ہے الیکشن کمیشن کا اعلان سامنے آجائے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خود صوبے کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی بھی دوسرے مرحلے کے انتخابات میں التوا چاہتی دکھائی دیتی ہے۔

کراچی کے باسیوں کے لیے یہ صورتحال ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ کراچی کو پاکستان کا معاشی دارالخلافہ اور تجارتی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے اور یہاں سے وفاق کو 60 فیصد جبکہ صوبہ سندھ کو 90 فیصد ٹیکس ریونیو حاصل ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود اس شہر کے باشندے آخر کیوں صفائی ستھرائی کی لازمی سہولت سے محروم ہوں، پانی بجلی کو ترسیں، ترقیاتی منصوبہ بندی تو دُور کی بات پکی گلیوں اور پختہ سڑکوں کی حسرت لیے زندگی بسر کریں اور مہینوں بارش کے پانی میں ڈوبے رہیں۔ شہر کا یہ منظرنامہ اس وقت مزید تکلیف کا باعث بن جاتا ہے جب ہم اس کے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں۔


'کراچی' جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب


ماضی کے 'مائی کلاچی‘ نے کراچی بنتے ہوئے ترقی کی وہ منزلیں طے کی تھیں کہ اسے شہروں کی دلہن (عروس البلاد) قرار دیا گیا۔ اسے ’ملکہ مشرق‘ بھی کہا گیا۔ (محمودہ رضویہ کی اردو میں کراچی کی پہلی کتاب کا نام)

احمد حسین صدیقی نے اسے ’گوہر بحیرہ عرب‘ قرار دیا۔ کراچی کو تعمیر و ترقی کی معراج پر پہنچانے میں بنیادی کردار اس شہر کے بلدیاتی نظام اور میئرز نے ادا کیا۔

شہرِ قائد میں بلدیاتی حکومت کا آغاز 1933ء سے ہوا، اور جمشید نسروانجی کراچی کے پہلے میئر منتخب ہوئے جو آج بھی 'معمار کراچی' تسلیم کیے جاتے ہیں۔ کراچی کی تاریخ سے متعلق ہر کتاب میں نسروانجی کے کارنامے رقم ہیں۔ انہوں نے اپنی میئرشپ کے زمانے میں کراچی کی توسیع کے بہت سے منصوبے بنائے۔ کھلی سڑکیں، باغات اور کھیلوں کے میدان تعمیر کروائے۔

1919ء میں جب انفلوائنزا کی بیماری نے کراچی میں وبا کی شکل اختیار کی تو انہوں نے دن رات عوام کی خدمت کی۔ جمشید نسروانجی نے صحتِ عامہ خصوصاََ میٹرنٹی ہیلتھ کے حوالے سے ایک منصوبہ تیار کیا تھا کہ شہر کے تمام علاقوں میں زچّہ بچّہ کے مراکز قائم کیے جائیں۔ اس معاملے میں پہل انہوں نے خود کی اور اپنی والدہ گل بائی کے نام سے صدر میں جہانگیر پارک کے قریب ایک میٹرنٹی ہوم قائم کیا۔ اس کے علاوہ دیگر افراد سے چندہ لے کر بھی میٹرنٹی ہوم بنوائے۔

تاریخ کے مطابق جمشید نسروانجی نے جب کراچی میونسپلٹی کی صدارت سنبھالی تو اس وقت کراچی کی سڑکیں پکی نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے دور میں ان سڑکوں کی لمبائی 14 میل تھی لیکن جب انہوں نے اپنا عہدہ چھوڑا تو اس وقت کراچی میں 76 میل لمبی پکی سڑکیں موجود تھیں۔

1933ء سے 1962ء تک کراچی کے 22 میئر منتخب ہوئے۔ ان میں کراچی کے سب سے کم عمر میئر یوسف ہارون، محمد ہاشم گزدر، سردار خان، بہادر اللہ، بخش گبول، محمود ہارون، جنہوں نے شہر کے پسماندہ علاقے لیاری پر خصوصی توجہ دی اور میونسپلٹی کا نصف بجٹ اس کے لیے مختص کردیا تھا، نمایاں ہیں۔

1962ء کے بعد کراچی میں میونسپلٹی نظام تبدیلیوں کا شکار ہوکر معطل ہوا اور انتخابات کا یہ سلسلہ رک گیا، تاہم اس عرصے میں کراچی ترقی کی معراج کو پہنچ چکا تھا۔

50 اور 60 کی دہائی میں کراچی کے باسی آج بھی شہر کے اس دور کو یاد کرتے ہوئے آہیں بھرتے ہیں جبکہ نوجوان نسل حیرت سے آنکھیں پھاڑے انہیں تکتی ہے جب وہ یہ بتاتے ہیں کہ کراچی میں کبھی ٹرام بھی چلا کرتی تھی اور سڑکیں رات کو روزانہ دُھلا کرتی تھیں۔

کراچی کے سینئر صحافی شہزاد چغتائی 40 سال سے زائد عرصے تک بلدیاتی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں اور صحافتی حلقوں میں انہیں کراچی کا 'انسائیکلوپیڈیا' کہا جاتا ہے۔ شہزاد صاحب ہمیں بتاتے ہیں ’50 کی دہائی میں کراچی کے ساحلوں پر مقامی لوگوں سے زیادہ انگریز نظر آتے تھے۔ لائٹ ہاؤس شہر کا پوش علاقہ تھا، جو بلاشبہ اس وقت کا پیرس کہا جاسکتا تھا۔ میں نے خود ہر اتوار کے ایم سی بلڈنگ کو دُھلتے دیکھا ہے۔ فائربریگیڈ کی گاڑیاں آتیں اور پوری عمارت کو دھو کر چمکا دیتیں۔ کراچی ایشیا کا صاف ترین شہر تھا۔ ترقی کی معراج دیکھیے کہ 1963ء میں 22 منزلہ حبیب بینک پلازہ بنایا گیا۔ یہ اپنی تعمیر کے وقت ایشیا کی بلند ترین عمارت تھی جبکہ ملائیشیا میں تب کوئی عمارت 4 منزل سے زائد نہیں تھی۔ کراچی میں رمپا پلازہ، لکشمی بلڈنگ سمیت ایک سے بڑھ کر ایک عمارتیں تعمیر ہورہی تھیں جنہیں دبئی کے شیخ آکر حیرت سے دیکھتے تھے۔ 70 کی دہائی تک استنبول اور کراچی تقریباً یکساں انداز کے تھے‘۔

کراچی میں بلدیاتی نظام کے احیا کو شہزاد چغتائی نے نہایت قریب سے دیکھا ہے۔ آپ نے 1979ء میں پہلی بار منعقد بلدیاتی انتخابات کی کوریج کی، جس میں جماعت اسلامی پاکستان کے عبدالستار افغانی میئر منتخب ہوئے تھے۔


عبدالستار افغانی


بلدیہ عظمیٰ کا احیا ضیاالحق کے دور میں ہوا۔ شہزاد صاحب بتاتے ہیں کہ ’اس دور میں کراچی کو بہت ترقیاتی فنڈز دیے گئے جس کی وجہ ظاہر ہے یہ رہی کہ آمروں کو بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے ہی عوام تک رسائی حاصل ہوتی ہے‘۔ شہزاد چغتائی بتاتے ہیں کہ کراچی کے پہلے میئر فقیر منش تھے، وہ لیاری میں رہتے تھے، وہیں پیدا ہوئے اور وہیں وفات پائی۔ ان کی فیملی اب بھی وہیں رہتی ہے۔ میئر بننے کے بعد عبدالستار افغانی نے لیاری جنرل اسپتال بنوایا۔

شہزاد چغتائی نے بتایا کہ ’عبدالستار افغانی کے ڈی اے گورننگ باڈی کے رکن بھی تھے جو اپنے ممبرز کو 600 گز کا پلاٹ دیتی تھی، مگر افغانی نے یہ نہیں لیا تھا۔ میئر افغانی کے دور سے کراچی میں فلائی اوور بننے کا آغاز ہوا۔ ان کا ایک نمایاں کام یہ تھا کہ سفاری پارک کی 400 ایکڑ زمین افسران اور دیگر کی ملی بھگت سے ہڑپ کی جارہی تھی، جسے پارک کے لیے مختص کروایا گیا۔ انہوں نے کراچی کے تمام امیونٹی پلاٹس کا سروے کرایا اور ان کی چاردیواری تعمیر کروا دی۔ اس طرح پارکوں اور کھیل کے میدانوں کو قبضہ مافیا سے بچانے میں افغانی نے اہم کردار ادا کیا۔ عبدالستار افغانی 2 مرتبہ میئر اور قومی اسمبلی کے رکن رہے مگر وہ ہمیشہ لٹھے کے شلوار قمیض میں ملبوس ہوائی چپل پہنے دکھائی دیے۔


فاروق ستار


متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار 1988ء میں کراچی کے میئر منتخب ہوئے، اس وقت ان کی عمر 28 سال تھی۔ شہزاد چغتائی کی یادداشتوں کے مطابق ’فاروق ستار نے شہر کی صفائی ستھرائی سے کام کا آغاز کیا، خاص بات یہ تھی کہ اس وقت ایم کیو ایم کے صف اوّل کے رہنما اور کارکن خود ہاتھوں میں جھاڑو لے کر صفائی کرتے اور درخت لگاتے تھے۔ فاروق ستار کے دور میں کچی آبادیوں کی لیز کا سلسلہ شروع ہوا اور 100 سے زائد لیز کی گئیں۔ واٹر بورڈ میئر کے پاس تھا، K2 پانی کی فراہمی کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ اس دوران فلائی اوورز بننے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اہم بات یہ تھی کہ برساتی نالوں کی صفائی وقت پر ہوتی تھی اور کچرا ڈمپنگ اسٹیشن تک پہنچایا جاتا تھا‘۔

شہزاد صاحب بتاتے ہیں کہ ’میئر فاروق ستار کو صوبائی حکومت کی جانب سے فنڈز کی فراہمی ضیا دور کی طرح بلاتعطل نہیں تھی تاہم اس دور کی مہاجر قومی موومنٹ جوش و جزبے سے سرشار نوجوانوں کی جماعت تھی، معاملات میں شفافیت تھی، لہٰذا کے ایم سی اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی‘۔


نعمت اللہ خان


2001ء میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے پہلے ناظم جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان منتخب ہوئے۔ یہ مشرف کا دور تھا اور کراچی کے لیے دل کھول کر فنڈز دیے گئے۔ نعمت اللہ خان نے شہر کے لیے 29 ارب روپے کا تعمیر کراچی پروگرام منظورکرایا۔ اس دور میں بے شمار ترقیاتی و تعمیراتی کام ہوئے۔ کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کا قیام عمل میں آیا۔ کے ایم ڈی سی فیز 2 تکمیل کوپہنچا، ایف ٹی سی فلائی اوور مکمل ہوچکا تھا۔

اس کے علاوہ شاہراہِ قائدین اور شاہراہِ فیصل فلائی اوور کا افتتاح ہوا، لیاری ایکسپریس وے اور ناردن بائی پاس جیسے میگا پراجیکٹس پر کام شروع ہوا۔ سہراب گوٹھ فلائی اوور، قائدآباد فلائی اوور اور کورنگی تک شاہ فیصل-ملیر ریور برج پر تعمیر کراچی پروگرام کے تحت کام کا آغاز ہوا۔ اسی طرح حسن اسکوائر فلائی اوور، کارساز فلائی اوور اور غریب آباد انڈر پاس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ کلفٹن انڈر پاس پر کام کا آغاز ہوا اور اسی عرصے میں کراچی کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ K3 شروع ہوا جس کی وجہ سے شہریوں کو کروڑوں گیلن پانی میسر آیا۔

راشد منہاس روڈ، جہانگیر روڈ، ماڑی پور، ڈالمیا روڈ، مہران ہائی وے، ابن سینا روڈ، بائے کلاچی روڈ اور شاہراہِ اورنگی تک بڑی سڑکوں کی تعمیر کی گئی۔ ڈرگ کالونی فلائی اوور مکمل ہوا اور ہمیں حیران کن بات یہ معلوم ہوئی کہ ٹھیکیدار اتنا ایماندار نکلا کہ اس نے بچے ہوئے 12 کروڑ روپے واپس بھی کیے۔


مصطفیٰ کمال


2005ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے سید مصطفیٰ کمال کراچی کے ناظم منتخب ہوئے۔ مصطفیٰ کمال کے دور میں بھی شہر کے لیے فنڈز کی کمی نہیں تھی۔ انہوں نے جاری پراجیکٹس کی تیزی سے تکمیل کروائی۔ مصطفیٰ کمال نے انڈر پاسز بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس زمانے میں لگتا تھا کہ سارا شہر کھود کر ڈال دیا گیا تاہم مصطفیٰ کمال خود نہایت متحرک رہے اور تیزی سے کام مکمل کروائے۔ انہیں عوام نے ’مصطفیٰ کدال‘ کا نام دے دیا تھا۔ مصطفیٰ کمال نے پریڈی اسٹریٹ سے کارساز اور ایئرپورٹ سے سائٹ تک سگنل فری کوریڈور بنوائے۔


وسیم اختر


2015ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے وسیم اختر میئر بن گئے، جو اگست 2020 تک عہدے پر رہے۔ وسیم اختر کراچی کے ایسے ناظم تھے جو اپنی نظامت کا پورا عرصہ اختیارات نہ ہونے کی شکایت کرتے رہے۔

2011ء میں سندھ حکومت نے شہری حکومت سے انتظام لے کر صوبائی حکومت کے اختیار میں دے دیا۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، سالڈ ویسٹ منیجمنٹ، نالوں کی صفائی کا نظام اور کراچی ماسٹر پلان سمیت کئی اداروں کا انتظام میئر سے لے لیا گیا۔ شہری حکومت کے نمائندے یہ شکوہ کرتے پائے گئے کہ میئر کے پاس صرف جھاڑو لگانے کا کام رہ گیا ہے۔

شہزاد چغتائی کراچی کے منتظمین کے حوالے سے فہیم الزماں صدیقی کا بھی ذکر کرتے ہیں، جن کے دور میں کراچی میں صفائی ستھرائی کا بہتر انتظام ہوا۔ انہوں نے شہر میں ’لانگ لائف روڈز‘ کی تعمیر کا تصور رائج کیا۔ اپریل 1994ء سے اپریل 1996ء تک ایڈمنسٹریٹر رہنے والے فہیم الزمان خان کی تعیناتی سابق وزیرِاعظم پاکستان بے نظیر بھٹو نےکی تھی

سینئر تجزیہ کار شہر کے ناقص انتظام کا ذٓمہ دار صرف میئرز کے اختیارات کو محدود کردینا ہی نہیں سمجھتے، ان کے خیال میں بلدیاتی اداروں میں سیاسی بھرتیاں، ٹھیکیداری نظام میں انتہا درجے کی کرپشن بھی شہری انتظام کو لے ڈوبی ہے۔

کراچی کو ترقی معکوس کے سفر سے واپس کھینچ کر بہتر مستقبل کی پٹری پر لانا ہے تو دنیا کے بڑے شہروں کے کامیاب نظام کی طرف دیکھنا ہوگا۔ برطانیہ اور امریکا میں میئرز کے اختیارات پر غور کریں اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر شہر / صوبے کے اجتماعی مستقبل کو مدَنظر رکھیں جس سے ملک و قوم کا مستقبل جڑا ہے نیز کراچی کے سنہری ماضی پر بھی گاہے بگاہے نظر ڈالتے رہیں تو اچھا ہوگا۔


غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

غزالہ فصیح

غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔