سارہ انعام قتل: مقتولہ کے اہل خانہ کا مقدمے کے اختتام تک اسلام آباد میں رہنے کا فیصلہ
گزشتہ ماہ اپنے شوہر کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہونے والی کینیڈین شہری سارہ انعام کے خاندان نے مبینہ قاتل کے خلاف عدالتی ٹرائل مکمل ہونے تک دارالحکومت میں ہی رہنے کا فیصلہ کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات اور فیصلے کی تصدیق مقتولہ سارہ کے والد انعام الرحمٰن نے گزشتہ روز کی۔
سارہ انعام کے والد اور دو بھائیوں نے قریبی رشتہ داروں کے ہمراہ بدھ کے روز اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کی، اس پریس میں ان کے ساتھ امریکا میں رجسٹرڈ این جی او ہیلپنگ ہارٹ کیئرنگ سول کے بانی بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سارہ قتل کیس: مرکزی ملزم شاہنواز کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 3 روز کی توسیع
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انعام الرحمٰن نے کہا کہ سارہ کا شوہر ایک شکاری اور بھتہ خور ہے جس نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے میری بیٹی کو پھنسایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ معروف صحافی ایاز امیر کے صاحبزادے شاہنواز امیر نے سارہ انعام کو شادی کے لیے راضی کیا اور بعد میں اس سے پیسے بٹورنے لگا۔
ان کا کہنا تھا کہ شاہنواز امیر اس سے رقم کا مطالبہ کرتا رہا، اسے ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد میں اسے بے دردی کے ساتھ وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ سارہ انعام کینیڈا میں کام کرتی تھی اور یو ایس ایڈ سے بھی منسلک تھی۔
مزید پڑھیں: سارہ قتل کیس: مرکزی ملزم شاہنواز امیر کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 4 دن کی توسیع
انعام الرحمٰن نے بتایا کہ وہ ابوظبی کی وزارت خزانہ میں بطور کنسلٹنٹ کام کر رہی تھی، تقریباً 8 سے 10 ہفتے قبل سارہ نے انہیں بتایا کہ وہ کسی کے ساتھ رابطے میں ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتی ہے، انہوں نے بتایا کہ جولائی کے آخری ہفتے میں اس کی شادی کی خبر سن کر اہل خانہ دنگ رہ گئے۔
والد نے بتایا کہ جب اہل خانہ کو پتا چلا کہ سارہ جس شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے وہ ایاز امیر کا بیٹا ہے تو اس بات پر اہل خانہ نے اطمینان محسوس کیا جب کہ بعد میں شاہنواز امیر کی والدہ نے فیملی سے فون پر بات بھی کی اور سارہ انعام کی تعریف کی۔
انہوں نے بتایا کہ سارہ انعام ابوظبی میں قیام پذیر تھی اور شاہنواز امیر پاکستان میں رہتا تھا، انہوں نے شاہنواز امیر سے کئی مرتبہ فون پر بات چیت کی تو اس دوران وہ کافی اچھا شخص محسوس ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: سارہ انعام قتل کیس: ایاز امیر کو بری کردیا گیا
مقتولہ کے والد نے کہا کہ بعد ازاں شاہنواز امیر نے سارہ سے رقم کا مطالبہ کرنا شروع کیا اور ہمارا خاندان بتدریج اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ ایک بھتہ خور ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ملزم نے سارہ سے کتنی رقم بٹوری کیونکہ سارہ کے اکاؤنٹس ابوظبی میں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سارہ ایک یا 2 مرتبہ پاکستان آئی لیکن اہل خانہ کو اس کا علم نہیں تھا، شاہنواز امیر نے اسے پھنسایا اور بعد میں اسے قتل کر دیا اور یہ سب منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ انعام الرحمٰن نے مزید کہا کہ فارم ہاؤس میں صرف 3 لوگ تھے اور آئندہ روز اس کی لاش وہاں سے ملی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں سینئر صحافی ایاز امیر کی بہو قتل
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی عدالتی نظام سے انصاف چاہتے ہیں، ہمارے وکیل کا خیال ہے کہ شاہنواز امیر کے خلاف کیس مضبوط ہے کیونکہ ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
انعام الرحمٰن نے مزید کہا کہ ہم اسلام آباد پولیس اور کیس کی تحقیقات سے مطمئن ہیں۔
ایاز امیر سے متعلق انعام الرحمٰن نے کہا کہ وہ قتل کے وقت گھر میں موجود نہیں تھے، ہم کسی بے گناہ کو کیس میں ملوث نہیں کرنا چاہتے لیکن جو بھی قصوروار ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔
پریس کانفرنس کے دوران سارہ انعام کے بھائی، چچا، چچی اور کزن نے بھی گفتگو کی، مقتول کے چچا اکرام الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اگر نور مقدم کے قاتل کو پھانسی دی جاتی تو سارہ کے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔