نقطہ نظر

روگ بھوگ!

مگر وہ جن کے سفر کا آغاز کل کی بات ہو، گود کی گرمی ابھی کم نہ ہوئی ہو، زندگی کے میلے میں کچھ نہ دیکھا ہو ان جنمے ہوؤں کی تکلیف؟

امّی بہت کمزور ہوگئی ہیں، کچھ کھا نہیں سکتیں، چلنے پھرنے میں بہت تکلیف ہے۔ ابّا کا بلڈ پریشر بھی ہائی رہتا ہے، شوگر قابو سے باہر ہے، جسم کے جوڑ سوج جاتے ہیں جبکہ کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ کینسر آخری اسٹیج پر ہے اور رات کو نیند نہیں آتی۔

ماں باپ وہ نہیں رہتے جو ہوتے ہیں، وقت گزر جاتا ہے، شکل کا آئینہ آب وتاب کھو کر دھندلا جاتا ہے، ہر چیز بوسیدہ، ہر منظر مٹیالا، زندگی ویسی نہیں رہتی جیسی شروع ہوتی ہے، کیا کریں؟ کس کو کہیں؟ کس سے شکایت کریں؟ ایسا ہونا ہوتا ہے، جلد یا بدیر! لکھا جاچکا ہے لوح تقدیر پر، بچ نہیں سکتے اس سے۔ پاتال میں بھی ڈھونڈ لے گا وہ جس نے زندگی کو کوئی اور رنگ دکھانا ہے۔

عمر کی سیڑھیاں چڑھتے ماں باپ کی بڑھاپے اور بیماریوں کے ساتھ نبرد آزمائی سب کا امتحان لیتی ہے، ان کا دکھ بھوگنا ہی پڑتا ہے، جلد یا بدیر۔ لیکن بے بسی کے ساتھ اطمینان بھی کہ زندگی کی بازی اچھی طرح کھیل چکے۔

مگر وہ جن کے سفر کا آغاز کل کی بات ہو، گود کی گرمی ابھی کم نہ ہوئی ہو، زندگی کے میلے میں کچھ نہ دیکھا ہو ان جنمے ہوؤں کی تکلیف؟ کیسے دیکھیں، کیونکر برداشت کریں؟ یہ امتحان تو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ کچھ ہی ہوتے ہیں وہ لوگ جن کا دل ایک ایسی چھلنی بن جائے کہ خون رستا رہے اور زخم بھرنے کا کوئی طریقہ ہی نہ ہو۔

مزید پڑھیے: افسانہ: لمحوں میں اترا بڑھاپا

ہماری امّاں کی پہلوٹھی کی بیٹی جب چل بسی تو امّاں اس کرب میں برسوں روتی رہیں۔ کیسے صبر کرتیں 10 برس کی کھلائی پلائی چپکے سے قبر میں اتر گئی۔ نانی ساتھ ساتھ روتیں، گلے سے لگاتیں لیکن کبھی کبھی صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہہ دیتیں، کیا روگ لگ گیا تمہیں اس عمر میں؟

مل کر روتے رلاتے ایک دوسرے کو سنبھالتے ماں بیٹی کے 15 برس گزر گئے اور پھر نانی کی باری آگئی۔ نانی کی منجھلی بیٹی 5 چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر دنیا کو خدا حافظ کہہ گئی۔ بیٹی کے مرنے کے بعد نانی بین کرتے ہوئے ہماری مّاں کو گلے لگا کر کہتیں، میری بیٹی اب جانا میں نے کہ تیرا غم کیا تھا؟ تو درد کے کس سمندر میں اتری تھی؟ جب تیری کوکھ جلی تو اس کی تپش مجھ تک نہیں پہنچی، میں تو تجھے دیکھ دیکھ کر روتی تھی۔ اب وہ آگ مجھے لگی ہے تو جانا کہ کوکھ کا روگ کیا ہے؟ ہماری ماں اور نانی کا غم اس دن ایک ہوا۔

جب ہم نے ہوش سنبھالا تو ہماری امّاں کے آنسو تھم چکے تھے۔ ہمیں ہمیشہ ایسا ہی لگا، کبھی کوئی ذکر نہیں، کوئی یاد نہیں، کوئی آہ نہیں۔ ہم کیسے جانتے کہ امّاں اپنا غم، درد اور اضطراب اپنے اندر چھپا کے جیتی ہیں؟ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے دل میں بنے مدفن کی کسی کو خبر ہو۔ ان کے اندر بنی ڈونگی سمادھی، دنیا سے اوجھل، جس پر ایک دیا برسوں سے جل رہا تھا، ماں کے آنسو تیل بن کر اس دیے کی لو روشن رکھتے تھے۔

ہماری بیٹی ایک دن یونہی باتوں باتوں میں کہنے لگی، آپ کو پتہ ہے میں نے آپ کی بڑی بہن کی قبر دیکھی ہے اپنے بچپن میں۔ ہائیں، وہ کیسے؟ نانی مجھے ساتھ لے کر جاتی تھیں، قبر کے سرہانے بیٹھ کر چپ چاپ تکتی تھیں۔ اپنے ہاتھوں سے قبر کو صاف کرتیں اور گورکن کو تاکید کرتی تھیں کہ بارشوں میں خیال رکھنا، مٹی اگر بہہ جائے تو اور ڈال دینا۔ پھر مجھے بتاتیں، یہاں تمہاری ماں کی ہم نام سو رہی ہے۔

نانی نواسی میں بے انتہا محبت تھی۔ شاید اسی لیے انہوں نے اپنا درد نواسی سے بانٹنا پسند کیا۔ نواسی بھی ایسی کہ کچھ بھی بھلانے پر تیار ہی نہیں۔ نانی گزر گئیں، لیکن لگتا ہے کہ یہیں کہیں ہیں، عینک تو پڑی نظر آرہی ہے سامنے سائیڈ ٹیبل پر۔ لگتا ہے ابھی آجائیں گی عینک ڈھونڈنے اور جو کبھی ٹھنڈی ہوا چکے تو کھٹ سے چادر نکل آتی ہے۔ نانی کی ہے، وہ پیار سے چادر سہلاتے ہوئے کہتی ہے۔ سردی لگے نہ لگے لیکن ٹوپی تو نکل ہی آئے گی الماری سے، بہانہ ہی تو چاہیے نانی کی اونی ٹوپی کے اندر لگے بال دیکھنے کے لیے۔ اب طلسم ہوشربا کہاں سے لائیں جب کسی گمشدہ کا بال جلا کر اس کا کھوج لگایا جاتا تھا۔ وہ تو وہاں گئیں جہاں سے کوئی آ ہی نہیں سکتا۔ ان کی کوکھ جنی بھی تو گئی تھی انہیں اسی طرح ملول چھوڑ کر، انہوں نے بھی یہی کیا۔ مڑ کے دیکھا ہی نہیں۔

اپنے حصے کے دکھ بھوگ کر نانی چپکے سے چلی گئیں لیکن وہ کیا کرے جب درد کی شدت اسے بے حال کردیتی ہے تب ایک خواہش آنکھ کھول لیتی ہے کہ کاش نانی پاس ہوتیں، سر سہلاتیں، پریشان ہوکر اِدھر اُدھر ٹہلتیں، بار بار کچھ کھانے پر اصرار کرتیں، تسبیح پڑھ کر پھونک مارتیں، صدقہ دیتیں، مرچیں وار کر کوئلوں پر جلاتیں، گلے سے لگا کر روتے ہوئے کہتیں، کیسا درد ہے یہ کاش مجھے لگ جائے۔ آہ، کیسا اچھا لگتا ہے یہ سوچنا بھی!

نانی کی چہیتی نواسی جب 24 برس کی عمر میں ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوئی تو نانی وقت کے بہاؤ میں اپنی پہچان گم کرچکی تھیں۔ سو ہم کس کے سامنے جی ہلکا کرتے؟ چپ چاپ یہ زہر اپنے آپ سے کہتے سنتے اپنے اندر اتار لیا کہ یہ کیا؟ ابھی سے؟ اس عمر میں ہائی بلڈ پریشر؟ ماں بھلی چنگی اور بیٹی کو دوائیوں کی ضرورت … کیا زمانہ آ گیا بھئی۔

مزید پڑھیے: افسانہ: طوفان کی دستک

کوکھ میں ایک چنگاری نے اپنا گھر بنا لیا جو ہولے ہولے دہکتی رہتی۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ وقت کے ترکش میں مزید تیر باقی تھے جن کے وار سے ہم نہ بچ سکے۔

’ماما، امییولوجسٹ نے بہت سی اپوائنٹمنٹس ترتیب دی ہیں، پلومونولوجسٹ، کارڈیالوجسٹ، نیورولوجسٹ، گیسٹروانٹرولوجسٹ، یورولوجسٹ، کیا کوئی جسٹ رہ گیا ہے آپ کی ڈاکٹری میں؟‘

ماں کو چھیڑتے ہوئے نم آنکھوں کے ساتھ ایسے کہو کہ لگے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہونا بھی ہوتا تو کیا ہوتا؟ کچھ بھی نہیں۔ ماں چپ چاپ دیکھتی رہتی ہے، کہنے کو کچھ ہے ہی نہیں۔ ماں کی خاموشی اور دل پر گرتے آنسو، اداکاری میں وہ بھی کم نہیں!

آہ کیا کہیں تمہیں، کیسے کہیں کہ یہی تو ہے آٹو امیون بیماری کہ اپنا جسم ہی دشمن بن جائے۔ کس سے گلہ کریں؟ جب اپنے جسم کے اپنے خلیے ہی بگڑ کر، خفا ہوکر اسے تباہ کرنے پر تل جائیں،کبھی ایک نظام، کبھی دوسرا۔ وجہ نامعلوم ہے، سمجھ چھوٹی پڑگئی ہے۔ امییونولوجسٹ اینی مینی مینا مو کہتے ہوئے لیب ٹیسٹ اور دوائیوں کا ڈھیر لگاتا رہتا ہے۔

یہ لے لو، ری ایکشن ہوگیا، اوہ دوسری شروع کر لیتے ہیں۔ یہ بھی موافق نہیں، چلو تیسری ہے نا… ابھی کیا پھر ری ایکشن ہوگیا؟ چلو کچھ اور ٹیسٹ کرتے ہیں۔ اور جب کچھ بھی کام نہ کرے تو … کیا کیا جائے؟ کیا ہوسکتا ہے؟ کچھ اور ہے کیا؟

اینی مینی مینا مو

اکڑ بکڑ بمبے بو

اسی نوے پورے سو

مزید پڑھیے: منشی پریم چند کی بدھیا اور اکیسویں صدی کی عورت!

پوری کوشش ہے ڈاکٹر بے چارے کی کہ روٹھے ہوئے خلیوں کی ناراضی شاید دُور ہوجائے، غصہ ٹھنڈا ہو اور وہ وہ نہ کریں جو کسی کی جان لے رہا ہے۔ کاش وہ نادان جان جائیں کہ وہ کس متاع بے بہا کو نگل رہے ہیں۔

ہدایات کا بھی پلندہ ہے۔ باہر نہ جاؤ، کسی سے نہ ملو، سفر نہ کرو، منہ پر ہر وقت ماسک پہنے رکھو۔ تم کیسے رسک لے سکتی ہو جب چاروں طرف وائرس ہو اور وہ جن کے لیے وائرس اہم نہیں رہا، وہ ایک پل بھی نہ سوچیں کہ ان کے آس پاس شاید کوئی ایسا ہو جس کے لیے وائرس بھری ایک سانس، چھینک یا کھانسی موت کا ہرکارہ بن سکتی ہے۔

کوکھ کی چنگاری جب شعلہ بنتی ہے تو تپش بڑھ کر روح کو جھلسا دیتی ہے۔ کوکھ کا روگ ایک ایسا زہر ہے جو پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔ نہ جینے دیتا ہے نہ مرنے، نہ رونے دیتا ہے نہ ہنسنے۔

ماں باپ کے قطرہ قطرہ پگھلنے پر تو قرار آ ہی جاتا ہے کہ بڑھتی عمر، بیماریوں اور وقت کا کچھ کر نہیں سکتے۔ لیکن عزیز از جان اولاد کے بے بس آنسوؤں کا کیا کریں؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔