انقلابی مزاحمت کی علامت معراج محمد خان سے چند ملاقاتوں کا احوال
آج سیاست اور شرافت کے بڑے آدمی معراج محمد خان کی رحلت کا دن ہے۔ آپ کو دنیا سے رخصت ہوئے 6 برس بیت گئے ہیں۔ برِصغیر کی خاندانی شرافت کے اجلے کپڑے میں لپٹے مخلص، ایماندار اور حرص و حسد اور غرور سے پاک معراج محمد خان سیاست میں شرافت کا روشن مینار تھے۔ آپ کا شمار ان معدودے چند ہستیوں میں ہوتا ہے کہ جو وطنِ عزیز کی سیاسی تاریخ میں بڑے اور اجلے کردار کے تھے۔ آپ نے پوری زندگی عزت و احترام کمایا اور کھرے اور اصولی سیاستدان کے طور پر اپنی شناخت کروائی۔ شاعر نے آپ کے لیے ہی کہا تھا کہ
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
میری ان سے کئی ملاقاتیں رہیں اور کئی کئی گھنٹے گفتگو رہی لیکن جب بھی ملا انہوں نے بہت اپنائیت کا مظاہرہ کیا۔ جب بھی ان کے گھر گیا تو خود دروازے تک آتے، گلے سے لگاکر انتہائی عاجزی، انکساری اور ملنساری کے جذبے اور محبت کے ساتھ خیریت دریافت کرتے اور بیٹھنے کا کہتے چائے، پانی یا مشروب کا پوچھتے تھے۔
معراج محمد خٰان ہمیشہ پاکستان کے حالات پر دکھ اور رنج کا اظہار کرتے تھے لیکن مایوس نہیں تھے اور پاکستان کے مستقبل کے لیے پُرامید تھے۔ میں نے آخری ملاقات میں گھر کی دیواروں پر سلیقے سے لگی تصاویر کو دیکھا جس میں معراج محمد خان ڈاکٹر نجیب اللہ، ذوالفقار علی بھٹو، اے کے گجرال، فیض احمد فیض اور دیگر اہم رہنماؤں کے ساتھ نظر آئے۔ ان تصاویر میں ایک تصویر وہ بھی تھی جس میں معراج محمد خان 21 فروری 1986ء میں قلعہ کہنہ قاسم ملتان میں قومی محاذ آزادی کے جلسے سے خطاب کررہے تھے اور اس پر لکھا تھا ’میں سوشلسٹ ہوں، میں علما کے قدموں کی خاک اپنے سر پر ڈالنے کے لیے تیار ہوں مگر علمائے سو کی نہیں‘۔
انہوں نے ساری زندگی اصولی سیاست کی، یہی وجہ تھی کہ وہ جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاالحق کے ادوار میں ملک کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ تشدد اور سختیوں کے باعث صحت برباد ہوتی گئی اور بینائی کی کمی اور پھر پھیپھڑوں کے سکڑنے کی بیماری میں مبتلا ہوگئے۔
معراج محمد خان ایک نظر میں
آپ نے پاکستان کی سیاست کے نشیب و فراز کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور آپ کی پوری زندگی عوامی حقوق اور استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد سے عبارت رہی۔ معراج محمد خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز طلبہ سیاست سے کیا اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) سے منسلک رہے۔ معراج محمد خان لگ بھگ 10 سال تک این ایس ایف کی قیادت میں شامل رہے اور اپنی طالب علمی اور سیاسی زندگی میں 13 سال جیلوں میں بند رہے۔ آپ جب جلسوں میں تقریر کے لیے جاتے تھے تو لگتا تھا پورا شہر ہی آمڈ آیا ہے۔ آپ ایک دبنگ سیاستدان تھے اور ولولہ انگیز خطاب کرتے تھے۔
1970ء کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن بنے اور دسمبر 1971ء میں وزیرِ محنت اور افرادی قوت مقرر ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی تشکیل اور اس کے منشور کی تدوین میں جن ترقی پسند رہنماؤں اور دانشوروں نے حصہ لیا ان میں معراج محمد خان بھی شامل تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی قریب تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انہی سے اردو میں ولولہ انگیز تقریر کا فن سیکھا۔ بھٹو صاحب نے ایک دفعہ انہیں اپنا جانشین بھی قرار دیا تھا۔ بعد میں بھٹو اور آپ کے درمیان سخت اختلافات کے باعث خلیج پیدا ہوئی اور پھر یہ بڑی دُوری میں تبدیل ہوگئی۔
1977ء میں آپ نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی اور بعد میں قومی محاذ آزادی بنائی پھر 1998ء میں انہوں نے اپنی پارٹی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں ضم کردیا۔ آپ تحریک انصاف کے ابتدائی دنوں میں سیکریٹری جنرل رہے لیکن بعد میں عمران خان سے اختلافات کے بعد اس پارٹی کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ آخری دنوں میں عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے تھے لیکن اپنے نظریے کے مطابق لوگوں کو جمع کرنے کی سعی اور کوشش کرتے رہے۔ آپ کے نظریات سے کسی کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ان کی نظریاتی دیانت پر کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا، یہی ان کی اصل خوبی ہے۔
معراج خان ایک بات متواتر کہتے تھے کہ ’ہم غریب ہوں یا امیر، خودداری کو ہمیں اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے‘۔ وہ کہتے تھے کہ ’آپ کی کوئی بھی فکر اور کوئی بھی نظریہ ہو اس کے ساتھ ایماندارانہ رویہ ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ دولت، سرمایہ، وزارت، ایم این اے، ایم پی اے کی بنا پر آپ ڈانوا ڈول ہوتے رہیں، کبھی اِدھر کبھی اُدھر‘۔
ابتدائی زندگی، خاندان، تعلیم
معراج محمد خان انڈیا کے ایک چھوٹے سے قصبے، پٹھانوں کی پرانی آبادی قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ اجداد فتوحات کے سلسلے میں نوابین کے دربار میں ملازمت یا سپہ گری کے شوق میں آئے تھے۔ وہاں زرخیز زمینیں تھیں، ان کو وہاں اچھی جگہیں مل گئیں اور وہ زمیندار بن گئے۔ بعد میں انگریزوں سے اختلاف اور لڑائی ہوئی تو انہوں نے زر، زمین سب کچھ چھین لیا۔
آپ نے بتایا تھا کہ والد نے حکیم اجمل خان کے طبیہ کالج سے طب کی سند حاصل کی تھی۔ وہ سیلف میڈ آدمی تھے پیشے کے طور پر طب سے ہی وابستہ رہے تھے کیونکہ زمینداری تو رہی نہیں تھی۔ ساری زندگی اپنے پیروں پر کھڑے رہے اور اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا۔ آپ بڑے فخر کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں کہتے تھے کہ ’اگر ہم کسی قابل ہیں تو اپنے ماں باپ کی ہدایت، محبت اور ان کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے ہیں، اور جو اصولی زندگی اختیار کی ہے وہ بھی اپنے والدین ہی سے سیکھی تھی‘۔
معراج محمد خان کے 4 بھائی اور 5 بہنیں تھیں۔ سب سے بڑے بھائی کا نام سراج محمد تھا، دوسرے بھائی کا نام تو وہاج محمد خان تھا لیکن دکھی پریم نگری کے نام سے وہ بہت مشہور تھے، وہ فلمی گیت لکھا کرتے تھے، تیسرے بھائی منہاج برنا صحافی تھے، وہ پی ایف یو جے اور ایپنک یونین کے صدر بھی رہے اور ان اداروں کو بنانے اور صحافت کی آزادی کے لیے انہوں نے کافی قربانیاں بھی دیں، جیلیں بھی کاٹیں اور جدوجہد بھی کی۔ سب سے بڑی بہن بمبئی سے ’تنویر‘ نام کا رسالہ نکالا کرتی تھیں، ان کا نام اصغری خان تھا لیکن سحر کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ سحر ان کا تخلص تھا۔ آپ بتاتے تھے کہ جب ہم چھوٹے تھے اور بمبئی جاتے تھے تو انہی کے ہاں ٹھہرتے تھے۔ اس زمانے کے جتنے بڑے ادیب اور شاعر تھے مثلاً مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی وغیرہ ان سے وہاں ملاقات ہوا کرتی تھی۔ باقی جو بہنیں تھیں ان کی زندگی گھریلو تھی۔
معراج محمد خان کی ابتدائی تعلیم جامعہ ملیہ دہلی میں ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے بتایا تھا کہ ’ڈاکٹر ذاکر حسین جو ہندوستان کے صدر ہوتے تھے انہوں نے اس ادارے کو بنایا جو جامعہ ملیہ دہلی کے نام سے مشہور تھا۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ ہمارے ہم وطن یعنی قائم گنج کے تھے، لہٰذا انہیں یہ فکر رہتی تھی کہ قائم گنج کے بچے محض زمیندارانہ کلاس کے بچے نہ بن جائیں بلکہ وہ پڑھیں، لکھیں، تعلیم و تربیت حاصل کرکے زندگی میں آگے جائیں۔ بڑے بھائی منہاج برنا کی تعلیم بھی جامعہ ملیہ میں ہوئی۔ ایک بار بمبئی میں جہاں وہ ملازمت کرتے تھے ڈاکٹر ذاکر حسین سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ ذاکر صاحب نے پوچھا تھا کہ کیا کر رہے ہو منہاج تم۔ منہاج ان کا نام تھا، برنا سے مشہور ہوگئے تھے۔ بھائی نے بتایا کہ میں یہاں کسی مدرسے میں ملازمت کرتا ہوں۔ تو انہوں نے کہا کہ تم جاؤ جامعہ ملیہ وہاں داخلہ لو۔ بھائی نے کہا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں، تو انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں اگر پیسے نہیں ہیں تو وہ میں دیکھ لوں گا، لیکن تم دلی جاؤ، جامعہ ملیہ میں داخلہ لو اور اپنی تعلیم مکمل کرو‘۔
تقسیم ہند، ہجرت اور پنڈت جواہر لال نہرو سے ملاقات
تقسیمِ ہند کے ذکر پر معراج محمد خان کہتے تھے کہ ’1949ء میں ہم پاکستان آئے تھے۔ ہمارے ذہن میں ہند کی تقسیم کا کوئی تصور نہیں تھا، یہ تو ہمیں پتا چل گیا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان اب 2 ملک بن گئے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں پتا تھا کہ اس کی وجہ سے لوگ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جائیں گے۔ ہندو، سکھ وہاں سے آئیں گے اور مسلمان یہاں سے ہجرت کریں گے۔ ایسا کوئی تصور نہیں تھا اور قائم گنج میں تو بالکل بھی نہیں تھا، کیونکہ مسلمان سماجی طور پر کافی مضبوط تھے۔ ہم نیشنلسٹ ہوگئے تھے، یعنی سامراجیت ختم ہونی چاہیے، ہندوستان آزاد ہونا چاہیے، ہند پر ہندوستان کے لوگوں کی حکومت ہونی چاہیے‘۔
ہندوستان میں فسادات کے زمانے میں معراج محمد خان کی پنڈت جواہر لال نہرو سے ملاقات بھی ہوئی۔ آپ اس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن حافظے میں یہ بات تھی اور آپ نے بتایا کہ ’ڈاکٹر ذاکر حسین نے جواہر لال نہرو کو فون کرکے کہا کہ گورکھا فوج ہماری رکھوالی ٹھیک طرح نہیں کررہی ہے، کوئی اور انتظام کرو تو وہ صبح سویرے پہنچ گئے تھے۔ وہ آکر گورکھا فوج پر بہت برہم ہوئے کیونکہ وہ سورہے تھے اور نہرو صاحب پہنچ گئے تھے اور انہوں نے فوجیوں کو گردن سے پکڑ کر بہت مارا۔ وہ لاتیں وغیرہ مار رہے تھے اور بہت غصے میں تھے۔ وہ انہیں کہہ رہے تھے کہ میں نے تمہیں بچوں کی حفاظت کے لیے بھیجا ہے لیکن تم خود سو رہے ہو، تم کیا حفاظت کرو گے! پھر مدراس رجمنٹ کو بلایا‘۔
مکان کی ہندوستان میں نامزدگی
معراج محمد خان کہتے تھے کہ تقسیمِ ہند جب ہوئی تھی تو قائم گنج کے لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان پر اس کے کیا اثرات پڑیں گے۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ’ایک دفعہ ایک کسٹوڈین نے ہمارے ہاں دستک دی۔ پہلے پردہ بہت ہوتا تھا۔ چونکہ ہماری والدہ گھر کے اندر پردے میں تھیں، تو اس نے کہا آپ سوچ سمجھ کر جواب دینا جو کچھ میں پوچھوں گا، یا پھر آپ کسی وکیل کو بلا لیں میں کل آجاؤں گا، جس پر والدہ نے کہا کہ آپ پوچھیں جو کچھ پوچھنا ہے مجھے کیا ضرورت ہے کسی وکیل کو بلانے کی۔ تو اس نے پوچھا کہ آپ کے شوہر کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس وقت میرے شوہر کوئٹہ میں ہیں۔ اس نے پوچھا کہ کب سے ہیں؟ والدہ نے کہا وہ تو 1943ء سے وہیں ہیں، حکمت کرتے ہیں اور کبھی سال میں یہاں آتے ہیں تو زمینداری کرتے ہیں، بچوں وغیرہ کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں زیادہ تر۔ مہینے 2 مہینے ٹھہرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں، میرے شوہر تو وہیں ہوتے ہیں۔ تو وہ کہنے لگا آپ پھر سوچ کر بتائیے۔ والدہ نے کہا یہی سچائی ہے۔ تو پھر وہ کہنے لگا بی بی میں مجبور ہوں، آپ کا یہ جو مکان ہے یہ ہندوستان میں نامزد کیا جاتا ہے کیونکہ یہ آپ کے شوہر کی ملکیت ہے اور آپ کچھ نہیں کہہ سکتیں کہ وہ کب آئیں گے کب نہیں آئیں گے، جب ہی میں نے کہا کہ آپ سوچ لیں، وکیل کرلیں، اب میں کیا لکھوں؟ اب یہ ضبط کیا جارہا ہے کیونکہ وہ تو وہاں ہیں اور اب وہ اس پراپرٹی کے مالک نہیں رہے۔
’ہماری والدہ جو ایک سادہ سی خاتون تھیں انہیں بڑا صدمہ ہوا کہ یہ کیا ہے؟ مکان ہمارا، زمینیں ہماری، کسان ہماری زمینیوں پر آباد ہیں، کپڑا بننے والے آباد ہیں، کوہلی آباد ہیں، بھیل آباد ہیں اور یہ سب چیزیں ہم سے لینے کے چکر میں ہیں، ہم نے کیا گناہ کردیا ہے ایسا؟ ان کی سمجھ میں نہیں آیا یہ سب کچھ کیونکہ وہ ایک سادہ سی خاتون تھیں اور جب حقیقت ان کے سامنے آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے اور انہوں نے اپنے سب بچوں کو جو بمبئی میں تھے، کانپور میں تھے یا دوسری جگہوں پر تھے، خط لکھے کہ بھئی ہمیں اب پاکستان جانا پڑے گا کیونکہ اب تو گھر تک ہمارا نہیں رہا اور اس نے بڑی محبت سے ہمیں کرایہ دار بنادیا ہے۔ کیونکہ اس نے کہا تھا کہ میں کرایہ دار بنا دیتا ہوں۔ میں تو خود پنجاب سے نکالا گیا ہوں مجھے معلوم ہے کہ کتنا دکھ ہوتا ہے اور میں اب آپ کو مالک سے کرایہ دار بنارہا ہوں، جب تک آپ کرایہ دیں گے آپ کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اور آپ اس مکان کا جو کرایہ دے سکیں وہی لکھ دیتا ہوں‘۔
مجھے یاد ہے معراج محمد خان نے بڑے دکھی انداز میں کہا تھا کہ ’اس کے اس عمل سے ہماری والدہ کا دل ٹوٹ سا گیا تھا۔ اس وقت ہم بہت چھوٹے تھے، لیکن تھوڑا بہت احساس ہمیں بھی ہوا جو ہمیں یاد ہے‘۔
ہجرت کے بعد کراچی آمد
اس واقعے کے بعد معراج محمد خان اور ان کا گھرانہ 1949ء میں دہلی چلے گئے لیکن خاندان کے کچھ لوگ وہاں نہیں رہنا چاہتے تھے جن برنا صاحب، ایک بہن اور والدہ شامل تھیں۔ یہ لوگ لاہور پہنچے اور لاہور میں کسی وائس چانسلر کے ہاں رات قیام کیا جس کے بعد کوئٹہ چلے گئے۔ پھر بقیہ تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی۔ جب میٹرک مکمل ہوگیا تو والد نے مزید تعلیم کے لیے کراچی بھیج دیا۔
کراچی کے بارے میں معراج محمد خان کہتے تھے کہ یہ تحریکوں کا شہر تھا۔ 1950ء اور 1960ء کے عشرے میں بڑی بڑی تحریکیں چلتی تھیں۔ ڈی ایس ایف کی تحریک میں اس کے صدر ڈاکٹر سرور ہوا کرتے تھے، طلبہ کے مسائل کے سلسلے میں انہوں نے 1954ء میں بڑی تحریک چلائی تھی، پھر ڈی ایس ایف پر حکومت نے پابندی لگادی تھی۔
اس کا پس منظر آپ بتاتے تھے کہ 1954ء میں ایک معاہدہ بغداد تھا، ہماری حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بجائے اس فوجی معاہدے میں شامل ہوں گے۔ ہماری امداد آنا شروع ہوگئی جس میں گندم بھی آئی۔ ہمارے ملک میں ایک مصنوعی قحط سالی پیدا کی گئی اور امریکی گندم میں گھن بھی آیا جس نے ہماری آزادی کی روح کو مسخ کر ڈالا۔ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دیا گیا اور کہا گیا کہ امداد میں آپ پیسہ اور گندم لے لیں۔ تو اس طرح ہم اپنے پیروں پر نہیں کھڑے ہوپائے اور اس زمانے سے اقتصادی طور پر اور محتاج ہوگئے پھر ہم فوجی معاہدوں میں چلے گئے۔ اس طرح یہاں کی ایک بہت بڑی تحریک تھی اس نے بغاوت کی اور بہت لڑے اپنے حقوق کے لیے بھی اور دیگر مسائل پر بھی۔ ڈاکٹر ادیب رضوی اس کی ایک مثال ہیں کیونکہ ڈاکٹر سرور تو انتقال کرگئے ہیں اور ڈاکٹر ادیب رضوی بھی گرفتار ہوئے تھے۔
انگریز فوجی سے اظہارِ نفرت
ایک واقعہ کا بیان پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ بچپن کی تربیت اور ماحول کے اثرات تو ہوتے ہیں، جب انگریز کے خلاف ہندوستان میں جدوجہد ہورہی تھی تو اس وقت معراج محمد خان بمبئی میں ہوتے تھے۔ آپ بتاتے تھے کہ ’انگریز کے خلاف ہمارے گھر میں ہر وقت باتیں ہوتی تھیں۔ آزادی کی باتیں ہوا کرتی تھیں تو ہم بھی ان سب چیزوں سے متاثر ہوگئے تھے۔ ایک دفعہ 1946ء میں ملاحوں کی انگریز سے بہت مشہور بغاوت ہوئی تھی، اس دوران انگریز فوجی شہر میں ہر جگہ آگئے تھے تو گھر کے نیچے انگریز فوجی کھڑا دیکھ کر ہم نے گملا پھینک دیا تھا، گوکہ ہم چھوٹے تھے لیکن انگریز کے خلاف ہم پر یہ اثر تھا کہ ہم نے اور ہماری بھانجی نے مل کر ایک گملا اوپر سے پھینک دیا تھا‘۔
میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا؟ آپ نے ہنستے ہوئے کہا ’اس کے بعد یہ ہوا کہ سب فوجی دندناتے ہوئے آگئے اور کہنے لگے کہ کس نے گملا پھینکا، باہر آؤ، تو ہماری بہن اور ہمارے بھائی سب کے سب باہر نکل آئے اور کہنے لگے کہ بچے ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر آپ غلام بنالیں تو ردِعمل تو ہوگا ہی۔ اگر جرمنی آپ پر قبضہ کرلے تو کیا آپ اپنے بچوں کو یہ نہیں کہیں گے کہ تمہیں آزاد ہونا ہے۔ ان میں ایک سمجھ دار کرنل یا میجر وغیرہ تھا، وہ کہنے لگا لیکن یہ جرم تو ہوا ناں کہ آپ ہم پر گملا پھینک رہے ہیں، اگر کسی کو لگ جاتا یا وہ مر جاتا تو آپ تو اور پھنس جاتے، آپ اپنے بچوں کو سمجھائیں اور ان کے سامنے ایسی باتیں نہ کیا کریں، آپس میں کیا کریں، لیکن اگر آپ بچوں کے سامنے ایسی باتیں کریں گے تو وہ روزانہ ہم پر گملا پھینک دیا کریں گے۔ لیکن پھر اس افسر نے چھوڑ دیا کیونکہ لوگ ان سے لڑنے کے لیے اور گرفتاری دینے کو تیار ہوگئے تھے‘۔
تقسیمِ ہند کا ذمہ دار کون؟
قیامِ پاکستان کے مطالبے کے پس منظر میں معراج محمد خان کہتے تھے کہ ’ہم جب پڑھتے تھے تو تقسیمِ ہند سے متعلق بتایا گیا کہ ہم مسلمانوں کو ان کے حقوق نہیں مل پارہے ہیں اسی لیے کانگریس اور مسلم لیگ میں اختلاف شدت اختیار کرگیا ہے اور کیبنٹ مشن میں پہلے اتفاق ہوگیا تھا لیکن اب اختلاف ہوگیا ہے۔ کیبنٹ مشن میں قائدِاعظم محمد علی جناح اور پنڈت جواہر لعل نہرو یعنی کانگریس اور مسلم لیگ میں ایک معاہدہ ہوا تھا کہ 4 سبجیکٹ مثلاً فارن افیئرز، ڈیفنس، کرنسی اور مواصلات اگر ہندوستان میں مرکز کو دے دیے جائیں اور باقی سارے صوبوں کو دے دیے جائیں تو میں پاکستان کا مطالبہ ترک کرتا ہوں۔ پھر مسلم لیگ نے یہ منظور کروایا تھا جاکر، جس پر حسرت موہانی بہت برہم ہوگئے تھے کہ محمد علی جناح تم نے ہمیں سستا بیچ دیا۔ پہلے تو تم نے پاکستان بیچا پھر چار سبجیکٹ بھی بیچ دیے۔
’کانگریس اور مسلم لیگ کے قائدین پنڈت نہرو اور محمد علی جناح دونوں ہی بڑے پڑھے لکھے انسان تھے۔ پنڈت صاحب یہ جانتے تھے کہ انہیں کیا کہنا چاہیے اس معاہدے پر اور جب ہندوؤں کا ان پر دباؤ آیا تو وہ کہنے لگے کہ معاہدہ ہم نے کیا ہے لیکن اس معاہدے کو ہم پارلیمنٹ سے منظور کروائیں گے۔ اس پر قائدِاعظم نے کہا کہ پارلیمنٹ میں تو تمہاری اکثریت ہوگی اور یہ تو وہاں نامنظور ہوجائے گا اس کا مطلب ہے کہ تمہارے اور میرے درمیان یہ معاہدہ یہیں ختم ہوگیا ہے اور اب میں پاکستان کا مطالبہ کرتا ہوں‘۔
معراج محمد خان نے گاندھِی سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بڑے دلچسپ انداز میں ایک واقعہ بتایا کہ ’جب گاندھی جی نے مرن برت رکھا تو ہم چھوٹے تھے مگر مجھے یاد ہے کہ ہم لوگ نعرہ لگاتے تھے گاندھی جی کا برت تڑواؤ، گاندھی جی کی جان بچاؤ، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی آپس میں ہیں بھائی بھائی۔ گاندھی جی نے برت کیا تھا کہ میں مرجاؤں گا اگر تم لوگوں نے لڑنا بند نہ کیا‘۔ اسی دور میں آپ کی ملاقات ابوالکلام آزاد سے بھی ہوئی تھی جن کے بارے میں آپ کہتے تھے کہ ’وہ بڑے خاموش طبیعت کے تھے لیکن انہوں نے جامعہ ملیہ کے طلبہ کی بڑی آؤ بھگت کی‘۔
معراج محمد خان سے میری کئی مرتبہ قائدِاعظم کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔ وہ کہتے تھے کہ ’قائداعظم کو جتنا بھی میں نے پڑھا یا سمجھا ہے اس کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ ایک تو وہ تقسیمِ ہند کے ذمہ دار نہیں تھے۔ تقسیمِ ہند کی ذمہ دار کانگریس تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو کا غلط بیان تھا کہ اب اس کا فیصلہ ہم پارلیمنٹ میں کریں گے۔ اس لیے میں تو پنڈت جواہر لعل نہرو کو ذمہ دار سمجھتا ہوں ملک کی تقسیم کا۔ قائدِاعظم کے لیے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا گیا تھا اس لیے وہ جو تحریک چلا رہے تھے مسلمانوں کے لیے 4 سبجیکٹ پر، وہ معاہدہ کرکے کانگریس پیچھے ہٹ گئی تھی۔ اس لیے ان کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ پھر مسلمانوں کے حقوق یا پاکستان کی بات دوبارہ شروع کریں۔ انہوں نے علیحدہ وطن پاکستان کی بات بھی کی تھی اور پُرامن طور پر حاصل بھی کرکے دیا‘۔
پاکستان نے روس کے مقابلے میں امریکا کا انتخاب کیوں کیا؟
معراج محمد خان وہ سیاستدان تھے جو براہِ راست معلومات بھی رکھتے تھے، ساتھ ہی آپ تاریخ کے طالب علم بھی تھے اور تاریخ کا یہ سوال آج بھی موجود ہے کہ امریکا اور روس کے انتخاب میں پاکستان نے روس کے مقابلے میں امریکا کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کی تفصیل میں آپ کہتے تھے کہ ’میں نے اس پر بہت غور و فکر کیا ہے، سوچا سمجھا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ روس کی دعوت مسترد کرنے سے یا امریکا کا دورہ کرنے سے ہم پرو امریکن ہوگئے ہیں۔ روس کا دورہ کرلیتے تو پرو ماسکو نہیں ہوجاتے۔ ہم ایک آزاد ملک ہیں تو ہمیں آزاد ملک ہی رہنا چاہیے، اس زمانے میں دنیا 2 حصوں میں بٹی ہوئی تھی، ایک سوویت یونین کہلاتا تھا اور دوسرا امریکا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہمیں دونوں سے برابر کے تعلقات رکھنے ہیں لیکن ہم جب روسی دعوت نامے کو نظرانداز کرکے امریکا چلے گئے تو اس سے ہماری پسند کا پتا چلتا ہے۔ اگر آپ لیاقت علی خان کی تقریر جو انہوں نے اس وقت امریکا میں کی اسے غور سے پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کا جھکاؤ امریکا کی طرف زیادہ تھا۔ پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں تیل نکلتا ہے، جس میں امریکا کا بھی فائدہ ہے اور پاکستان کا بھی۔ اس طرح ایک طریقے سے ان کا امریکا کی طرف جھکاؤ نظر آتا ہے۔ اگر وہ قومی مقاصد کی خاطر امریکا گئے تو مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسی طرح اگر وہ روس چلے جاتے یا چین چلے جاتے، مکہ مدینہ چلے جاتے تب بھی مجھے کوئی اعتراض اس پر نہیں ہوتا کیونکہ ان کا حق تھا۔
’لیکن اس بات پر اعتراض ہوتا ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ایسا کیا ہوا کہ ایک بیوروکریٹ کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین جو گورنر جنرل تھے ان کو یہ کہا گیا کہ آئندہ پارلیمانی ڈیموکریسی آرہی ہے اور آپ پارلیمانی ڈیموکریسی کے لیڈر ہوں گے۔ کیونکہ اس زمانے میں گورنر جنرل انگریز نامزد کرتے تھے (1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا کے قانون کے تحت) تو بے چارے خواجہ ناظم الدین نے یہ بات مان لی لیکن یہ ایک بہت بڑا دھوکا دیا گیا تھا اور ان کو گورنر جرنلی کبھی نہیں چھوڑنی چاہیے تھی کہ جب تک پارلیمانی ڈیموکریسی پوری طرح سے ہمارے ملک میں نافذ نہیں ہوجاتی۔ انہوں نے گورنر غلام محمد کو بنا دیا اور خود وزیرِاعظم بن کر آگئے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ بڑا بھیانک نتیجہ نکلا اور یہی وہ ذہن ہے کہ جس سے سول اور ملٹری بیوروکریسی کا عمل دخل ہمارے ملک میں بڑھتا رہا۔ اس عمل دخل نے ہمیں فوجی معاہدوں کی طرف بھی دھکیلا، یہی وجہ ہے کہ 1954ء میں جب ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا، نہ روس ہم پر چڑھ دوڑ رہا تھا، نہ ہی امریکا و چین ہم پر کوئی حملہ کرنے والے تھے۔ لیکن ایک مصنوعی خوف پیدا کیا گیا تھا‘۔
معراج محمد خان کے نزدیک مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب کیا تھا؟
1971ء میں جو بحران تھا جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا، وہ ہماری تاریخ کا بہت اہم مرحلہ تھا۔ اس کے سبب کے بارے میں معراج محمد خان کہتے تھے کہ ’ایوب خان کا پورا دور بنگال سے ناانصافیوں کا دور ہے۔ مرکزی حکومت میں بنگال کا صرف ایک بیورکریٹ تھا، فوج میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ کہا جاتا تھا کہ ان کا قد چھوٹا ہے، چھاتی چوڑی نہیں اور ان کا خیال تھا کہ قد بڑا ہونے اور چھاتی چوڑی ہونے سے بہادری آتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بنگال محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑا تھا۔ جب انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ زیادتی کی گئی تو کون ناراض ہوا اور اس ناراضی کے بعد پہلی دفعہ 6 نکات پیش کیے گئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ابتدا ایوب خان نے کی تھی۔ اس کی انتہا کب ہوئی کہ جب ان کے ساتھ ظلم کیا گیا، ان پر شک کیا گیا، کہا گیا بنگالی بھارت کے ایجنٹ ہیں۔
’1970ء میں جو شفاف انتخابات ہوئے وہ فوج نے کروائے تھے اور اس کے نتیجے میں 2 ایسی پارٹیاں جیت کر آئیں کہ جسے یحیٰی خان سمجھتے تھے کہ ہار جائیں گی۔ آپ حکومتی رپورٹس پڑھ لیں وہ پیپلزپارٹی کو جیتتا ہوا نہیں دکھاتی تھیں، بلکہ قیوم لیگ اور جماعت اسلامی کو جیتتا ہوا دکھاتی تھیں۔ لیکن بعد میں یہ دونوں باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ بنگال میں عوامی لیگ جیت گئی، جن کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ بھارت کے ایجنٹ ہیں، فلاں کے ایجنٹ ہیں۔ یہ وہی بنگالی تھے جو پاکستان بنانے میں پیش پیش تھے، یہ وہی بنگالی تھے کہ جنہوں نے پاکستان کے مطالبے کی سب سے پہلے حمایت کی اور جس نے قراردادِ پاکستان پیش کی وہ بھی بنگالی ہی تھا۔ تو بنگالی تو پاکستان بنانے میں پیش پیش تھے لیکن ہم نے انہیں مار مار کر ان کو ان کے حق سے محروم رکھ کر انہیں گالیاں دے دے کر اتنا دُور کردیا کہ جب الیکشن ہوئے تو وہ سلپ کرگئے‘۔
معراج محمد خان نے بتایا تھا کہ ’انتخابات کے بعد جب پہلی مرتبہ بھٹو صاحب وہاں گئے تھے تو میں ان کے ساتھ تھا۔ مجیب الرحمٰن سے بھٹو نے کہا کہ تم مجھے بھی تو ڈھاکا میں جلسہ کرنے دو۔ اس نے کہا آپ میرے حلقے میں جاکر جلسہ کرلیں میں اس بات کا گواہ ہوں۔ تو وہ کہنے لگے کہ تم میرے خلاف ہنگامہ کروا دو گے تو اس نے کہا میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ کوئی بنگالی آپ کے خلاف ہنگامہ نہیں کرے گا اور حلقے میں جلسہ ہوا جس میں کوئی 40 سے 50 ہزار آدمی تھے۔ اس میں انہوں نے ٹیکنیکل تقریر کی اور وہ تقریر یہ تھی کہ جاگیرداروں سرمایہ داروں نے مغربی پاکستان کو بھی لوٹ لیا اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے مشرقی پاکستان کو بھی لوٹ لیا ہے اور اب تم بتاؤ بنگالیوں کہ تم جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا پاکستان چاہتے ہو یا مزدروں اور کسانوں کا پاکستان چاہتے ہو۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ 50 ہزار کے مجمع سے تقریباً 90 فیصد نے یہ کہا کہ ہم ایک پاکستان چاہتے ہیں۔ بنگال میں کوئی نفرت نہیں تھی اور یہ بھی مجیب کے حلقے کی بات کر رہا ہوں میں۔ ان کے ہاں یہ تصور نہیں تھا وہ اپنی آخری لڑائی لڑ رہے تھے وہ الیکشن جیت گئے تھے۔ ہمیں مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہیے تھا اور میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں واحد آدمی تھا جو اس کے لیے لڑا ہوں‘۔
مشرقی پاکستان میں فوج کیوں گئی؟
اس سوال کے جواب میں معراج محمد خان کا کہنا تھا کہ ’جب بنگال میں فوجیں بھیج دی گئیں تھیں تو بھٹو صاحب نے کہا کہ تم میرے ساتھ ڈھاکا چلو تو میں نے کہا کہ میں نہیں جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں جاؤ گے۔ میں نے کہا کہ مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی جارہی ہے۔ میرا وہاں کیا کام میں وہاں جاکر اپنے بنگالی دوستوں کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ وہ سب پڑھے لکھے ہیں اور جانتے ہیں کہ کیا ہونے جا رہا ہے وہاں تو میرا کوئی کام نہیں رہا ہے۔
’بھٹو صاحب اپنی تقریر میں کہا کرتے تھے کہ میں نے ایک نوجوان سے کہا کہ ڈھاکا چلو تو اس نے کہا کہ نہیں جاؤں گا، میں نے کہا کہ شملہ چلو اس نے کہا نہیں جاؤں گا تو پھر کس سے پوچھ کر جاؤ گے، یہ ان کے الفاظ تھے۔ پارٹی کا پہلا کنونشن جب ہوا تو بائیکاٹ کس نے کیا تھا؟ میں نے کیا تھا اور جب مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن ہوا تو یہ سب گئے ہوئے تھے لیکن میں نہیں گیا تھا اور جب یہ واپس آئے تو ملٹری ایکشن وہاں شروع ہوگیا تھا جس پر بھٹو نے کہا کہ خدا نے پاکستان کو بچا لیا‘۔
معراج محمد خان نے کہا کہ ’میں وہ واحد شخص تھا جس نے کہا کہ خدا ظالموں کے ساتھ نہیں ہے، اگر آپ بنگالیوں کا قتلِ عام کریں گے تو بنگال آپ کے ساتھ نہیں رہے گا۔ وہ آپ کے غلام نہیں ہیں، الیکشن جیتنے کے باوجود آپ ان کا قتلِ عام کر رہے ہیں، میں ہی واحد آدمی ہوں جس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مزاحمت کی۔ میں مطمئن ہوں کہ میں نے اس کو روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے نہیں سنا تو آخر کار وہ بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے‘۔
کیا بھٹو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار تھے؟
اس حوالے سے معراج محمد خان نے بتایا کہ ’بھٹو صاحب بھی ذمہ دار ہیں، ایوب خان نے ابتدا کی اور پھر بھٹو صاحب نے بھی وہی کیا۔ بھٹو صاحب کو مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہیے تھا۔ بھٹو صاحب کو ملٹری ایکشن کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ معاملہ وہیں ختم نہیں ہوا بلکہ مشرقی پاکستان تو آپ سے چلا گیا اور یہاں پر جو عوامی نیشنل پارٹی (نیپ) تھی اس پر کس نے پابندی لگوائی؟ عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی لگا کر انہوں نے معاملہ خراب کیا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے اس بات کی شدید مخالفت کی اور شدید مزاحمت بھی کی کہ یہ کیا کر رہے ہیں، یہ نہ کریں۔ اس وجہ سے جب وہ ہم سے ناراض ہوئے تو حیدرآباد ٹریبونل میں عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو، ولی خان وغیرہ جب سب بند کیے گئے تھے تو اس کے ساتھ 2 نام اور بھی تھے۔ ایک حبیب جالب کہ جس نے کہا تھا جاگ میرے پنجاب کے پاکستانی اور دوسرا معراج محمد خان۔ الزام یہ تھا کہ یہ بلوچوں کی جنگِ آزادی لڑ رہا ہے حالانکہ میں کہہ رہا تھا کہ بلوچوں کے ساتھ غلط رویہ مت رکھو۔ انہوں نے بلوچستان پر فوج کشی کی، جس کی ہم نے شدید مخالفت کی اور خود میں ان سب لوگوں کے ساتھ جیل میں رہا‘۔
معراج محمد خان بنگلہ دیش کے پس منظر میں کہتے تھے کہ ’آج بلوچستان میں جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ آج کتنے دکھ کی بات ہے کہ قائدِاعظم کی ریزیڈنسی جلا دی گئی ہے۔ کسی نے وہاں بم رکھے اور وہ جل کر خاکستر ہوگئی ہے۔ یہ نفرتیں کس نے پیدا کیں؟ ہم نے پیدا کیں، ہم نے جب عطا اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کیا تو اس سے بلوچوں میں نفرتیں پیدا ہوگئیں کہ ہم تو الیکشن جیت کر آئے ہیں مگر پھر بھی ہماری بات نہیں مانتے ہیں۔ یہی نفرتیں بڑھتے بڑھتے آج علیحدگی کی صورت میں تبدیل ہوگئیں ہیں۔ آج بلوچ مظاہرے کر رہے ہیں جنہیں ہم غدار سمجھتے ہیں اور وہ وہاں جاکر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنی قوم کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، ہم نے نہ پختونوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور نہ بلوچوں کے ساتھ۔ ہم سمجھتے رہے کہ جابرانہ طریقوں سے حکومت چلائیں گے، تو اب وہ زمانہ نہیں رہا۔
’بھٹو کی یہ غلط فہمی تھی کہ نیپ پر پابندی لگانے سے سول اور ملٹری بیورو کریسی خوش ہوگی۔ ان غلط فہمیوں کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ آپ جو دوسروں کے خلاف کرتے رہے وہی آپ کے خلاف ہوگیا۔ ضیاالحق صاحب جن کو آپ نے 12 یا 14 جرنیلوں پر پروموٹ کرکے آرمی چیف مقرر کیا انہوں نے ہی آپ کا تختہ الٹ دیا۔
’اس کی وجوہات یہ تھیں کہ پارٹی جن لوگوں نے بنائی تھی وہ ایک ٹیم تھی۔ ان میں خورشید حسن تھے، میں تھا اور میاں محمود علی قصوری تھے تو ان سب کو ہٹا دیا گیا تھا پارٹی سے۔ میں استعفیٰ دے کر علیحدہ ہوا تھا، اس لیے کہ میں واحد آدمی تھا جو سمجھ گیا تھا کہ معاملہ اب قابو سے باہر ہوجائے گا، تب ہی میں نے وزارت سے بھی استعفیٰ دیا اور پارٹی سے بھی استعفیٰ دیا اور میرے پاس وہ دونوں کاغذ بھی رکھے ہوئے ہیں اور ان کے جوابات بھی۔ جواب یہ تھے کہ جب تم نے طے کرلیا ہے کہ علیحدہ ہی ہونا ہے تو میں تمہیں فارغ کرتا ہوں۔ میرے استعفے کا جواب بڑا بھونڈا سا دیا گیا تھا، کوئی وجوہات نہیں دیں انہوں نے۔ اس میں بھی میں نے بنگال کا ذکر کیا جس پر انہوں نے کہا کہ اس کو مشرقی پاکستان کا فوبیا ہوگیا ہے، اس کو بلوچستان کا فوبیا ہوگیا ہے، اپنے خط میں انہوں نے یہ لکھا تھا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جتنا ایک آدمی لڑسکتا تھا میں نے اتنی ہی لڑائی لڑی‘۔
بھٹو کی رخصتی کی وجوہات معراج محمد خان کی نظر میں
معراج محمد خان کا کہنا تھا ’جب بھٹو صاحب کے خلاف تحریک چلی ہوئی تھی اور رات کو جب میٹنگ ہوتی تھی تو اس میں فوج کا جنرل بیٹھا ہوتا تھا اور ان کے ساتھ بھی وہ بیٹھتے تھے اور مشورہ کر رہے ہوتے تھے۔ بھٹو صاحب کے ساتھ کیبنٹ میٹنگ میں بھی جنرل آکر بیٹھتے تھے۔ بظاہر تو وہ کہتے تھے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن اندر ہی اندر وہ کچھ اور ہی کھیل کھیل رہے تھے۔ ہاں میں یہ ضرور مانتا ہوں کہ اس کھیل میں عالمی طاقتوں کا بھی ہاتھ تھا کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ بھٹو صاحب کبھی بھی ہمارے عمومی مفادات کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔
’ہنری کسنجر کا بڑا معروف بیان ہے کہ بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی کوشش کی تو ہم تاریخ میں اس کو عبرت ناک مثال بنادیں گے اور انہوں نے بنا دیا، گوکہ بھٹو صاحب نے اس خطے کی سیاسیات کو تبدیل کرنے کی کوشش اور اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی جس میں شاہ فیصل بھی تھے اور معمر قذافی بھی۔ دونوں ایک دوسرے کا منہ چوم رہے تھے تو سوچیں امریکا پر کیا گزر رہی ہوگی‘۔
جنرل ضیاالحق کی معراج محمد خان کو دعوت
معراج محمد خان کی فوجی آمر ضیاالحق سے ملاقاتیں بھی رہیں۔ ایک بار معراج محمد خان نے بتایا کہ ضیا الحق نے کہا آپ وزیر بن جائیں اس پر معراج صاحب نے کہا ’مجھے ضرورت نہیں، پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی، انہوں نے پھر کہا کہ آپ بھٹو کے خلاف تقریریں جیسے پہلے کیا کرتے تھے کریں، ریڈیو اور ٹی وی پر آئیں۔ اس پر میں نے جواب میں کہا مجھے کسی مارشل لا کی ضرورت نہیں اور یہ مارشل لا آپ کو بہت نقصان پہنچائے گا، قوم آپ کو بُرا بھلا کہے گی اور بھٹو صاحب نیک کہلائیں گے۔ پھر وہ کہنے لگے آپ کراچی میں مہاجروں کی پارٹی بنائیں۔ میں نے کہا آپ چاہتے ہیں کراچی میں فساد فی الارض کیا جائے؟ کیا چاہتے ہیں آپ؟ کراچی میں تو لاکھوں پنجابی اور پٹھان ہیں فساد ہوگا‘۔
میں نے پوچھا کہ یہ کب کی بات ہے؟ اس پر معراج محمد خان نے بتایا کہ ’میں اٹک جیل میں گرفتار تھا اور مجھے سزا ہوگئی تھی، تب ضیاالحق برسرِ اقتدار تھے۔ تو اٹک جیل سے مجھے فوجیوں نے رہا کرکے ضیاالحق سے ملا دیا۔ میں نے کہا یہ جبری ملاقات تو میں نے بھٹو صاحب سے بھی نہیں کی تھی، یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ تو وہ کہنے لگے نہیں نہیں ہم نے تو آپ کو رہا کردیا ہے اور اب آپ رہا ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ اگر آپ کوئی بات نہیں مانتے تو کم از کم اردو بولنے والوں کی تو خدمت کریں وہ آپ کا اپنا شہر ہے اور اپنے لوگ ہیں۔ میں نے کہا کہ جناب اس کے بعد اس شہر میں ایسے خوفناک فساد ہوں گے اور اتنی خوفناک لڑائیاں ہوں گی، اتنی لمبی جنگ چلے گی اتنے اسلحے کے انبار لگیں گے کہ اس کا خاتمہ نہیں ہوپائے گا اور میں اس کام میں شریک نہیں ہونا چاہتا ہوں۔
’یہ وہ زمانہ ہے کہ جب بھٹو کے بیٹے افغانستان چلے گئے تھے اور انہوں نے بغاوت کا اعلان کردیا تھا۔ ایم آر ڈی تحریک شروع کی تھی۔ ضیاالحق نے مجھے اور بیگم صاحبہ کو کراچی میں نظر بند کردیا تھا اور مجھے 14 مہینے جیل میں رکھا گیا بغیر کسی مقدمے کے، کبھی اس جیل میں تو کبھی اس جیل میں۔ اس کے بعد میں رہا ہوتے ہی پنڈی چلا گیا تھا۔ اس وقت انہوں نے مساوات پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ پہلی بار جب اس اخبار پر پابندی لگی تو میں اس جلوس میں شریک ہوا جو مساوات کے حق میں نکالا گیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں پنڈی جاکر آپ کے لیے پریس کانفرنس بھی کروں گا۔ دوسرے روز جب میں نے شام کو پنڈی میں پریس کانفرنس کی تو اسی رات 12 بجے مجھے فوج اٹھا کر لے گئی اور مجھے اٹک جیل بھیج دیا گیا۔
’اٹک ایک بہت چھوٹی سی جیل ہے جہاں پیپلز پارٹی کے شیخ رشید بھی میرے ساتھ ہی گرفتار کرکے بند کیے گئے تھے۔ اٹک جیل سے مجھے فوجی لے گئے تھے۔ پہلے میں سمجھا کہ رہا کردیں گے کیونکہ میں نے ایک درخواست دی تھی کہ میری باقی جیل میرے صوبے میں میرے شہر میں رکھی جائے اور مجھے کراچی بھیج دیا جائے، درخواست میں نے بھیجی تھی سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے اور میرا خیال تھا کہ کراچی بھیج رہے ہیں اور فوجی ہنس رہے تھے، سپرنٹنڈنٹ بھی بیٹھا ہوا تھا۔ سپرنٹنڈنٹ کو ہم نے ہی سپرنٹنڈنٹ بنایا تھا بھٹو صاحب کے زمانے میں۔ بھٹو کی پھانسی کے وقت بھی وہ ہی سپرنٹنڈنٹ موجود تھا، جس کو بھٹو صاحب نے اپوائنٹ کیا تھا۔ مجھے لے جایا جا رہا تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں لے جارہے ہیں کیونکہ آگے اور پیچھے فوجیوں کی گاڑیاں تھیں تو اس نے کہا کہ یہ کسی فوجی کے پاس لے جا رہے ہی۔ پھر مجھے ضیاالحق صاحب کے مکان پر لے جایا گیا، جو اس وقت پنڈی میں تھے۔ میں پہنچا تو وہ وہاں کھڑے ہوئے تھے اور غلام حسن صاحب انڈسٹری کے وزیر تھے وہ بھی ساری گفتگو کے دوران موجود رہے تھے‘۔
کیونکہ میرا تعلق کراچی سے ہے اور کراچی ایک پُرآشوب دور سے گزر چکا ہے کہ جب اس شہر میں صرف آگ اور خون کی بارش تھی اور ایسے میں میرا تجسس بھی بنتا تھا تو میں نے معراج محمد خان سے پھر پوچھ لیا کہ اگر میں ٹھیک سمجھا ہوں تو اردو بولنے والوں کی جماعت بنانے کی پہلی آفر آپ کو ملی؟‘ اس پر انہوں کہا ’جی جی، میں نے اس کے دوسرے روز پنڈی میں پریس کانفرنس کی تھی اور سب باتیں بتائی تھیں اور تقریباً تمام اخبارات میں چھپی بھی تھیں۔ بڑا ہائی لائٹ کیا گیا تھا ان باتوں کو، ’امروز‘ اور ’پاکستان ٹائمز‘ نے تو بہت ہائی لائٹ کیا تھا۔ جنگ نے اپنے طریقے سے خبر چھاپی تھی، مختلف اخباروں نے مختلف طریقوں سے چھاپا تھا‘۔
معراج محمد خان نے سیاسی بصیرت اور شائستگی کے ساتھ عوامی خدمت، غریب پروری اور حقوق، محبت، رواداری، اخوت اور بھائی چارے کی سیاست کو فروغ دیا، وہ آخر دم تک یہی کہتے ہوئے چلے گئے کہ ’ہم آزاد قوم ہیں، ہمیں آزاد ملک کی طرح رہنا چاہیے‘۔
عامر اشرف جیو ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں۔ مضمون نگار و انٹرویو نگار ہیں۔ سماج، ادب، سیاست، سیاحت اور نوجوان نسل ان کے موضوعات ہیں۔ جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔