قاسم سوری کی یکطرفہ رولنگ کو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے ایک تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے والے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے 3 اپریل کو متنازع فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے اپنے فیصلے کی وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے لکھے گئے فیصلے میں چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر کے قاسم سوری نے بادی النظر میں اپنی آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے کہا کہ 3 اپریل کا فیصلہ آرٹیکل 69 (1) کے تحت پارلیمنٹ کی داخلی کارروائی کے تحفظ کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہا، کیونکہ یہ اس کے بجائے قومی اسمبلی میں ووٹ کا نتیجہ نہیں تھا، یہ یکطرفہ فیصلہ تھا۔
مزید پڑھیں: ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع
چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے متنازع اقدام نے واقعات کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس نے اس وقت کے وزیر اعظم کو اسمبلی کی طرف سے ووٹ کے بغیر تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے آئینی طور پر منافی نتائج کا دعویٰ کرنے کی اجازت دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کی اولین ترجیح آئینی نظم کو برقرار رکھنا ہے جو صرف اسمبلی کی بحالی کی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے۔
سائفر کو عدالت میں نہیں دکھایا گیا
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کے خلاف تحریک خارج کرنے کے لیے قاسم سوری کی جانب سے استعمال کیے گئے سائفر کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ سائفر کا متن عدالت عظمیٰ کو نہیں دکھایا گیا حالانکہ اس کے مندرجات کو ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کی حمایت میں جزوی طور پر تفصیلی وجوہات میں ظاہر کیا گیا تھا۔
2 اپریل کے کابینہ کے فیصلے کے علاوہ تفصیلی وجوہات میں اپوزیشن اور غیر ملکی ریاست کے درمیان مبینہ ملی بھگت کو ثابت کرنے کے لیے انکوائری کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حقائق کی اس طرح کی انکوائری یا تو وفاقی حکومت کی طرف سے 2017 کے ایکٹ کے تحت بنائے گئے کمیشن یا پارلیمنٹ کے کسی ایکٹ یا آرڈیننس کے تحت بنائے گئے خصوصی کمیشن کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔
پی ٹی آئی کی استدعا کہ سپریم کورٹ کو قومی سلامتی کے دفاع اور خودمختاری کی خلاف ورزی کے الزام پر ازخود نوٹس لینا چاہیے، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
یہ بھی پڑھیں: قاسم سوری نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا
مزید براں نوٹس داخل کرنے والے اپوزیشن ارکان کو 28 مارچ کو اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف تحریک پیش کرنے کی اجازت دی گئی تھی، جس نے اس تحریک پر آرٹیکل 95 (2) کے تحت ووٹ دینے کے آئینی حق اور ذمہ داری کو واضح کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس حق/ذمہ داری کو اسمبلی کے فلور پر ووٹ کے علاوہ شکست یا کم نہیں کیا جاسکتا چونکہ ڈپٹی اسپیکر کے حکم نے یکطرفہ طور پر آئین کی جانب سے دیے گئے ووٹ کے حق سے انکار کیا، اس لیے آرٹیکل 69 (1) کے تحت کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔
سنگین غداری
تفصیلی فیصلے میں 13 جولائی کو ریٹائر ہونے والے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ اختیارات کا استعمال ایک مقدس امانت ہے جس کی صدر، اس وقت کے وزیر اعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور اس وقت کے وزیر قانون نے خلاف ورزی کی۔
جسٹس مظہر عالم خان نے کہا کہ 'کیا اس طرح کے اقدامات آئین کے آرٹیکل 6 (سنگین غداری) کو متوجہ نہیں کرتے'، ساتھ ہی تجویز کیا کہ 'پارلیمنٹیرینز کو بھی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ ایسے غیر آئینی اقدامات کے لیے دروازے کھلے چھوڑ دیں یا مستقبل میں اس طرح کی گندگی کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔'
مزید پڑھیں: اسلام آباد کے ریسٹورنٹ میں قاسم سوری پر ’حملے‘ کا مقدمہ درج
جسٹس مظہر عالم خان نے مزید کہا کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو قرارداد پر ووٹ دینے سے روکا گیا اور آئین کی ایسی کھلی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوں گے اور قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
'نظریہ ضرورت'
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی کارروائی جانبدارانہ تھی جس کی بنیاد پر اگر نئے انتخابات کرانے کی اجازت دی جاتی ہے تو یہ کسی اتھارٹی کو اختیارات کے ناجائز استعمال کا لائسنس دینے کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک پہلے ہی غیر آئینی قوتوں کے ہاتھوں نظریہ ضرورت کے غلط استعمال کا تجربہ کر چکا ہے جسے عدالت عظمیٰ نے جائز قرار دیا لیکن اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نظریہ ضرورت کے غلط استعمال کی وجہ سے جمہوریت کو بہت نقصان پہنچا، عدالتوں کو ہر اس عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو آئین اور جمہوری اصولوں کے منافی ہو۔