’اصل مسئلہ تو یہ 40 منٹ ہیں میرے دوست‘
کسی عام دن آپ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) سے گاڑی پر 40 منٹ کا سفر کرکے ماہی گیروں کی آبادی ریڑھی گوٹھ پہنچ سکتے ہیں۔ 40 سالہ ماہی گیر عبدالسلام کے لیے یہ 40 منٹ صرف شہر کے مرکز سے اس کے مضافاتی علاقے تک کا فاصلہ نہیں ہے بلکہ یہ شعور اور پاگل پن، غفلت اور دیکھ بھال اور تہذیب اور نشے کی لت کے درمیان فرق ہے۔
اپنے ہم عصروں میں وہ سلام ملاح کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ریڑھی گوٹھ کی تاریخ بھی غیر ملکی مسلم افواج کی یہاں کے حکمران خاندان کے خلاف فتح سے شروع ہوتی ہے۔ یہ حقیقت سے زیادہ کہی سنی باتیں لگتی ہیں۔ اس علاقے میں آبادی اس وقت بڑھنا شروع ہوئی جب 1970ء کی دہائی میں وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہاں سڑکیں تعمیر ہوئیں اور بجلی آئی۔
وقت کے ساتھ اس علاقے سے شہر تک رسائی میں بھی بہتری آتی گئی لیکن ساتھ ہی یہاں منشیات فروخت کرنے والوں کا آنا بھی شروع ہوگیا۔ وہ یہاں کھلے عام منشیات بشمول بہت زیادہ نشہ آور ’آئس‘ (کرسٹل میتھ) اور ہیروین فروخت کرنے لگے۔ عبد السلام کا کہنا ہے کہ ’[منشیات خریدنا] یہاں اتنا آسان ہے جیسے پانی کی بوتل خردینا‘۔
یقین کیجیے کہ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔
اس علاقے کا ایک چکر لگانے سے ہی ایک مکروہ تصویر سامنے آتی ہے۔ خواتین اور بچے گلیوں کے کونوں پر پڑے یا تو خود کو انجیکشن لگارہے ہوتے ہیں یا پھر کسی اور طرح سے نشہ کررہے ہوتے ہیں یا پھر وہ یونہی نشے میں دھت پڑے ہوتے ہیں۔ کمال شاہ ایک مقامی سماجی کارکن ہیں جو اس علاقے میں نشے کے خلاف کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریڑھی گوٹھ میں گزشتہ کچھ ماہ میں تقریباً 150 افراد ہلاک ہوچکے ہیں کیونکہ وہ انجیکشن لگاتے تھے۔
سلام ملاح نے اپنی انگلی سے ایک دائرہ بناتے ہوئے کہا کہ ’دن ابھی شروع ہی ہوا ہے، بازار کھلا ہے اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ منشیات خرید اور بیچ رہے ہیں۔ کیا یہ عام بات ہے؟ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی منشیات ہوتی ہیں لیکن کیا وہاں اس طرح کھلے عام خرید و فروخت ہوتی ہے؟‘
وہ مزید کہتے ہین کہ ’یہاں ماہی گیر بمشکل ہی اپنا گزارا کرتے ہیں، یہاں پینے کا پانی آلودہ ہے اور تعلیمی سہولیات بھی بہتر نہیں ہیں، لیکن منشیات کی اس قدر آسان دستیابی ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے‘۔
ان کی بات جاری تھی کہ مرغیوں کی فیڈ کے لیے چھوٹی مچھلیاں لے جانے والی ایک تیز رفتار موٹر سائیکل گزرنے سے اس میں خلل پڑگیا۔ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے پوچھا کہ ’کیا پولیس کی مدد اور سیاسی حمایت کے بغیر یہ سب کچھ ممکن ہے؟ عقل تو اس بات کو نہیں مانتی‘۔
ریڑھی گوٹھ میں ساحلی علاقوں کے وڈیرے سمجھے جانے والے جاٹ ہی گزشتہ کچھ دہائیوں سے سیاست، تحفظ اور روزمرہ زندگی پر غالب ہیں۔ وہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے منسلک ہیں اور رفیق داؤد جاٹ ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کے وائس چیئرمین ہیں جس کے ذمے شہر کے ساحلی اور دیہی علاقوں کا انتظام ہے۔
اس کے علاوہ پی پی پی کے ایک اور مقامی رہنما ایم پی اے محمود عالم جاموٹ بھی یہاں کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں کیونکہ یہ علاقہ ان کا انتخابی مرکز ہے۔
ایک جانب جہاں پی پی پی اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے تو دوسری جانب دائیں بازو کی جماعت اسلامی یہاں اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ جماعت کی جانب سے اس علاقے میں کئی مظاہرے اور آگاہی پروگرام منعقد کیے گئے تاکہ حکام پر منشیات کے کاروبار کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔ ان کوششوں کو مقامی افراد کی جانب سے سراہا بھی گیا۔ جماعت کی جانب سے سابق کرکٹر شاہد آفریدی کے تعاون سے یہاں ایک پرائمری اسکول بھی چلایا جارہا ہے۔
عبدالجبار ناصر سینیئر صحافی ہیں اور کراچی کے ساحلی علاقوں کی انتخابی سیاست پر خصوصی نظر رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی یہاں سے ایک وارڈ میں کامیاب ہوسکتی ہے تاہم عام انتخابات میں اس کا قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنا ابھی دُور کی بات ہے۔
عبد السلام ملاح کا کہنا ہے کہ ’ساحلی علاقوں میں برادری کی بنیاد پر ووٹ ملتا ہے۔ دراصل کوئی سیاسی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے ہی یہاں منشیات کا مسئلہ سنگین ہوا۔ یہاں برادری کے ووٹ کے بغیر پی پی پی بھی انتخاب نہیں جیت سکتی۔
’یہاں کی سیاست برادری کی وجہ سے ایک دو افراد کے ہی گرد گھومتی ہے۔ یہاں تعلیم، صحت، منشیات اور پولیسنگ جیسے معاملات پر توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ اس سے کسی سیاسی جماعت کا مفاد پورا نہیں ہوتا‘۔
بارہا کوششوں کے باوجود بھی ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب اور مقامی ایم پی اے محمود عالم جاموٹ نے اس حوالے سے ہمارے سوالات کے جواب نہیں دیے۔
اس معاملے میں سب سے بڑا سوالیہ نشان تو ملیر کی مقامی پولیس پر ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں پولیس کی مدد کے بغیر منشیات کی فروخت ممکن نہیں ہے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ منشیات کی فروخت کے خلاف ہرممکن کارروائی کی جارہی ہے۔
پولیس کی جانب سے میڈیا کو فراہم کردہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ منشیات کے خاتمے کے لیے کارروائیاں کی گئی ہیں۔ ملیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے لے کر اب تک مبیّنہ منشیات فروشوں کے خلاف 202 ایف آئی آر درج کی گئیں اور 295 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے 3.4 کلوگرام ’آئس‘، 9.3 کلوگرام ہیروین اور 242 کلوگرام حشیش بھی برآمد کی ہے۔
ایس ایس پی ملیر پولیس عرفان بہادر کا کہنا ہے کہ ’پولیس نے حال ہی میں ان کاؤنٹر میں ایک مافیا کے سرغنہ کو ہلاک کردیا ہے اور اب اس علاقے میں کوئی منظم ڈرگ مافیا نہیں ہے لیکن یہاں منشیات کی طلب کو دیکھتے ہوئے غیر مقامی افراد کسی نہ کسی طرح یہاں منشیات فروخت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ریڑھی گوٹھ کے 80 فیصد مکین منشیات کی لت میں مبتلا ہیں اور پولیس کی کارروائی سے زیادہ منشیات کی بے تحاشہ طلب پر غور کرنا چاہیے۔ مؤثر بحالی مراکز اور والدین کی جانب سے سخت نگرانی ہی اس مسئلے کا حل ہے‘۔
یوں آخرکار یہ بات سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی وضاحت سلام ملاح اور اس کے ساتھیوں کے لیے منشیات کے مسئلے کو حل نہیں کرسکتی۔ ان لوگوں کے لیے یہ ریاستی بے حسی کی مثال ہے کیونکہ ان ماہی گیروں کے پاس کوئی ایسی سیاسی یا مالی طاقت نہیں ہے کہ وہ حکام پر منشیات کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈال سکیں۔
سلام ملاح کا کہنا ہے کہ ’منشیات اپنے آپ میں کسی مسئلے کا ردِعمل یا اس کی علامت ہوتی ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ تو کچھ اور ہے اور کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ مسئلہ کیا ہے؟‘ وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگیا اور دُور دیکھنے لگا۔ کچھ لمحوں کے توقف کے بعد اس نے میری جانب دیکھ کر کہا کہ ’اصل مسئلہ تو یہ 40 منٹ ہیں میرے دوست‘۔
یہ مضمون 10 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
عباد احمد رائل ہالووے یونیورسٹی آف لندن سے سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے گریجویٹ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر ebadahmed@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔