پاکستان

بارش سے کراچی کی تباہی پر سیاسی، سماجی و صحافی کمیونٹی کا ردعمل

کراچی وہیں کھڑا ہے جہاں 2 سال قبل تھا، فینسی لائٹیں لگانا گورننس نہیں ہے، جبران ناصر

کراچی کے مختلف علاقوں میں موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں شہر کی تباہ کن صورتحال ہوگئی، کئی علاقے ڈوب گئے جبکہ ٹریفک کی روانی معطل، مختلف علاقوں میں بجلی بھی بند ہے۔

اس حوالے سے سیاسی، سماجی کارکنان اور صحافیوں نے سوشل میڈٰیا پر سندھ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں تیز بارشوں سے تباہ کن صورتحال، کئی علاقے ڈوب گئے

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں بارشوں سے ہونے والی تباہی پر ردعمل دیتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ بارشوں کی وجہ سے کراچی کا سیلاب ایک بار پھر پی پی پی کی سندھ حکومت میں 14 سال کی کرپشن اور بدانتظامی کی عکاسی کرتا ہے، میری حکومت نے بڑے نالوں کی صفائی اور تعمیر نو کے لیے 35 ارب روپے دیے تھے لیکن حکومت سالڈ ویسٹ ڈسپوزل کو بہتر بنانے اور چھوٹے نالوں کی صفائی کا کام انجام دینے میں ناکام رہی۔

سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ میرا کراچی ہے جو پیپلز پارٹی کی نااہل حکومت نے برباد کر دیا ہے۔

سماجی کارکن جبران ناصر نے لکھا کہ کراچی وہیں کھڑا ہے جہاں 2 سال قبل کھڑا تھا، پانی گھروں میں داخل، ذخیرہ، دکانیں، گھروں کے تہہ خانے تباہ، انڈر پاسز اور گاڑیاں ڈوب گئیں ہیں، کروڑوں کا نقصان ہوا ہے، فینسی لائٹیں لگانا گورننس نہیں ہے۔

معروف صحافی و تجزیہ نگار مبشر زیدی نے ایک شعر لکھ کر کراچی میں ہونے والی تباہی پر اظہار خیال کیا کہ ‘ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں، اے وعدہ فراموش تجھ سا تو نہیں ہوں’، بدنصیب کراچی۔

معروف صحافی و کالم نگار مظہر عباس نے سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ملک کو 75 فیصد روینیو دینے کے بعد کراچی کو بدلے میں کیا دیا جا رہا ہے، پیپلز پارٹی گزشتہ 15 برس سے سندھ میں برسر اقتدار ہے اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے خود دعویٰ کیا ہے کہ وہ 10 بجٹ پیش کر چکے ہیں، مہربانی کرکے اس شہر اور سندھ کے لوگوں کی حالت زار دیکھیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان نے ٹوئٹر پر ایک وڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ 10 سیکنڈ کی ویڈیو پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں ستائیس سالہ کارکردگی دکھا دیتی ہے لیکن شرم انہیں پھر بھی نہیں آتی۔

قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ نے سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ حالات سندھ حکومت کے بس میں نہیں شہر کراچی میں فوری ایمرجنسی لگا کر نیوی اور پاک فوج کو مدد کے لیے طلب کیا جائے، ایڈمنسٹریٹر شاہراہ فیصل نرسری پر اپنے جانثاران کے ہمراہ شکریہ والے ٹک ٹاک بنانے میں مصروف ہے.

خرم شیر زماں نے ایک اور ٹوئٹ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو شہر کہ تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے لکھا کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں شہر کراچی میں بربادی کی ذمہ دار ہیں اور ان دونوں کے مفادات بھی ایک ہیں انہیں شہر سے کوئی غرض نہیں.

شہر کراچی کو بااختیار ، خوددار خودمختار میئر کی ضرورت ہے جو نیک نیتی، ایمانداری اور انتھک محنت کے ساتھ شہر کے مسائل حل کرے.

سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے لکھا کہ بارش نے ایک دفعہ پھر عیاں کر دیا کے سندھ پر 6 مرتبہ حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی نے کراچی کو ہمیشہ سوتیلا سمجھا ہے. ان سے توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے میر تقی میر نے کہا.. میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جن کی سبب، اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان نے بھی پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اور تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ پیپلز پارٹی کے 5000 ارب کا ترقیاتی بجٹ، پاکستان تحریک انصاف کا 1100 ارب کا کراچی پیکج اور ایم کیو ایم کا 35 سالہ کردار سیلاب بن کر گھروں میں داخل ہوچکا ہے،نوجوانوں کی لاشیں بجلی کے تاروں میں لپٹی پڑی ہیں، غریبوں کاسامان بہہ گیاہے،کچے/پوش سب علاقےتباہ وبرباد ہیں، کیا ہم اور ہمارے بچوں کی قسمت میں یہی سب کچھ ہے؟

کراچی کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم ‘کراچی بچاؤ تحریک’ کی جانب سے ٹوئٹر پر لکھا گیا کہ ضلع وسطی کراچی میں مکانات کا سیلابی ریلے میں بہہ جانے کا امکان ہے جس کی وجہ وہ دیوار ہے جو ایف ڈبلیو او نے گجر نالے کے دور ترین مقام حاجی مرید گوٹھ پر تعمیر کی ہے۔ اگر اس رکاوٹ کو نہیں ہٹایا گیا تو زیادہ تر ضلع وسطی ڈوب جائے گا، مکانات تباہ ہوجا ئیں گے اور جانی نقصان بھی ہوگا۔

صحافی قاضی آصف نے لکھا کہ گھگھر نالے کو ریتی سے بھر کر شاپنگ سینٹرز بنائے گئے ہیں، اب پانی قریبی آبادیوں میں تباہی مچا رہا ہے.

سندھ کے تمام شہر بارش کے پانی کی وجہ سے جس مصیبت میں ہیں اس کی وجہ حکومت کی نااہلی تو ہے ہی لیکن پانی کے قدرتی گذرگاہوں کو بند کرنا اصل وجہ ہے۔

صحافی فیض اللہ خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ پیپلز پارٹی کی نااہلی میں کوئی کلام نہیں مگر یاد رکھیں کہ نالوں کی صفائی کا کام ایف ڈبلیو او بھی کر رہی ہے، ساری تنقید پیپلز پارٹی پہ بھی درست نہیں، ڈیفنس، کلفٹن، کینٹ سمیت گلستان جوہر کے بعض علاقے کینٹونمنٹ بورڈ کے ماتحت ہیں اور وہ ہمیشہ کی طرح پانی میں ڈوب گئے ہیں۔

صحافی ساگر سہندڑو نے بھی ٹوئٹر پر بارشی پانی کی وڈیو جاری کی۔

دوسری جانب وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے مکیش چاولہ کے ہمراہ کلفٹن سے پانی نکالنے کی نگرانی کرنے کی وڈیو بھی شیئر کی۔

کالم نگار نصیر میمن نے لکھا کہ بارشوں میں کراچی ڈوبنے کی سائنسی تحقیق کروائیں. فضائی فوٹوگرافی، زمینی نقشوں، گزیٹیئرز اور سیٹلائٹ نقشون سے دیکھا جائے کہ 1947ع سے قدرتی آبی گذرگاہوں پر کب کون سے قبضے اور تعمیرات کی گئیں. بہت سارے حقائق کا انکشاف ہوا گا جس میں سے کچھ کو منظرعام لانا بھی مشکل ہوگا. اتنی ہمت ہے؟

ایک طرف بارش سے ہوانے والی تباہی پر حکومت پر تنقید ہو رہی ہے لیکن دوسری جانب کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تجاویز بھی پیش کی جا رہی ہیں، صحافی نعمت خان نے لکھا کہ کل وسیم اختر اور آج مرتضی وہاب ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ کل ان میں سے کوئی یا کوئی اور مئیر منتخب ہوکر آئے گا، کوئی کچھ نہیں کر پائے گا جب تک کراچی میں گورننس کے پیچیدہ اور بیکار نظام کو ٹھیک نہیں کیا جاتا، ۔ کراچی کے مسائل کا حال صرف اور صرف مکمل بااختیار لوکل باڈیز کے نظام میں پوشیدہ ہے۔

صحافی شفا یوسفزئی نے لکھا کہ کراچی میں قومی ایمرجنسی نافذ کی جائے، ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔

شہریار آفریدی نے لکھا کہ کراچی ایک بار پھر سیلاب کی لپیٹ میں ہے، کراچی کے شہری حکومت سے سوال کر رہے ہیں، گزشتہ 15 سال سے حکمرانی کراچی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ تباہ کر رہی ہے، وفاقی حکومت اس افراتفری پر خاموش تماشائی ہے۔ وہ اس قسم کی جمہوریت چاہتے ہیں، جہاں وہ بغیر احتساب کے ہمیشہ کے لیے حکومت کریں۔

خیال ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ عیدالاضحیٰ کے دوسرے روز بھی جاری رہا جس کے سبب شہر کی صورتحال تباہ کن ہوگئی، کئی علاقے ڈوب گئے جبکہ شہری کئی گھنٹوں سے بجلی سے محروم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے مختلف علاقوں میں کہیں تیز، کہیں ہلکی بارش

موسلادھار بارش نے مزید 5 شہریوں کی جان بھی لے لی، کراچی پولیس کے مطابق مختلف علاقوں میں کرنٹ لگنے سے 4 افراد جاں بحق جبکہ ایک شخص دیوار گرنے سے ملبے تلے دب کر انتقال کرگیا، اس حوالے سے مزید تفتیش ابھی جاری ہے۔

گارڈن ایریا میں کرنٹ لگنے سے 28 سالہ عاطف اور 25 سالہ حسن جاں بحق ہوگئے، بلال کالونی میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہونے والے شخص کی شناخت 60 سالہ علی شیر خان کے نام سے ہوئی جبکہ نارتھ کراچی سیکٹر 05 کے قریب 30 سالہ شعیب بجلی کا جھٹکا لگنے سے جاں بحق ہوگیا۔

دوسری جانب کورنگی انڈسٹریل ایریا کے سیکٹر 05 میں اعزاز احمد ولد امیر جان چمڑے کی فیکٹری کی دیوار گرنے سے جاں بحق ہو گئے، ، پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ لاشوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں بارش کے بعد سیلابی صورتحال

واضح رہے کہ کراچی میں ایک ہفتے سے جاری مون سون بارشوں کا سلسلہ اب تک کئی شہریوں کی جانیں لے چکا ہے، جمعہ کو بارش کے سبب تباہ کاریوں کے مخلتف واقعات میں 6 افراد جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ ہفتے کے روز کرنٹ لگنے سے 7 افراد انتقال کر گئی۔

باتیں بقر عید کی

انتظار ختم، ٹچ بٹن کو 2022 کے اختتام تک ریلیز کرنے کا اعلان

ایلون مسک ٹوئٹر خریدنے کے معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے