ماضی کے تلخ تجربات ٹی ٹی پی کی قومی دھارے میں شمولیت کی راہ میں حائل
تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) سیاسی دھارے میں داخل ہونے کے لیے کوشاں ہے پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد کالعدم گروپ سے شروع کی گئی بات چیت چند انچ آگے بڑھی ہے تاہم ماہرین اور متاثرین نے عسکریت پسند تنظیم کی طرف سے سیاسی جواز حاصل کرنے لیے فاٹا کے انضمام کو واپس لینے سمیت کیے گئے مطالبات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین اور ٹی ٹی پی کی طرف سے دہشت گردی کے دور میں کیے گئے تشدد کے متاثرین کے لیے عسکریت پسند تنظیم پر بھروسہ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ مذاکرات کے مستقبل اور ان کے ممکنہ نتائج کے بارے میں کئی سوالات ابھی تک زیر غور ہیں۔
مزید پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی، ٹی ٹی آئی سے متعلق پیشرفت، معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانے کیلئے کمیٹی تشکیل
اس اعتماد کی کمی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عسکریت پسند تنظیم دسمبر 2007 میں ٹی ٹی پی کے قیام کے بعد سے قبائلی اضلاع میں امن کے بدلے مذاکرات کے متعدد ادوار کے دوران کیے گئے اپنے وعدوں سے مکر چکی ہے، ایسا لگتا ہے کہ اگست 2021 میں نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلا اور افغان طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے نے اس گروپ کو ایک نئی زندگی دی ہے کیونکہ مؤخر الذکر نے ناصرف خود کو دوبارہ منظم کیا بلکہ اسے ایک ایسی قوت کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا جس کے بعد اسلام آباد نے طالبان کی عبوری حکومت کی سرپرستی میں گروپ کے ساتھ نئے مذاکرات کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔
فاٹا انضمام کی مخالفت
سیاسی معاملات کا فائدہ اٹھا کر سیاسی مقام حاصل کرنے کی کوشش میں ٹی ٹی پی نے حال ہی میں وفاقی شریعت کورٹ کے حکومت کو پانچ سالوں کے اندر اسلامی اور سود سے پاک بینکنگ نظام نافذ کرنے کے حکم کی تعریف کی۔
8 جولائی کو میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ سود پر مبنی معیشت کے خلاف آواز اٹھانا قابل تحسین ہے جہاں ٹی ٹی پی نے پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا بیانیہ اٹھایا جو کئی دہائیوں سے سود پر مبنی معیشت کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت، کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان غیر معینہ مدت تک جنگ بندی پر اتفاق
ایسا لگتا ہے کہ اس گروپ نے اب سیاسی نوعیت کے مطالبات پیش کر کے اپنا موقف نرم کر لیا ہے کیونکہ ٹی ٹی پی کے مذاکرات کاروں کا پہلا مطالبہ سابق فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کے فیصلے کی واپسی تھی اور اس مطالبے نے مذاکرات کاروں کو حیران کردیا تھا۔
اگرچہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے فوری طور پر ٹی ٹی پی کے مطالبے کو مسترد کر دیا تاہم گروپ کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے کابل میں ایک یوٹیوبر کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو کے دوران ضم شدہ اضلاع کی واپسی کے مطالبے کا اعادہ کیا، گروپ کے سابق رہنماؤں کے مقابلے میں نور ولی محسود کا رویہ واضح دکھائی دیا اور ان کا لہجہ اپنے پیشروؤں کے جارحانہ موقف کےمقابلے میں ایک بڑے فرق کی عکاسی کررہا تھا۔
سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل سابقہ فاٹا کو 2018 میں 25ویں ترمیم کے ذریعے خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔
مذہبی اور قوم پرست جھکاؤ رکھنے والی کچھ سیاسی جماعتیں جیسے فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام اور محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر بااثر قبائلی عمائدین انضمام کی مخالفت کر رہے ہیں، یہاں تک کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں جمود کے حامی عناصر نے بھی سابقہ فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار کیا۔
انضمام کو واپس لینے کا مطالبہ ٹی ٹی پی بعض سیاسی قوتوں اور ان لوگوں کا مشترکہ ہدف بن سکتا ہے جو اصلاحات کے خلاف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان، ٹی ٹی پی کے درمیان ثالث ہیں لیکن معاہدہ نہیں ہوا، افغان وزیر خارجہ
فاٹا کے انضمام کی واپسی کے مطالبے پر تبصرہ کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے چیئرپرسن ڈاکٹر حسین شہید سہروردی نے کہا کہ ٹی ٹی پی اپنے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے مقبول بیانیے کو اپنا رہی ہے، اسی طرح ٹی ٹی پی جانتی تھی کہ عوام کی اکثریت سود پر مبنی معیشت کے خلاف ہے اسی لیے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میڈیا کو بیان جاری کیا گیا۔
انہوں نے اس امکان کی طرف اشارہ کیا کہ بعض سیاسی اور مذہبی گروہوں کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کا مستقبل میں ایک ہی ایجنڈا ہو سکتا ہے۔
'بہتر مطالبات'
پشاور میں مقیم سیاسی مبصر ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ جون میں کابل جرگہ نے ٹی ٹی پی کے مطالبات کو بہتر شکل دینے میں مدد کی کیونکہ اس میں یہ پیغا واضحطور پر دیا گیا تھا کہ آئین کے برعکس ایجنڈا ممکن نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا حالیہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں بھی ٹی ٹی پی کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کھلے دل کا مظاہرہ کرنے کی تجویز دی گئی تھی، ٹی ٹی پی کی قیادت میں بعض عناصر کی جانب سے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کی آمادگی بھی ظاہر کی گئی جس کے تحت وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، ایک سیاسی جماعت کے طور پر منظم ہو سکتے ہیں اور یہاں تک کہ سوات کے معاملے میں باضابطہ طور پر سیکیورٹی فورسز کی صفوں میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اپنے سیاسی بیانات کے ذریعے ایسا ٹی ٹی پی اپنے سپاہیوں کو ملک کے آئینی فریم ورک کے اندر کام کرنے کے لیے تیار کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں 30 مئی تک توسیع کردی
ٹی ٹی پی کے مطالبات میں سے ایک گروپ کو غیر مسلح کی مخالفت تھی، ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ایسا کرتی ہے تو یہ گروپ ایک پرائیویٹ ملیشیا کے طور پر موجود رہے گا جس کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم مفاہمت کے کلاسک نمونے کی پیروی کر رہے ہیں جس کے تحت غیرمسلح ہونے کے مطالبے کو دوبارہ انضمام اور بحالی کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔
انہوں نے تنظیم کو میز پر لانے کے لیے پاکستان کی جانب سے استعمال کی جانے والی حکمت عملی کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے لیے پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی کو اعتماد میں لینا ہو گا، ٹی ٹی پی کو مرکزی دھارے میں لانے کی ذمہ داری کسی کو اٹھانی ہوگی اور یہ صرف پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔
متاثرین کی اہمیت ہے
پاکستان بھر میں دہشت گرد تنظیم کے تشدد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خادم حسین نے کہا کہ حکومت تشدد کے متاثرین کو نظر انداز کرتے ہوئے عسکریت پسند تنظیم کے ساتھ امن قائم نہیں کر سکتی، انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی سمیت ہر کسی کو شہدا کے خاندانوں سے بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے قائل کیا جا سکے، انہوں نے مزید کہا کہ کسی کو [جنوبی وزیرستان کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور بلور خاندان سے بات کرنی ہوگی تاکہ وہ ٹی ٹی پی کی مرکزی دھارے میں شمولیت پر غور کریں۔
اتنے ہی اہم سوالات یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کو مرکزی دھارے میں کس طرح شامل کیا جائے گا، کیا وہ ہتھیار ڈالیں گے؟ کیا وہ سیاسی جماعت یا سول سوسائٹی کی تنظیم کے طور پر رجسٹر ہوگی؟ اگر بات چیت کامیابی کے ساتھ ختم ہو جائے تو بھی مخالفت کرنے والے گروہوں سے نمٹنے کے لیے ریاست کا کیا منصوبہ ہے؟
ٹی ٹی پی کی قومی دھارے میں شمولیت سے قبل ان تمام مسائل کو حل کرنا ہو گا۔