رانا ثنااللہ پر ہیروئن کا مقدمہ بنانا غلطی تھی، فواد چوہدری
سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ و مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ کے خلاف ہیروئن کا مقدمہ بنانا غلطی تھی اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’کل تک‘ میں بات کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر حکومت ہم سے یہ توقع کرتی ہے کہ ہم اسمبلی میں بیٹھیں تو اس کے لیے انتخابات کی تاریخ دینی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اگر بہتر جمہوری نظام میں چلانا ہے تو حکومت اپنا کردار ادا کرے اور اپوزیشن کو اپنا حق ادا کرنے دے اور یہ فیصلہ انتخابات میں عوام ہی کر سکتے ہیں اور وہی ملک آگے ترقی کر سکتے ہیں جہاں عوام کی اکثریت کو اپنے فیصلے کرنے کا حق دیا جائے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تب بھی پاکستان میں اثرات نہیں آنے دیں گے، فواد چوہدری
ان کا کہنا تھا کہ دبئی اور سعودی عرب نے بھی اس حکومت کو اس لیے پیسے نہیں دیے کیونکہ ان کو پتا تھا کہ موجودہ حکومت زیادہ وقت نہیں چل سکتی اس لیے پاکستان کو ایک مستحکم حکومت چاہیے۔
اس سوال پر کہ اگر حکومت نئے انتخابات پر آپ کا مطالبہ تسلیم نہیں کرتی تو آگے کیا لائحہ عمل ہوگا، فواد چوہدری نے جواب دیا کہ پھر غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوگی کیونکہ موجودہ حکومت ایک فیصلہ بھی خود نہیں کرتی اور یہاں تک کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافے پر بھی کہا کہ آرمی چیف ہماری مدد کریں۔
انہوں نے کہا کہ آصف زرداری اور دیگر کا مقصد ہی اپنے اوپر بنے کرپشن کے مقدمات ختم کرنا تھا اور وہ مقصد انہوں نے حاصل کرلیا، مگر ہمیں اگر پھر موقع ملا تو ہم وہاں سے شروع کریں گے اور بند فائل پھر کھولی جائیں گی۔
اس سوال پر کہ آپ کی حکومت کو بھی کوئی اور چلا رہا تھا، پی ٹی آئی رہنما نے اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی مداخلت ضرور تھی مگر فیصلے عمران خان خود کرتے تھے، مگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فیصلہ سازی میں حکومت کی بہت مدد کی۔
اس پر پروگرام کے میزبان نے سوال کیا کہ پھر اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ سے کیا ناراضی ہے تو فواد چوہدری نے کہا کہ ان کا تحریک انصاف سے کوئی معاملہ نہیں تھا، مگر آرمی چیف کے عہدے پر ان کے بیچ کچھ معاملات چل رہے تھے مگر آرمی چیف اور عمران خان کے درمیان ذاتی تعلقات آخری وقت تک بہت اچھے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘نامعلوم فون نمبرز’ سے ‘دھمکی آمیز’ کالز کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، فواد چوہدری
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی تو سندھ تک محدود رہ گئی ہے مگر مسلم لیگ (ن) نے اپنا بہت نقصان کیا ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں کے اوپر اس طرح سے اپنا پورا سیاسی بیانیہ ختم نہیں کرتی، اس لیے مسلم لیگ (ن) نے اپنے کارکنان کا جس طرح مان توڑا ہے وہ بہت بڑی غلطی ہے۔
'رانا ثنااللہ جس تکلیف سے گزرے ایسا کسی سیاستدان کے ساتھ نہیں ہوا'
اس سوال پر کہ کیا رانا ثنااللہ پر ہیروئن کا مقدمہ تحریک انصاف نے بنایا تھا اور ہیروئن بنی گالہ سے بھیجی گئی تھی، فواد چوہدری نے جواب دیا کہ تحریک انصاف نے وہ مقدمہ نہیں بنایا اور نہ ہی بنی گالا سے ہیروئن بھیجی گئی مگر رانا ثنااللہ سے پوچھیں کہ وہ مقدمہ کس نے بنایا تھا، ان کے خلاف جو کچھ ہوا وہ غلط تھا اور انہوں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس بات کا شکوہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب رانا ثنااللہ کا کیس کابینہ میں پیش کیا گیا تھا تو اس میں متعلقہ افسران بھی شامل ہوئے تھے اور جب میں نے کیس سے متعلق سوالات کیے تو وہ افسر کابینہ کا اجلاس چھوڑ کر چلا گیا تھا، اس وقت ہی میں نے منع بھی کیا تھا اور مجھے پتا تھا کہ یہ مقدمہ فضول ہے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ رانا ثنااللہ پر ہیروئن کا مقدمہ بنانا غلطی تھی، اس طرح ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا مگر جب رانا ثناللہ حکومت میں ہوتے اور مقدمے بناتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ ان کو ہمیشہ حکومت میں ہی رہنا ہے، مگر رانا ثناللہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس تکلیف سے وہ گزرے اس طرح کسی اور سیاستدان کے ساتھ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ رانا ثنااللہ عقلمند انسان بھی ہیں اور ان سے میرا اچھا تعلق بھی ہے مگر جس طرح سے وہ حکومت میں آکر باتیں کرتے ہیں پھر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اپوزیشن میں بھی جانا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف سے متعلق بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ شہباز شریف نے حکومت میں آتے ہیں اپنے پانچ گھر کیمپ آفس میں تبدیل کر دیے ہیں اور جاتی عمرہ کی صرف دیوار 80 کروڑ روپے کی بنی ہے۔
مزید پڑھیں: گرینڈ ڈائیلاگ ہو سکتا ہے مگر پہلے انتخابات کی تاریخ دیں، فواد چوہدری
انہوں نے کہا کہ ادارے اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ لوگوں کا ان پر اعتماد نہیں رہا اس لیے سیاستدانوں کو مل کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں اپنے پاؤں سے کچھ آگے سوچنا ہوگا۔
'مزید صوبے بننے چاہئیں'
فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان کو چار صوبوں سے نہیں چلایا جاسکتا، یا تو مزید صوبے بنائیں یا پھر صوبائی اسمبلیاں ختم کرکے انتظامی یونٹس تشکیل دیے جائیں اور صوبوں میں صرف ایک گورنر لگایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آرمی چیف ہر تین سال بعد تعینات ہوتا ہے اور ہر تین سال میں حکومت بیٹھ جاتی ہے تو رول آف گیم سیاستدانوں کو طے کرنے ہوں گے۔