'پاکستان اور چین کے درمیان اعتماد بحال، اہم سی پیک منصوبوں پر دوبارہ کام شروع'
پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردی کے سیل کو کامیابی سے تباہ کرنے اور کراچی یونیورسٹی میں 3 چینی اساتذہ کو ہلاک کرنے میں ملوث ماسٹر مائنڈ کے پکڑے جانے کے بعد پاکستان اور چین کے تعلقات دوبارہ مکمل طور پر بحال ہوگئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے مین لائن 1 (ایم ایل ون) اپ گریڈیشن پروجیکٹ جو پاکستان میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، 26 اپریل کے خودکش حملے کی وجہ سے عارضی طور پر تعطل کا شکار ہوگیا تھا، وہ منصوبہ بھی اب بحال کر دیا گیا ہے، اس سے قبل یہ منصوبہ فنڈنگ سے متعلق مسائل کی وجہ سے تاخیر کا شکار تھا۔
پاکستان کی وزارت ریلوے اور چین کے نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارمز کمیشن (این ڈی آر سی) نے حال ہی میں اس منصوبے سے متعلق ایک اجلاس کیا اور دونوں فریق ان دنوں منصوبے کے مالیاتی طریقہ کار پر کام کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا چینی ہم منصب سے رابطہ، سی پیک منصوبے تیزی سے آگے بڑھانے کیلئے’پختہ عزم‘ کا اظہار
ذرائع نے بتایا کہ کہ ایم ایل ون منصوبہ پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دوسرے مرحلے کا مرکزی حصہ ہوگا۔
کراچی یونیورسٹی حملے کے بعد بیجنگ نے نہ صرف سی پیک منصوبوں پر ترقیاتی کاموں کو پاکستان میں کام کرنے والے اپنے شہریوں کی سیکیورٹی، کراچی حملے کے حملہ آوروں کی گرفتاری اور قانونی کارروائی سے جوڑا تھا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تمام تعلقات عملی طور پر تعطل کا شکار ہوچکے تھے۔
اس خیال کو سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے بھی تقویت بخشی، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ بم دھماکے کے ذمہ داروں کا سراغ لگانے اور انہیں پکڑنے میں کامیابی نے چینی اہلکاروں اور پاکستان میں منصوبوں کے تحفظ کے لیے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی صلاحیت پر چین کا اعتماد بحال کیا اور انہیں ان کی سلامتی کی ضمانت اور یقین دہانی کرائی ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے مزید کہا کہ ہمارا مشرقی پڑوسی ملک پاکستان اور چین کی دیرینہ دوستی سے ناراض ہے جس کا مرکز اب سی پیک ہے اور اب وہ اس دوستی کو کمزور اور سبوتاژ کرنے کے لیے کام کر رہا ہے، وہ اس مقصد کے لیے معلوماتی جنگ کے ساتھ ساتھ اپنی مقامی پراکسیز کے ذریعے باقاعدہ روایتی جنگ بھی کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: جامعہ کراچی میں خود کش دھماکا، تین چینی باشندوں سمیت 4 افراد جاں بحق
حملے کی تحقیقات کی سست رفتاری پر چین کی مایوسی اور پریشانی وزیر اعظم شہباز شریف کے بیجنگ کے دورے سے گریز کی بڑی وجہ بتائی جاتی ہے، جبکہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی اسٹریٹجک تعلقات کے باعث چین ان اولین غیر ملکی مقامات میں سے ایک ہے جہاں نئے پاکستانی وزرائے اعظم دورے پر جاتے ہیں۔
کیس میں پیش رفت اس ہفتے منظر عام پر آئی جب منگل کے روز پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی میں ہونے والے حملے کو دہشت گرد گروپ 'بی ایل اے' اور 'بی ایل ایف' نے مشترکہ طور پر انجام دیا تھا، اس کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کر لیا گیا ہے، ملزم داد بخش کو کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ گرفتاری ایک روز قبل پہلے یعنی پیر کے روز ہوئی جبکہ ذرائع نے بتایا کہ ملزم ہفتوں سے حراست میں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اہم چینی شخصیت کا پاکستان کے ساتھ 'مضبوط' تعلقات کی بحالی میں مدد کا وعدہ
بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز نے 19 جون کو سینٹرل مکران رینج کے قریب 6 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا جبکہ 2 دیگر ملزمان مفرور ہیں۔
چینی انسداد دہشت گردی حکام نے بھی اس کیس پر پاکستانی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ چین کی ایک ٹیم پاکستان میں اپنے مقامی ہم منصبوں کے ساتھ تحقیقات کے سلسلے میں مسلسل رابطے میں تھی۔
کیس میں پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم پاکستان کی جانب سے کی گئی ٹھوس کوششوں کو سراہتے ہیں جبکہ کیس کی مزید تفتیش ابھی جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف سے چینی سفیر کی ملاقات، 'چینی شہریوں کے تحفظ کی یقین دہانی'
ذرائع نے بتایا کہ اہم چینی سیاستدان اور صدر شی جن پنگ کے ذاتی ایلچی سمجھے جانے والے یانگ جیچی کا دورہ اس پیش رفت کے بعد ممکن ہوا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کچھ ہفتے قبل بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی شہریوں کے لیے سیکیورٹی کے حوالے سے سخت سیکیورٹی اقدامات کی ضمانت دی تھی اور کراچی حملے کے مجرموں کا سراغ لگانے کا عزم کیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ یانگ جیچی نے نجی طور پر حکومت پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ سی پیک اور دوطرفہ تعلقات دونوں اب پٹری پر آگئے ہیں۔
نئی سرد جنگ سے انکار
اس کے علاوہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے لیے نئی سرد جنگ قابل قبول نہیں۔
مزید پڑھیں: چینی صدر کا دورہ: 51 معاہدوں پر دستخط
انہوں نے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ 'ریجنل کنیکٹیویٹی میں بی آر آئی کی اہمیت' کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کو بھی بھارت اور پاکستان کے ساتھ اپنے کردار اور تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے نیٹو کی ایشیا میں توسیع کو 'غیر فطری' قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا کیونکہ یہ اس کے بیان کردہ مینڈیٹ سے باہر تھا۔
سینیٹر مشاہد حیسن سید نے کہا کہ بھارت کی جانب امریکا کا جھکاؤ امریکی علاقائی پالیسیوں میں خلا کا باعث ہے جیسا کہ امریکا نے کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کی مذمت کی جبکہ اس نے بھارت کی جانب سے کیے گئے کشمیر کے الحاق کو قبول کیا۔