نقطہ نظر

ٹراؤٹ فارمنگ: شمالی علاقہ جات میں روزگار کا ایک نیا ذریعہ

وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ آزاد کشمیر کی غریب اور دیہی آبادیوں میں رہنے والوں کی زندگیاں بدل رہا ہے۔

بخت جان وادی نیلم کے گاؤں دواریاں کی رہائشی ہیں، ان کے شوہر مرزا عبدالرشید کی ریٹائرمنٹ سے قبل ان کی زندگی بہت سادہ اور پُرسکون تھی۔ ان کے شوہر محکمہ فارسٹری، وائلڈ لائف اینڈ فشریز میں چپراسی تھے۔ ان میاں بیوی کے پاس ایک گائے تھی جس سے گھریلو استعمال کے لیے دودھ اور گھی حاصل ہوجاتا تھا جبکہ عبدالرشید کی تنخواہ سے دیگر ضروریات پوری ہوجاتی تھیں۔

ان کی مشکلات 5 سال قبل اس وقت شروع ہوئیں جب 35 سال نوکری کرنے کے بعد 60 سال کی عمر عبدالرشید کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا۔ اس وقت بخت جان کی عمر 50 سال تھی اور وہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کررہی تھیں۔ بخت جان کی 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ عبدالرشید کی تنخواہ کے بغیر میں گھر کیسے چلاؤں گی‘۔

انہوں نے جیسے تیسے کچھ سال گزارا کیا لیکن ان کی مشکلات برقرار تھیں۔ بخت جان نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور اپنی عمر کی وجہ سے عبدالرشید کے لیے بھی روزگار کے امکانات محدود تھے۔ مگر خوش قسمتی سے ان کے حالات تبدیل ہونے والے تھے۔

مزید پڑھیے: پہاڑوں پر رہنے والوں کی زندگی بھی پہاڑ جیسی سخت ہے

اپنی ریٹائرمنٹ کے 2 سال بعد ایک دن عبدالرشید ایک خوشخبری لے کر آئے۔ بخت جان نے بتایا کہ ’انہوں نے کہا کہ محکمہ فشریز ان لوگوں کو ٹراؤٹ فش فارم بنانے کے لیے رقم دے رہا ہے جن کے پاس اپنی زمین ہے اور وہاں پانی بھی آتا ہے‘۔

فش فارم لگانے کی امید میں عبدالرشید نے کاغذی کارروائی مکمل کرکے درخواست جمع کروا دی۔ یہ تمام کام بہت جلدی ہوگیا اور ایک ہفتے بعد ہی محکمے کی ٹیم نے زمین کا سروے بھی کرلیا۔

ٹیم نے دواریاں کی زمین اور پانی کو ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ کے لیے موزوں قرار دیتے ہوئے فارم کی تعمیر کے لیے 40 لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا۔ محکمے نے اس میں سے 32 لاکھ روپے ادا کرنے تھے جبکہ بقیہ رقم کا انتظام عبدالرشید نے خود کرنا تھا۔

محکمے سے منظوری ملنے کے بعد عبدالرشید اور بخت جان نے فش فارم کی تعمیر کا آغاز کردیا اور یہ فارم 2 ماہ کے اندر مکمل ہوگیا۔ بخت جان نے بتایا کہ دواریاں میں قائم ہیچری سے مچھلیاں لے کر فارم کے تالاب میں ڈالی گئیں‘۔

اب بخت جان صبح سورج نکلنے سے قبل ہی فارم پر آجاتی ہیں اور سورج ڈھلنے کے بعد تک یہاں رہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں دن میں 2 مرتبہ مچھلیوں کو کھانا ڈالتی ہوں اور میرے شوہر کی ڈیوٹی رات کی ہوتی ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ تالاب میں پانی کی فراہمی جاری رہے اور یہ کہ مچھلیاں چوری نہ ہوجائیں۔ میں فارم کے نزدیک ہی پرچون کی ایک چھوٹی سے دکان بھی چلاتی ہوں‘۔

بدلتی زندگیاں

بخت جان اور عبدالرشید کی طرح 46 سالہ چوہدری خاقان بھی گزشتہ 2 ماہ سے وادی نیلم کے علاقے لیسوا کھٹیاں میں فش فارم چلا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’فش فارم تعمیر کرنے سے قبل ہم قریبی ندی کے پانی سے زمین کو سیراب کرتے تھے اور مکئی کی فصل اگاتے تھے۔ جب محکمہ فشریز نے ہمیں بتایا کہ اس پانی میں ٹراؤٹ مچھلی پالی جاسکتی ہے تو ہم نے ان کی تجویز پر عمل کیا‘۔

چوہدری خاقان کہتے ہیں کہ فش فارمنگ سے انہیں سال بھر اچھی آمدن کمانے کا موقع ملا ہے۔ ان کے مطابق ’اگر آپ صرف زراعت پر منحصر رہیں تو فصلیں تو تیز بارش، کیڑوں اور دیگر موسمی بیماریوں سے خراب ہوسکتی ہیں‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’مجھے امید ہے کہ ایک سال میں میری مالی حالت بہتر ہوجائے گی اور میں اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلوا سکوں گا‘۔

ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ کو فروغ دینے کے لیے وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ آزاد جموں و کشمیر کی غریب اور دیہی آبادیوں میں رہنے والوں کی زندگیاں تبدیل کررہا ہے۔ یہ شمالی علاقہ جات میں ٹراؤٹ فارمنگ کو فروغ دینے کے لیے شروع کیے گئے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔

مقامی افراد کا زیادہ تر انحصار زراعت اور قدرتی وسائل پر ہے اور ان کے پاس آمدن کے بہت زیادہ مواقع نہیں ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد مچھلیوں کی فارمنگ کے ذریعے کسانوں کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ ناصرف اپنی خوراک کے لیے مچھلیاں پالیں بلکہ ان کو فروخت کرکے پیسے بھی کمائیں۔

آزاد کشمیر میں 3 بڑے دریاؤں یعنی نیلم، جہلم اور پونچھ کے علاوہ کئی ندی، نالے، چشمے اور کنال موجود ہیں، ان میں سے کچھ موسمی بھی ہیں اور کچھ میں سال بھر پانی دستیاب ہوتا ہے۔ یوں اس علاقے میں جدید اور سائنسی بنیادوں پر مچلیوں کی افزائش کی جاسکتی تھی۔

نعیم ڈار آزاد جموں و کشمیر کے محکمہ فارسٹری، وائلڈ لائف اور فشریز کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’تجارتی بنیادوں پر ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش روایتی زراعت کا ایک منافع بخش متبادل ہے کیونکہ یہ کام بہت کم زمین پر بھی کیا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ فارم میں پانی کی فراہمی اور مچھلیوں کی خوراک اور دیکھ بھال کا مناسب انتظام ہو‘۔

آزاد جموں و کشمیر میں مچھلیوں کی مجموعی پیداوار 840 میٹرک ٹن کی ہے۔ یہاں پر مچھلی کے لیے گرم پانی کے 18 اور ٹراؤٹ کے لیے ٹھنڈے پانی کے 7 فارم موجود ہیں۔ یہ فارم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ضلع مظفرآباد، نیلم، جہلم اور باغ میں قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پتیکہ، کٹن، دواریاں، کیل سیری اور تاؤبٹ میں ٹراؤٹ کی ہیچریز قائم کی گئی ہیں۔ چکار میں گرم پانی کی ایک ہیچری قائم کی گئی ہے جبکہ موہاتر چکار، وادی جہلم میں ایک اور ہیچری زیرِ تعمیر ہے۔

مزید پڑھیے: مچھلی کی افزائش کے لیے زیرِ زمین کھارے پانی کا استعمال

مزید 50 فش فارمز پر کام کا آغاز ہوچکا ہے جن میں سے 30 فارم وادی نیلم، لیپہ اور حویلی جیسے ٹھنڈے علاقوں میں ہیں جبکہ گرم پانی کے 20 فارم میرپور، کوٹلی اور بھمبر جیسے علاقوں میں تعمیر کیے جارہے ہیں۔

اس منصوبے کے تحت مختلف مقامات پر ٹراؤٹ مچھلی کے بچوں کی افزائش کے علاوہ سیاحت یا فشنگ ٹورنامنٹ کے ذریعے اسپورٹس فشنگ کو بھی فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

وفاقی حکومت نے آزاد جموں و کشمیر کے لیے 4 کروڑ 30 لاکھ روپے (سال 22ء-2021ء) رکھے ہیں جبکہ نجی شعبے نے فارم میں حصے کے طور پر 2 کروڑ 80 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ نجی شعبے کے فارمز کی تعمیر تقریباً مکمل ہوچکی ہے جبکہ مقامی سطح پر فشریز میں نجی شعبے کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ مالی سال میں ٹراؤٹ مچھلی کے 10 اور گرم پانی کی مچھلیوں کے 8 مزید فارم کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے۔

محکمہ فارسٹری، وائلڈ لائف اور فشریز میں پراجیکٹ منیجر ربیعہ الیاس کے مطابق منصوبے کی تکمیل کے بعد 30 ٹراؤٹ فارمز سے نجی شعبے کو اندازاً 9 کروڑ روپے سالانہ کی آمدن ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہیچریز سے مچھلیوں کے انڈوں کی فروخت سے پبلک سیکٹر سالانہ اندازاً 50 لاکھ روپے کما سکتا ہے‘۔

بخت جان کی زندگی میں خوشیاں لوٹ آئی ہیں۔ وہ اپنے فارم کی ٹراؤٹ مچھلی کو ڈھائی ہزار سے 3 ہزار روپے کلو پر فروخت کرتی ہیں۔ وہ زیادہ تر فیس بک کے ذریعے مچھلیاں فروخت کرتی ہیں جہاں ان کا بیٹا مچھلیوں کی دستیابی کے حوالے سے پوسٹ کرتا ہے۔

بخت جان نے اس آمدنی سے مستقبل کے منصوبے بھی بنا لیے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ابھی سے بچت کرنا شروع کردی ہے۔ میں اس رقم کو اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے خرچ کروں گی اور اب مجھے اس کے لیے مزید پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘۔


یہ مضمون 3 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ساجد میر

لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔