دنیا میں افرادی قوت کی کمی اور پاکستانیوں کے لیے امکانات
ہر موسمِ گرما کی طرح اس مرتبہ بھی لوگ جوق در جوق اورلینڈو، فلوریڈا میں قائم ڈزنی لینڈ کا رخ کررہے ہیں۔ کورونا پابندیوں میں نرمی کی وجہ سے لوگ پُرہجوم جگہوں پر ایک دوسرے سے ملنے میں مطمئن ہیں۔ تاہم اورلینڈو کا رخ کرنے والوں کے لیے ایک سرپرائز موجود تھا۔
اس سرپرائز کی وجہ امریکا میں مزدوروں یا کام کرنے والوں کی کمی ہے۔ اس وقت امریکا میں موجود نوکریاں وہاں دستیاب افرادی قوت سے کہیں زیادہ ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس صورتحال سے ڈزنی لینڈ بھی متاثر ہوا۔ ملازمین کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں کئی جھولے بند کردیے گئے اور ریسٹورنٹس کی دستیابی بھی محدود کردی گئی۔ ڈزنی لینڈ کے مطابق کام کرنے والوں کی کمی سب سے زیادہ لائیو انٹرٹینمنٹ اور ہاسپیٹیلیٹی کے شعبوں میں محسوس کی گئی۔ یہ وہ شعبے تھے جو بعد از کورونا جاب مارکیٹ میں مشکلات کا سامنا کررہے تھے۔
مزید پڑھیے: حکومت کے استحکام کے لیے سمندر پار پاکستانی اہم کیوں ہیں؟
یہ مسئلہ صرف ڈزنی لینڈ تک محدود نہیں بلکہ پورے امریکا میں عوام ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہیں جس کا انہوں نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔
فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس اپنے ڈرائیو تھرو بند کررہے ہیں کیونکہ ان کے پاس وہاں کام کرنے کے لیے عملہ نہیں ہے۔ وال مارٹ اور ٹارگٹ جیسی بڑی سُپر مارکیٹس میں بھی چیک آؤٹ لین پر ایک یا 2 کیشیئر ہی موجود ہوتے ہیں اور سیکڑوں صارف قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ چھوٹے کاروباروں کے لیے یہ کچھ زیادہ ہی مشکل صورتحال ہے، اور ایسے کئی کاروبار بند ہوچکے ہیں کیونکہ ان کے پاس عملہ نہیں ہے۔
امریکی چیمبر آف کامرس کو ’دنیا کی سب سے بڑی کاروباری تنظیم‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق ’کورونا کے دوران ملازمین کو ایسی نوکریوں پر برقرار رکھنا مشکل ہوگیا تھا جن کے لیے کام کی جگہ پر موجودگی ضروری تھی اور روایتی طور پر ان کی اجرت بھی کم تھی۔ مثال کے طور پر نومبر 2020ء کے بعد سے تفریح اور ہاسپیٹیلیٹی اور ریٹیل صنعتوں میں نوکریاں چھوڑنے کی شرح سب سے زیادہ تھی اور یہ مسلسل 4.5 فیصد سے زیادہ ہی رہی‘۔
برطانیہ میں بھی صورتحال اس سے بہتر نہیں ہے۔ گزشتہ کچھ ہفتے کے دوران ہمیں انٹرنیٹ پر ہیتھرو ایئرپورٹ کی پریشان کن تصاویر دیکھنے کو ملیں جہاں مسافروں کے سامان کا انبار لگا ہوا تھا۔ اس ایئرپورٹ کے ذریعے سفر کرنے والے کچھ مسافروں نے بتایا کہ وہ 5 سے 6 دن بعد بھی اپنا سامان حاصل نہیں کرسکے، مگر یہ وہ خوش قسمت لوگ تھے جنہیں فلائٹ مل گئی تھی۔ فرانس کے چارلس ڈی گال ایئرپورٹ پر لوگوں کو سیکیورٹی سے کلیئر ہونے کے لیے اپنی فلائٹ سے قبل 3 گھنٹے سے زائد قطار میں کھڑے رہنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں اتنے سیکیورٹی گارڈز ہی نہیں تھے کہ اس عمل کو تیز کیا جاتا۔
اس بحران کی کوئی ایک وجہ اور کوئی ایک حل نہیں ہے۔ امریکا اور برطانیہ دونوں کی ہی آبادی میں اضافے کی شرح کم ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کورونا کے دوران ہونے والے ’دی گریٹ ریزگنیشن‘ (جس میں لاکھوں امریکیوں نے اپنی کارپوریٹ نوکریوں سے استعفے دیے) کو بھی شامل کرلیں تو آپ کے سامنے جاب مارکیٹ کا موجودہ بحران آجائے گا۔
مزید پڑھیے: کورونا وائرس: ہمارے معمولات میں آنے والی تبدیلی ہی اب ہمارا معمول ہوگا
یہ بات درست ہے کہ لوگ جو نوکریاں چھوڑ رہے ہیں وہ ایسی نوکریاں ہیں جن کا مستقبل بہت زیادہ روشن نہیں ہے۔ ہاسپیٹیلیٹی یا ہوٹلنگ کی صنعت میں کورونا کے دوران اور اس کے بعد تنخواہوں میں کٹوتی دیکھی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس صنعت کی بنیاد کاروباری سفر ہوا کرتے تھے جو اب بہت کم ہوگئے ہیں۔ جہاں تک اسٹورز میں چیک آؤٹ یا شیلف میں اشیا رکھنے کی بات ہے تو سب کو معلوم تھا کہ جلد یا بدیر یہ نوکریاں ختم ہوجائیں گی اور ان کی جگہ روبوٹ یا دیگر قسم کی آٹومیشن لے لے گی۔
تاہم ان سب چیزوں کے بعد بھی لاکھوں نوکریاں دستیاب ہوں گی۔ گزشتہ ہفتے رائس یونیورسٹی کے بیکر انسٹیٹیوٹ نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ غیر امریکی ملازمین اس مسئلے کا حل ثابت ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکا میں مقیم صرف 1.8 فیصد تارکین وطن کھیتی باڑی، ماہی گیری یا فارسٹری کے شعبوں میں کام کرتے ہیں لیکن یہ ان شعبوں کی کُل افرادی قوت کا 35.3 فیصد ہیں۔ اسی طرح تعمیرات، ہوٹلنگ، صفائی ستھرائی اور عمارتوں کی مرمت جیسے کاموں میں بھی تارکین وطن افراد کی خاصی تعداد کام کرتی ہے۔
بیکر انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق موجودہ بحران سے نکلنے کا یہی راستہ ہے کہ امریکا ’ورک بیسڈ‘ ایمیگریشن پروگرامز متعارف کروائے جن کے ذریعے غیرملکی ملازمین کی مدد سے امریکی معیشت میں موجود خلا کو پُر کیا جاسکے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’حکومت کو چاہیے کہ عارضی ویزا کے کچھ موجودہ پروگرامز کو توسیع دے اور اضافی عارضی ملازمین کے لیے مختلف پروگرامز تیار کرے‘۔
اگرچہ اس رپورٹ میں زیادہ توجہ کم ہنرمند مزدوروں پر دی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمپنیاں بھی باصلاحیت ملازمین کے حصول میں پریشانی کا شکار ہیں۔ ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی سائبر سیکیورٹی پر کام کرنے والے ملازمین کی تلاش میں ہیں۔ سائبر سیکیورٹی وینچرز کے مطابق اس وقت امریکا میں سائبر سیکیورٹی کی 7 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں خالی پڑی ہیں۔
مزدور برآمد کرنے والے ملک کی حیثیت سے پاکستان کو بیرون ملک ملازمین کی بڑھتی ہوئی طلب پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
مزید پڑھیے: ’مستقبل ورک فرام ہوم کا ہی ہے‘
امریکا میں تاریکن وطن کے خلاف پائے جانے والے جذبات اور مجموعی طور پر ایک ناقص ایمیگریشن نظام کا مطلب ہے کہ ہر وہ ملازمت جسے آٹومیٹ کیا جاسکتا ہوگا یا اسے ریموٹ ورک پر منتقل کیا جاسکتا ہوگا اسے منتقل کیا جائے گا۔ جن ملازمتوں کے لیے جسمانی مشقت درکار ہوگی وہ ملازمتیں تو میکسیکو اور جنوبی سرحد سے آنے والے ملازمین پوری کردیں گے۔ دیگر ملازمتوں کو آٹومیٹ کرکے بیرون ملک منتقل کردیا جائے گا۔ آٹومیشن سے یہ ہوسکتا ہے کہ سپر مارکیٹوں کے چیک آؤٹ کاؤنٹر جنہیں چلانے کے لیے روایتی طور پر ملازمین موجود ہوتے تھے انہیں اب بیرون ملک بیٹھا کوئی شخص چلارہا ہوگا۔
امریکی نیوز شو 60 منٹس پر حال ہی میں ایک سیگمنٹ نشر کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ کورونا سے قبل امریکا میں ہر 67 نوکریوں میں سے ایک نوکری ریموٹ ہوتی تھی اور اسے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا ملازم انجام دے سکتا تھا۔ کورونا کے بعد کے امریکا میں ہر 7 نوکریوں میں سے ایک نوکری ریموٹ ہوگئی ہے۔ اس وقت ان میں سے اکثر نوکریوں پر امریکی ملازمین ہی موجود ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر اس کی آسانیوں کو پسند کرتے ہیں۔ تاہم یہ ریمورٹ ورک دنیا کے دیگر حصوں میں موجود باصلاحیت لوگوں کے لیے نوکری کا اچھا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس بات کے امکانات تو موجود ہیں کہ امریکی قانون ساز ریموٹ ملازمتوں کی ’برآمد‘ پر پابندی عائد کردیں تاہم اس وقت اس طرح کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ باصلاحیت پاکستانیوں کو چاہیے کہ لِنکڈاِن پر سرگرم ہوں اور ان ملازمتوں کے لیے فعال انداز میں درخواستیں بھیجیں جو ماضی میں ویزا کی وجہ سے ان کے لیے ناقابلِ رسائی تھیں۔ شاید امریکا میں اس وقت ملازمین کی کمی ہو لیکن پاکستان میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو یہاں بیٹھے کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ مضمون 6 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔