گرینڈ ڈائیلاگ ہو سکتا ہے مگر پہلے انتخابات کی تاریخ دیں، فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ گریںڈ ڈائیلاگ کے لیے بالکل تیار ہیں لیکن اس کے لیے پہلے عام انتخابات کی تاریخ دینی پڑے گی۔
اسلام آباد میں سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیرینں مزاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ہم اسمبلی میں بات چیت کے لیے بالکل تیار ہیں مگر اس سے پہلے الیکشن کی تاریخ دی جائے، موجودہ الیکشن کمیشن کو ختم کیا جائے اور ہمارے سیاسی کارکنان کے خلاف درج تمام مقدمات ختم کیے جائیں تو پھر بات ہوگی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) پاکستان کی دہشت گردی اور پاکستان میں دیگردہشت گردی کی سرگرمیوں کے خلاف رینجرز کا بہت اچھا کردار رہا ہے لیکن اس طرح سے رینجرز کا سیاسی استعمال کبھی نہیں ہوا اور ہونا بھی نہیں چاہیے اور اس پر رینجرز کو وضاحت دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے سابق وزرا میں سے کسی ایک پر بھی کرپشن کا کیس ثابت نہیں ہوسکتا، ہم سے پہلے اسحٰق ڈار وزیر خزانہ تھے اور اسٹیٹ بینک کا ڈپٹی گورنر ان کے لیے منی لانڈرنگ کر رہا تھا جبکہ چیئرمین الیکشن کمیشن آف پاکستان ان کے کاغذات ٹھیک کر رہا تھا۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی ‘فون کالز’ پر چلانے کی رپورٹس، ملکی سیاسی صورتحال کشیدہ ہے، فواد چوہدری
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا سب سے پہلے مریم اورنگزیب یہ جواب دیں کہ آپ کے شوہر علی ترین جو اسٹریلیا کے شہری ہیں وہ پاکستان میں تمباکو انڈسٹری کی نمائندگی کر رہے ہیں اور پچھلی حکومت میں آپ کی لابنگ پر تمباکو انڈسٹری کو اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی تھی اور اب پھر علی ترین کی لابنگ کی وجہ سے تمباکو انڈسٹری کواربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مفادات کے اتنے بڑے تضاد کے ساتھ وزیر صاحبہ پریس کانفرنس کرتی ہیں، وزیر خزانہ کی جب پریس کانفرنس ہوتی ہے تو یہ محترمہ کینڈی کرش گیم کھیلتی ہیں مگر جب فیصلہ سازی کا وقت آتا ہے تو اپنے خاوند کے لیے اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ مانگتی ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ان کے خلاف سولر منصوبے پر بھی تحقیقات ہونی چاہیے جو 50 ارب روپے کا منصوبہ ہے جو کہ 33 دنوں میں تیار اور ہر جگہ لگ بھی گیا اور اس منصوبے میں شریف خاندان کی مداخلت پر تحقیقات ہونا لازمی ہے۔
صحافی عمران ریاض کی گرفتاری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے عمران ریاض اور سندھ اسمبلی کے اپوزیشن رہنما حلیم عادل شیخ کو اغوا کیا گیا ہے ہم دیکھ رہے تھے کہ پاکستان میں اس طرح کی اغوا کی واردات کم ہو رہی تھیں لیکن جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے پاکستان کے اندر فاشزم کا ایسا دور واپس آگیا ہے جس کی کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔
یہ بھی پڑھیں: فواد چوہدری کا عدلیہ کو اپنی ساکھ بہتر بنانے کا مشورہ
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے حالات مارشل لا میں بھی نہیں ہوئے کہ جو بھی آپ سے اختلاف کرے اور آواز اٹھائے تو اس کے خلاف پولیس گردی شروع کر دیتے ہیں مگر اب جو نیا طریقہ شروع ہوا ہے اس میں پولیس کے پیچھے اب رینجرز آتی ہے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ میں ڈی جی رینجرز سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کیا ڈیوٹی پر ہیں کیونکہ عام گرفتاریوں میں رینجرز تو شامل نہیں ہوتی یا تو آپ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں موجود ہیں، اس سے پہلے اسلام آباد میں خواتین اور بچوں پر شیلنگ ہوئی جبکہ پاکستان کی تاریخ میں رینجرز نے کبھی بھی شیلنگ نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ بدترین مارشل لا میں بھی افواج کو اس طرح استعمال نہیں کیا گیا تو میں ڈی جی رینجرز کو پیغام دیتا ہوں کہ حوصلہ رکھیں، آپ قانون کے مطابق عمل کریں، عمران ریاض گرفتار ہو تو پیچھے رینجرز کے اہلکار کھڑے ہوتے ہیں، خواتین اور بچوں پر آنسو گیس کی شیلنگ کرنی ہو تو بھی رینجرز کے اہلکار کھڑے ہو جاتے ہیں جس سے اچھا تاثر نہیں جا رہا اور یہ پیغام جارہا ہے کہ پولیس کٹھ پتلی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کی دہشت گردی اور پاکستان میں دیگر دہشت گرد سرگرمیوں کے خلاف رینجرز کا بہت اچھا کردار رہا ہے لیکن اس طرح سے رینجرز کا سیاسی استعمال کبھی نہیں ہوا اور ہونا بھی نہیں چاہیے اور اس پر رینجرز کو وضاحت دینی چاہیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے عمران ریاض کی گرفتاری پر ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بہت اچھے انسان ہیں اور ہمیں بہت ریلیف دیا ہے مگر ان کے اس فیصلے نے معاملہ بہت آسان کردیا ہے کہ اسلام آباد سے بندہ اغوا کیا جائے اور پنڈی کی حدود میں کہیں کہ یہ آپ کی حدود میں نہیں آتا پھر تو ہر معاملے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود ختم ہو جائے گی۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، فواد چوہدری
انہوں نے کہا کہ جس طرح عمران ریاض کو اغوا کیا گیا اور اب جس طرح کی تصاویر سامنے آرہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان پر تشدد کیا گیا ہے، یہ عمل ناقابل قبول ہے اور اسی طرح صحافی ایاز امیر کو اس عمر میں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سے پہلے کی حکومت نے ملک کو ایف اے ٹی ایف میں داخل کیا اور اگر عمران خان کی حکومت نہ ہوتی تو پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیا جاتا۔