تعلقات کی بہتری کے لیے پاکستان اور بھارت دنیا سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
دورِ جدید کی سفارتکاری میں ریاستوں کے مابین معاشی سرگرمیاں ترجیح بن چکی ہیں۔ اس کی ایک مثال امریکا اور چین کے تعلقات ہیں۔ دونوں ہی ممالک دنیا پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن یہ معاشی طور پر ایک دوسرے پر منحصر بھی ہیں۔
سال 2021ء میں امریکا اور چین کے درمیان اشیا اور خدمات کی تجارت تقریباً 755 ارب ڈالر کی تھی۔ اس کے علاوہ چین نے امریکی ٹریژری کی سیکیورٹیز بھی خریدی تھیں۔ اسی طرح بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی جاری رہتا ہے مگر ساتھ ان کی دوطرفہ تجارت اور ان کی ایک دوسرے کے ملک میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
بین الریاستی معاشی سرگرمیوں کی ایک اور خصوصیت مفادات پر مبنی تعلقات اور اتحاد کا سامنے آنا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ 2 ممالک ایک عالمی یا علاقائی مسئلہ پر شراکت دار ہوں اور دوسرے معاملے میں حریف ہوں۔ مثال کے طور پر اٹلی اور جرمنی پڑوسی ممالک ہیں اور دونوں یورپی یونین کے رکن بھی ہیں۔ تاہم اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی اصلاحات کے حوالے سے دونوں کا مؤقف ایک دوسرے سے متصادم ہے کیونکہ جرمنی سیکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بننا چاہتا ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان میں خارجہ پالیسی سے متعلق ہونے والی اہم غلطیاں
چین اور امریکا کی مخاصمت میں بھارت ویسے تو امریکا کا اسٹریٹجک اتحادی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں چین کے اکثر نکات سے اتفاق کرتا ہے۔
اس طرح کی مسابقتی لیکن ایک دوسرے پر منحصر دنیا کے حوالے سے جو چیز آج کی سفارتکاری پر غالب نظر آتی ہے وہ ہے اقتصادی اور دیگر باہمی فوائد کی بنیاد پر قومی مفادات کا حصول۔ ہمارے پاس اس کی کافی مثالیں موجود ہیں۔ بھارت نے گزشتہ کچھ برسوں میں امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کیے ہیں لیکن روس کے ساتھ اپنی روایتی دوستی بھی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ حال ہی میں یوکرین پر حملے کے بعد روس پر لگنے والی مغربی پابندیوں سے قطع نظر بھارت نے روس سے تیل خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی طرح کی ایک اور مثال جاپان اور چین کی بھی ہے۔ تاریخی طور پر ان دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہی رہے ہیں لیکن پھر بھی یہ آپس میں تجارت بھی کرتے ہیں اور سرمایہ کاری بھی۔
شاید اسی وجہ سے گزشتہ ہفتے انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے خطے کے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرکے علاقائی تعاون کے امکانات کو بہتر کرنے پر زور دیا۔ جنوبی ایشیا کے حوالے سے اصل چیلنج پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود عدم اعتماد کی فضا اور مسئلہ کشمیر ہے۔
اس کے علاوہ ایک پیچیدگی یہ بھی ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے ماضی میں موجود بھارت کی تعددیت اور سیکولرازم کی پالیسیوں کو ختم کردیا ہے۔ یہ حکومت ایک ہندو راشٹرا قائم کرنے کے لیے ہندوتوا کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ یہ طرزِ عمل ہندوستان میں ایک ہنگامہ برپا کر رہا ہے جس کے سب سے زیادہ اثرات اقلیتوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔
اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے بھارت اور پاکستان بھی وہی کرسکتے ہیں جو باقی دنیا کر رہی ہے۔ بہتر ہوگا کہ دونوں ممالک کی حکومتیں باہمی رابطے کے علاوہ مختلف اسٹیک ہولڈرز بشمول تاجروں، سرمایہ کاروں، اسکالرز اور کھلاڑیوں کے درمیان رابطے بڑھانے کے مواقع پیدا کریں۔ اس کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کے عوام کو علاقائی امن میں اسٹیک ہولڈر بنانا ہے۔
مزید پڑھیے: چین یا امریکا؟ کسی ایک ملک کا انتخاب پاکستان کے لیے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟
سب سے زیادہ امید افزا پہلو دو طرفہ تجارت کا ہوگا جو دونوں طرف امن کے فروغ میں مدد دے گا۔ سرمایہ کاری میں دونوں جانب کچھ نہ کچھ داؤ پر لگا ہوتا ہے اس وجہ سے یہ قیامِ امن کو یقینی بناتی ہے۔ کئی تحقیقات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تجارت دونوں ممالک کی معاشی بہبود کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔
تعلقات کی مکمل معطلی سے امن کے مخالفین کو فائدہ ہوتا ہے۔ پاکستان اکثر بھارت سے یہ شکوہ کرتا رہا ہے کہ جب بھی کوئی دہشتگرد حملہ ہوتا ہے تو بھارت پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو معطل کردیتا ہے اور یوں دہشتگردی کرنے والوں کے مقاصد پورے ہوجاتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو روکا جاتا ہے۔
ہندوستان کی یہ پالیسی دونوں ممالک کے لیے نقصاندہ ہے۔ مثال کے طور پر 2008ء کے ممبئی حملوں کے فوری بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات معطل کردیے تھے۔ یوں فارمرز ایسوسی ایشن آف پاکستان اور چندی گڑھ کے سینٹر فار ریسرچ ان رورل اینڈ انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کے درمیان ذراعت سے متعلق شراکت داری کے حوالے سے ہونے والا کافی مثبت کام ضائع ہوگیا۔ اگر بھارت مذاکرات کو ختم نہ کرتا تو اس شراکت داری کے تحت دونوں ممالک کا فائدہ ہوسکتا تھا۔
مزید پڑھیے: پاک بھارت رابطے: پاکستان کو کن معاملات پر ہوشیار و خبردار رہنا ہوگا؟
پاکستانی رہنماؤں، پالیسی نافذ کرنے والوں، سفارتکاروں اور اسکالرز کو چاہیے کہ پاکستان کے قومی مفادات کو شہریوں کی سماجی اور معاشی بہبود کی صورت میں دیکھیں۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی معاشی سرگرمی کے لیے تحفظ ایک بنیادی ضرورت ہے۔ تاہم نئی سوچ یہ ہے کہ بنیادی مسائل بشمول مسئلہ کشمیر پر اپنی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے پڑوسیوں اور دیگر مالک کے ساتھ معاشی تعلقات قائم کیے جائیں کیونکہ وہ ہمارے ملک کو کہیں زیادہ محفوظ بنائیں گے۔
رواں سال کے آغاز میں جو قومی سلامتی پالیسی پیش کی گئی اس میں بھی بالکل درست طور پر معاشی سلامتی کو مقدم رکھا گیا۔ پاکستان کو چاہیے کہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ایسا مرکزی ملک بن جائے جو جنوبی ایشیا کو مغربی اور وسطی ایشیا کے ساتھ جوڑ سکے۔ یہ اس نارتھ-ساؤتھ رابطے کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا جس کی کوشش پاکستان اور چین سی پیک کی صورت میں کررہے ہیں۔
یہ مضمون 3 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز اسلام آباد کے ڈی جی اور کتاب ’ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس‘ کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔