لاسا وائرس: کیا ایک نئی وبا سر اٹھا رہی ہے؟
کورونا کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ دنیا میں مزید وبائی امراض پھیلیں گے۔ اب کورونا نئی لہر کے ساتھ موجود ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک کے بعد ایک چھوٹے بڑے وبائی امراض تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں۔ ان وبائی امراض میں ایک نیا مرض ’لاسا بخار‘ بھی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور دوسرے عالمی ادارے بھی اس پر بات کررہے ہیں۔
چینی خبر رساں ادارے نے نائیجیریا سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (این سی ڈی سی) کی تازہ ترین رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک لاسا بخار کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 782 تک پہنچ چکی ہے جبکہ 4 ہزار 939 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ نائیجیریا میں رواں سال 18 جون تک لاسا بخار سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 155 ہوگئی ہے۔
کیا جانوروں سے انسانوں میں بیماریوں کی منتقلی کا خطرہ بڑھ رہا ہے؟
یہ خبر انسانوں کے لیے خطرناک ہے کہ جانوروں میں پائی جانے والی بیماریاں اب انسانوں میں تیزی سے منتقل ہونے لگی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ہنگامی ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ریان مائک کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے معاشرے میں بیماریوں کے بڑھنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جو تشویشناک ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث خشک سالی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے خوراک کی تلاش سمیت دیگر عوامل میں انسان اور جانور اپنا رویہ تبدیل کررہے ہیں، اسی وجہ سے جانوروں میں پائی جانے والی بیماریاں تیزی سے انسانوں میں منتقل ہورہی ہیں۔
جانوروں میں پائی جانے والی وہ بیماریاں جو انسانوں میں تیزی سے منتقل ہونے لگی ہیں ان میں ایبولا وائرس، سارس، زیکا وائرس، ایم ای آر ایس وائرس اور رِفٹ ویلی وائرس اہم ہیں لیکن اب اس کے علاوہ کانگو کا نام پھر سننے کو مل رہا ہے۔ حال ہی میں عیدالاضحٰی پر کانگو وائرس پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر قومی ادارہ برائے صحت نے وفاقی اور صوبائی وزارتِ صحت اور متعلقہ محکموں کو ایڈوائزری جاری کی ہے۔
کانگو وائرس ایک قسم کے کیڑے سے پھیلتا ہے جو گائے، بھینس، بھیڑ، بکریوں اور اونٹ کی جلد میں پایا جاتا ہے اور متاثرہ کیڑے کے کاٹنے سے یا متاثرہ جانور کو ذبح کرنے کے دوران یا فوراً بعد اس کا خون صحت مند انسان کے جسم پر لگنے سے کانگو وائرس انسانوں میں منتقل ہونے کے بہت امکانات ہوتے ہیں۔ اس کی علامات میں فوری تیز بخار، چکر آنا، جسم میں درد، خون بہنا اور جسم پر دھبے پڑ جانا شامل ہیں۔ کانگو وائرس سے شرح اموات 10 سے 40 فیصد ہے۔
اسی طرح اس وقت دنیا میں منکی پاکس (monkeypox) کے مریض بھی سامنے آرہے ہیں۔ یہ مرض خاصی حد تک چیچک جیسا ہے اور اس وائرس سے انفیکشن ہونے کی صورت میں انسانوں میں چیچک سے ملتی جلتی علامات نمودار ہوتی ہیں۔
اگر تھوڑا پیچھے جائیں تو منکی پاکس پہلی بار 1958ء میں بندروں میں پایا گیا تھا جبکہ 1970ء میں انسانوں میں پہلا کیس ریکارڈ کیا گیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بخار چوہے، گلہری یا کسی دوسرے متاثرہ جانور کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس بات کو حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ منکی پاکس کے پھیلاؤ کو مکمل طور پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے یا نہیں کیونکہ آنے والے مہینوں میں بہت سے تہوار اور بڑی تقریبات ہونے والی ہیں، ایسے میں یہ مزید پھیل سکتا ہے۔
ڈان کی خبر کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے مطابق گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران منکی پوکس کے 3 ہزار 200 سے زائد تصدیق شدہ کیسز اور ایک موت کا کیس ان 48 ممالک میں سامنے آیا جہاں یہ عمومی طور پر نہیں پھیلا۔
یہ بڑا خطرہ ہے اور بعض عالمی ماہرین صحت نے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے منکی پاکس کے حوالے سے ہنگامی صورتحال کا اعلان کرنے میں اس وجہ سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے کیونکہ ماضی میں کورونا وائرس کی وبا کو صحتِ عامہ کی ہنگامی صورتحال قرار دینے کے اعلان پر دنیا بھر میں کئی جگہ شکوک و شبہات نے جنم لیا تھا۔ اسی لیے ییل یونیورسٹی میں ایپیڈیمولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر گریگ گونسالوز نے عالمی ادارہ صحت کے اس فیصلے کو ’گمراہ کن‘ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’منکی پاکس کی وبا عالمی سطح پر صحتِ عامہ کی ہنگامی صورتحال قرار دیے جانے کے تمام معیارات پر پورا اترتی ہے لیکن انہوں [ڈبلیو ایچ او] نے اس ضروری اقدام کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا‘۔
خیال یہی ہے کہ لاسا بخار ابھی تک چند ملکوں تک محدود ہے لیکن اس کے پھیلنے کے پورے خدشات اور امکانات موجود ہیں۔ یہ وائرس ان متعدد وائرسوں میں سے ایک ہے جن کی شناخت ڈبلیو ایچ او نے مستقبل کی وبا کی ممکنہ وجہ کے طور پر کی ہے۔ اس لیے وہ اسے فوری تحقیق اور اس کے بارے میں جاننے کے ٹیسٹ، ویکسین اور ادویات کی تیاری کی تحقیقات پر بات کررہے ہیں۔
کیا لاسا ایک نئی بیماری ہے؟
منکی پاکس کی طرح لاسا بھی ایک پھیلنے والا وائرس ہے۔ یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے لیکن اس کی موجودہ لہر غیر معمولی ہے۔ لاسا کا شکار انسان کس کیفیت سے گزرتا ہے یہ جاننے کے لیے ہم آپ کو لیے چلتے ہیں افریقی ملک نائیجیریا کے ایک قصبے ایکپومانا میں۔
لاسا کی متاثرہ 41 سالہ ماریان اس بخار کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’لاسا بخار میں مبتلا ہونے کے بعد میری طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ میرے گھر والوں کے لیے بھی یہ ایک بھیانک تجربہ تھا، میں نہیں چاہوں گی کہ میرے آس پاس بھی کوئی اس مرض کا شکار ہو کیونکہ میں ہی نہیں میرے 4 بچے بھی اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ میں درد و تکلیف کے جس کرب سے گزری تھی اس کی یاد بھی میرے لیے ایک تکلیف بن گئی ہے‘۔
ریلیف ویب اور این این این کی رپورٹ میں ماریان نے بتایا کہ ’لاسا سے متاثر ہونے اور اس سے باہر نکلنے کے بعد، میں اپنے کھانے کو اچھی طرح سے محفوظ رکھتی ہوں، ہمیشہ اپنے ہاتھ دھو کر اور ذاتی اور ماحولیاتی صفائی کو بہتر بناکر اپنے خاندان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتی ہوں اور اس حوالے سے زیادہ خیال رکھتی ہوں۔ میں اپنے گھر میں چوہوں کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے اقدامات کرتی ہوں کیونکہ معلوم ہوا ہے کہ جانوروں بلکہ چوہوں کی ایک خاص قسم سے یہ انسانوں میں پھیل رہا ہے‘۔
لاسا بخار کہاں سے آیا ہے؟
لاسا بخار کے حوالے سے ہم میں سے بہت سے لوگ کچھ زیادہ نہیں جانتے اور شاید بہت سوں کے لیے یہ نام بھی اجنبی ہو۔ یہ چوہوں کے اندر پائی جانے والی بیماری ہے جس کا پھیلاؤ اب کئی ممالک میں دیکھا جارہا ہے۔ لاسا بخار کا ذکر 1950ء کی دہائی میں آیا تھا لیکن اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔ پھر 1969ء میں اس بخار کا سبب بننے والے وائرس کی سب سے پہلے نائیجیریا کے گاؤں ’لاسا‘ میں شناخت کی گئی۔ اس وقت مقامی اسپتال کی 2 نرسیں ہلاک بھی ہوئی تھیں، جن کے انتقال کے بعد یہ معلوم ہوا تھا کہ انہیں لاسا بخار تھا۔
یہ بخار نائیجیریا کے علاوہ دیگر افریقی ممالک مثلاً گھانا، گِنی، لائبیریا، مالی اور سیرالیون میں تو مقامی طور پر جانا جاتا ہے لیکن اب امریکا اور یورپ میں بھی اس کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ یہ مرض برطانیہ میں بھی رپورٹ ہوچکا ہے اور فروری میں ہی 3 متاثرین میں سے ایک متاثرہ شخص ہلاک بھی ہوا تھا۔
مغربی افریقہ میں صحتِ عامہ کے اہلکاروں کو دیگر جان لیوا بیماریوں کے ساتھ ساتھ سال میں کم از کم 2 بار لاسا بخار سے بھی لڑنا پڑتا ہے۔ اس بیماری سے ہر سال 3 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوتے ہیں اور سالانہ 5 ہزار سے زائد اموات ہوتی ہیں۔
لاسا بخار انسانوں میں کیسے پھیلتا ہے؟
یہ ایک آر این اے [RNA] وائرس ہے جس کا تعلق وائرس فیملی Arena viridae سے ہے۔ یہ قدرتی طور پر عام جنگلی چوہے نما ممالیہ کی ایک قسم میں پایا جاتا ہے جسے ملٹی میمیٹ (multimammate) چوہا کہا جاتا ہے، جو انسانوں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہ سکتا ہے۔ مغربی، وسطی اور مشرقی افریقہ میں یہ چوہے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ گھروں اور دوسری ایسی جگہوں میں رہتے ہیں جہاں لوگ کھانا ذخیرہ کرتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ چوہے خود بیمار نہیں ہوتے بلکہ اپنے پیشاب اور پاخانے میں وائرس چھوڑتے ہیں۔ اس طرح متاثرہ چوہوں سے لاسا بخار لگنے کا خطرہ رہتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں لیبارٹری ٹرانسمیشن بھی ہوسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ خطرے میں وہ لوگ ہیں جو دیہی علاقوں میں رہتے ہیں یا ہجوم اور غیر صحت بخش حالات میں رہتے ہیں۔ یہ وائرس اسپتال سے بھی تیزی سے پھیلتا ہے۔
لاسا بخار سے کون لوگ زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں؟
یہ ایسا بخار ہے جسے ایبولا کی طرح ’وائرل ہیمرجک بخار‘ (وی ایچ ایف) کہا جاتا ہے۔ عمومی طور پر اس وائرس میں صرف ہلکی علامات ظاہر ہوتی ہیں جیسے سر درد، گلے کی سوزش اور بخار۔ کہا جاتا ہے کہ 80 فیصد لوگ زیادہ بیمار نہیں ہوتے جبکہ 20 فیصد شدید بیمار ہوسکتے ہیں۔ اس وائرس سے متاثرہ لوگوں کو طویل مدتی معذوری کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ حاملہ خواتین خاص طور پر اس وائرس کا شکار ہوتی ہیں اور 80 فیصد کیسز میں یہ وائرس یا تو ماں یا بچے یا بعض اوقات دونوں ہی کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایک سے 3 فیصد تک کیسز میں لاسا بخار جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ جگر، دماغ، آنت اور پھیپھڑوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ شدید صورتوں میں خون بہنا یا بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور بعض لوگ صدمے، دورے یا کوما میں بھی جاسکتے ہیں۔ زندہ رہنے والے ایک چوتھائی لوگ اپنی سماعت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے ابھی تک یہ نہیں سمجھا جاسکا کہ کچھ لوگوں کو شدید بیماری کیوں ہوتی ہے اور خطرے کی آخر واضح وجہ یا عوامل کیا ہیں؟
لاسا کی تشخیص کے حوالے سے ڈاکٹر کیا کہتے ہیں؟
لاسا بخار کو دوسرے وائرل ہیمرجک بخار (وی ایچ ایف) جیسے ایبولا وائرس یا پیلیا، بشمول ملیریا یا ٹائیفائیڈ بخار سے الگ کرنا مشکل ہے، اس کی تشخیص کے لیے لیبارٹری ٹیسٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کسی بھی شخص میں منکی پاکس وائرس ہے یا نہیں اسے جانچنے کے لیے مؤثر ترین طریقہ پولی میریس چین ری ایکشن (پی سی آر) ٹیسٹ ہے۔
ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلو ڈاؤ میڈیسن اینڈ انفیکشن ڈیزیز ڈاؤ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ آپ لاسا اور جانوروں سے پھیلنے والی دیگر بیماریوں سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’یہ بیماری انڈیمک ہے۔ افریقی ممالک میں عام سی بات ہے۔ لاسا کا ابھی پاکستان میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، افریقی ممالک سمیت دیگر ممالک جہاں یہ کیس زیادہ رپورٹ ہورہے ہیں وہاں پی سی آر ٹیسٹ سے اس کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ ایک ایلیزا (ELISA) ٹیسٹ بھی ہوتا ہے جس سے ایٹی باڈیز کا پتہ لگایا جاسکتا ہے‘۔
اس کی ویکسین کے حوالے سے ڈاکٹر عزیز اللہ کا کہنا تھا کہ ’ویکسین کی تیاری ایک طویل، پیچیدہ اور مہنگا عمل ہے۔ لاسا وائرس کی کوئی ویکسین تاحال دستیاب نہیں ہے، اس پر تحقیق ہورہی ہے جس میں تھوڑا وقت لگے گا‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ جانوروں سے وائرس افریقی ممالک سے ہی کیوں پھیلتے ہیں؟ ڈاکٹر عزیز کا کہنا تھا کہ ’اس کی وجہ طرزِ زندگی ہے، ان کا جانوروں سے تعلق بہت زیادہ رہتا ہے، اکثر وہ انہیں پکائے بغیر کچا بھی کھاتے ہیں‘۔
ہم نے ڈاکٹر عزیز اللہ سے سوال کیا کہ چوہے ہمارے پڑوسی ملک میں بھی بہت پسند کیے جاتے ہیں اور لوگ ان کی پوجا بھی کرتے ہیں تو کیا ان کو بھی لاسا کا خطرہ نہیں؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس وائرس کی بنیادی وجہ بھی چوہے ہیں۔ ان سے ہی یہ بیماری لگتی اور پھیلتی ہے۔ لہٰذا ان سے دُور رہنا چاہیے اور اگر پکڑنا بھی ہو تو چوہوں کو دستانے کے بغیر پکڑنا یا چھونا نہیں چاہیے۔ اسی طرح جو لوگ چوہے کھاتے ہیں وہ زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ لاسا جیسی بیماری اتنی جلدی یعنی کورونا کی طرح نہیں لگتی اور نہ پھیلتی ہے۔ یہ اس کے مقابلے میں کم پھیلنے والی اور ایک لحاظ سے کم خطرناک ہے، اس لیے بہت زیادہ تشویش کی بات نہیں ہے‘۔
ڈاکٹر عزیز کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک بات ڈبلیو ایچ او کی ہے تو الرٹ کرنا ان کا مینڈیٹ ہے۔ بس اہم بات یہ ہے کہ لاسا اور اس سے ہٹ کر بھی ہمیں غیر ضروری طور پر جانوروں کو ہینڈل نہیں کرنا چاہیے اور چوہوں کو تو بغیر دستانے کے ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہیے، انہیں بھگانے کے لیے دواؤں کا استعمال کرنا چاہیے کیونکہ لاسا کے علاوہ بھی بہت سی بیماریاں چوہوں سے ہوسکتی ہیں۔ ایک دور میں دنیا ان چوہوں کی وجہ سے ہی طاعون کی بیماری کا شکار ہوئی تھی۔ ہم جو جانوروں کا دودھ یا گوشت استعمال کرتے ہیں اسے ابال کر اور ٹھیک طریقے سے پکا کر استعمال کرنا چاہیے۔ کچا گوشت اور دودھ صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور بیماریاں لگنے کا خطرہ ہوسکتا ہے‘۔
اس وائرس سے زیادہ بیمار ہونے والا مریض اسپتال آتا ہے جہاں اس سے یہ وائرس دوسرے مریضوں اور اسٹاف میں منتقل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، خاص طور پر ان اسپتالوں میں جہاں صفائی ستھرائی کا بہت زیادہ خیال نہیں رکھا جاتا اور کسی انفیکشن سے بچاؤ کے مناسب اقدامات نہیں ہوتے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس وائرس کے ہوا سے پھیلنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا تاہم لاسا وائرس کی جنسی منتقلی کی اطلاعات ملی ہیں۔ جس طرح ایبولا اور نیپا وائرس منہ، ناک، خون، متلی سے پھیلتا تھا، لاسا وائرس بھی جسم میں ایسے ہی داخل ہوجاتا ہے۔
جانوروں سے پھیلنے والے وائرس سے کیسے بچا جائے؟
یہ بہت اہم سوال ہے کہ منتقل ہونے والے وائرس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے خاص طور پر اس کی منتقلی روکنے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ لاسا وائرس سے متاثرہ افراد میں کوئی علامت نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ بیماری بین الاقوامی منتقلی کے ذریعے آسانی سے پھیل سکتی ہے۔
ہمیں خاص طور پر افریقی یا متاثرہ ممالک سے آنے والوں کو اسکریننگ کے عمل سے گزارنا ہوگا، بعض جگہ لوگ چوہوں سے خصوصی عقیدت بھی رکھتے ہیں، ایسے لوگوں کو احتیاط کرنی ہوگی۔ گھروں میں چوہوں کے داخلے کو روکنا ہوگا اور کھانے پینے کی اشیا کو چوہوں سے محفوظ رکھنا ہوگا۔اچھی بات یہ ہے کہ فی الحال یہ مرض اینڈمک ہے اور مخصوص جگہوں پر ہے، لیکن ابھی تک اس کی کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی ہے اور اس کا حل صرف احتیاط ہے جس کے پروٹوکول اور گائیڈ لائن کورونا والی ہی ہے۔ بس اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں، یوں ناصرف لاسا بخار بلکہ دیگر وائرس اور بیماریوں سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے اور اینڈمک لاسا کو پینڈمک بننے سے روکا جاسکتا ہے۔
لکھاری ڈاکٹر آف فارمیسی ہیں۔ غذا، صحت، سماج اور ادب ان کے موضوعات ہیں جن سے متعلق ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔