پاکستان

حمزہ شہباز وزیراعلیٰ رہیں گے، دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہوگا، سپریم کورٹ

گورنر کو صوبہ چلانے کا اختیار دینا غیر آئینی ہوگا، آئین کے تحت منتخب نمائندے ہی صوبہ چلا سکتے ہیں,چیف جسٹس
|

سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب برقرار رکھتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق وزارت اعلیٰ کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی کے درمیان اتفاق رائے ہونے پر عدالت عظمیٰ نے حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے وقفے کے بعد سماعت شروع کی تو پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ17 جولائی تک حمزہ شہباز وزیر اعلی رہیں گے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور حمزہ شہباز کے وکیل سے مشاورت ہوئی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صوبے میں دو صوبائی اسمبلیاں چل رہی ہیں، کون سی اسمبلی رہے گی کیا اس پر بھی اتفاق ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ دو مخالف گروپس کے درمیان اتفاق رائے ہوا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ کسی حد تک سیاسی گروپس میں اتفاق ہوا ہے، یہ دونوں جانب کی کامیابی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق موجود ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خاندانی تنازع کا فیصلہ نہیں کر رہے ہیں، خاندانی تنازع پر چھوٹے چھوٹے مسائل ہوتے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ دونوں سائیڈ گریس کا مظاہرہ کریں، فیصلہ ایوان میں ہونے دیں۔

بابراعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد یقینی بنانے کا حکم دیں گے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت مجموعی حکم جاری کرے گی، چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہیں پڑے گی۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ کیس کو خاندانی تنازع نہ بنائیں تو بہتر ہے، چھوٹی چھوٹی باتیں خاندانی مسائل میں ہوتی ہیں، لگتا ہے آپ کو عدالتی نظام پر بڑی تشنگی لگتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جواب نہیں دے سکتے ہیں، آپ بہت کامیاب وکیل اور قابل شخص ہیں، پیٹھ پیچھے تنقید کرنے کا کلچر اچھا نہیں ہے، آپ تین ماہ سے لڑ رہے ہیں، اب دیکھیں مسئلہ حل ہو گیا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ میدان میں مقابلہ کریں جو بہتر ہوگا وہ جیت جائے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو دونوں فریقین کو قابل قبول ہوں گے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ حمزہ کیا آپ کا اراکین کو ہراساں کرنے اور دھاندلی کا کوئی ارادہ ہے، جس پر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے کہا کہ متفق ہوں کہ کسی کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ سیاسی ورکر ہوں، جیلیں کاٹی ہیں، صاف شفاف انتخابات یقینی بنائے جائیں گے۔

حمزہ شہباز کیلئے قائم مقام کا لفظ استعمال نہیں کریں گے، چیف جسٹس

فواد چوہدری نے عدالت سے کہا کہ حمزہ شہباز منتخب وزیراعلیٰ نہیں ہیں اور وہ قائم قام وزیراعلی ہوں گے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ حمزہ شہباز کے لیے قائم مقام کا لفظ استعمال نہیں کریں گے، عدالت پر باتیں کرنا بہت آسان ہے، ججز جواب نہیں دے سکتے، توہین عدالت کا اختیار استعمال کریں تو آپ کی روز یہاں حاضری لگے گی جبکہ ہم نے تین ماہ کا بحران تین سیشنز میں حل کر دیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیاست دان اپنے مسئلے خود حل کریں، اگر ہمارے پاس آئیں گے تو پھر ہماری بات ماننا پڑے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے ہم حکم جاری کریں گے کہ پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کا انتخاب 22 جولائی کو ہوگا۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوگا اور اس وقت تک حمزہ شہباز بدستور وزیر اعلی رہیں گے اور اس پر تمام فریقین نے اتفاق کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخاب 17 جولائی کو شیڈول ہے، جس کے بعد پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تعداد مکمل ہوگی۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی درخواست پر سماعت

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف نے آج صبح ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں منحرف اراکین کے ووٹ شمار کیے بغیر آج ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

پی ٹی آئی کی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے بینچ تشکیل دیا تھا، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل تھے۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ میں بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ‏لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ جس جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے، وہ ایک نکتے پر متفق بھی ہوئے ہیں، سادہ سی بات ہے کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنہوں نے 197 ووٹ لیے ہیں ان میں سے 25 ووٹ نکال دیے ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ ‏ہماری استدعا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اراکین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی درخواست میں یہ بات نہیں، ہم آپ کی درخواست کو پڑھ کر آئے ہیں، بنیادی طور پر آپ یہ مانتے نہیں کہ فیصلہ آپ کے حق میں ہوا ہے، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ اصولی طور پر اس فیصلے کو مانتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 4 ججز نے آج کی اور ایک جج نے کل کی تاریخ دی ہے، کیا آپ کل کی تاریخ پر راضی ہیں؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جو اراکین کہیں گئے ہوئے ہیں وہ 24 اور 48 گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں۔

'اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ جو ارکان دستیاب نہیں ان کا انتظار کیا جائے، جسٹس اعجاز الاحسن

بابر اعوان نے کہا کہ 16 اپریل کو وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن ہوا جس میں ایوان میں لڑائی ہوئی، لڑائی جھگڑے کے بعد پولیس کو ایوان میں طلب کیا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دوسری سائیڈ کا کہنا ہے انہوں نے 197 ووٹ لیے، عدالت نے کہا کہ رن آف الیکشن میں جو اکثریت حاصل کر لے وہ منتخب ہوگا، لاہور ہائی کورٹ نے ان 25 ووٹو ں کا نکال کر گنتی کا حکم دیا تھا، عدالت نے پہلے ووٹوں کی گنتی کا حکم دیا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کے کچھ اراکین دستیاب نہیں ہیں، موجودہ کا مطلب ہے اس وقت جتنے لوگ ایوان میں دستیاب ہوں وہ ووٹ دیں، میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا جو ارکان دستیاب نہیں ان کا انتظار کیا جائے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ نے کہا ہے 197 میں سے 25 نکال دیں، 25 ووٹ نکالنے کے بعد حمزہ شہباز کا انتخابات درست نہیں رہتا، انتخاب کے دوسرے راؤنڈ میں سادہ اکثریت یعنی 186 کی ضرورت نہیں، آپ کا مؤقف ہے کہ ہمارے ارکان بیرون ملک ہیں۔

بابر اعوان نے مؤقف اپنایا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ارکان کا انتظار کیا جائے، مناسب وقت ملنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ ارکان ووٹنگ میں شامل ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہے، ہم کس طرح اجلاس کی تاریخ میں مداخلت کریں، کیا اختلافی جج والی 2 جولائی کی تاریخ ووٹنگ کے لیے مقرر کردیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے ارکان کو صوبائی اسمبلی پہنچنے مین کتنے گھنٹے لگیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اختلافی نوٹ میں ووٹنگ کی تاریخ کل کی ہے، کیا آپ کل ووٹنگ پر تیار ہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملک کے اندر موجود ارکان ایک دن میں پہنچ سکتے ہیں۔

دوران سماعت پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابی عمل کے لیے 7 دن کا وقت مانگ لیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 7 دن کا وقت دینا مناسب نہیں، آپ کے ارکان کو اسمبلی میں پہنچنے میں 24 گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

بابر اعوان نے کہا کہ ہمارے ارکان کا نوٹی فکیشن الیکشن کمیشن نے جاری نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ پنجاب سات دن تک وزیر اعلی کے بغیر رہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں کیا لکھا ہے کہ وزیر اعلیٰ دستیاب نہ ہو تو صوبہ کون چلائے گا، وزارت اعلیٰ کا جب الیکشن ہوا تو ’63 اے‘ واضح نہیں تھا۔

بابر اعوان نے کہا کہ میرے ذہن میں دس دن کا وقت تھا لیکن سات دن کا عدالت سے مانگا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلے مناسب وقت پر بات مکمل کریں پھر دوسرا نقطہ سنیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانونی طریقے سے منتخب وزیر اعلیٰ کو گورنر کام جاری رکھنے کا کہہ سکتا ہے، جب وزیر اعلیٰ نہیں ہوگا تو کابینہ بھی موجود نہیں رہے گی۔

ضمنی الیکشن تک صوبے کو چلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ چاہتی ہے کہ صوبہ میں حکومت قائم رہے، نگراں وزیر اعلیٰ تب ہو سکتا ہے جب الیکشن ہو رہا ہو، تحریک انصاف نے اپنی اکثریت ثابت کرنی ہے، حمزہ شہباز کو ملے 25 ووٹ نکل گئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 25 نکال کر تحریک انصاف کے کتنے ارکان باقی ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ 25 ووٹ نکال کر ہمارے ارکان 169 بنتے ہیں، اس پر عدالت نے کہا کہ اس کا مطلب ہے آپ کے پاس اکثریت نہیں ہے، جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ ایوان میں کسی کے پاس اکثریت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر صوبے کے معاملات کو چلائے یہ غیر آئینی ہوگا، 17 جولائی کو عوام نے 20 نشستوں پر ووٹ دینے ہیں، ضمنی الیکشن تک صوبے کو چلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ عوام خود فیصلہ کریں تو جمہوریت زیادہ بہتر چل سکتی ہے، گورنر کو صوبہ چلانے کا اختیار دینا غیر آئینی ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت منتخب نمائندے ہی صوبہ چلا سکتے ہیں، ہم آپ کو آدھا گھنٹہ دیتے ہیں سر جوڑیں اور سوچیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے پر ہی نگراں حکومت بن سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کو صوبہ چلانے کا اختیار دینا غیر آئینی ہوگا، آئین کے تحت منتخب نمائندے ہی صوبہ چلا سکتے ہیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت 2 بجکر 45 منٹ تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ اس نقطے پر تیاری کریں، آدھے گھنٹے میں دوبارہ سماعت ہوگی۔

حمزہ شہباز، پرویز الہٰی کی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں طلبی

دوبارہ سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آج وزیر اعلیٰ کا انتخاب نہیں ہوگا اس پر سب متفق ہیں، مسئلے کے تین حل ہیں۔

اس کے ساتھ ہی عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کو ویڈیو لنک پر لاہور رجسٹری میں طلب کر لیا۔

عدالت عظمیٰ کے طلب کرنے پر وزیراعلی پنجاب حمزہ شہباز اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچ گئے۔

سماعت کے دوران اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی پنجاب برقرار رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ضمنی الیکشن والی بات وزن کھتی ہے، میرے حساب سے سات دن کا وقت دینا بہت زیادہ ہے، حمزہ شہباز کی وزارت اعلی پر اعتراض نہیں تو نقطہ صرف وقت کا ہے، واضح ہے کہ آج چار بجے والا الیکشن نہیں ہو سکتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حمزہ شہباز کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب برقرار رکھنے پر اعتراض نہیں تو نقطہ صرف الیکشن کے وقت کا رہ گیا، 7 دن کا وقت مناسب نہیں لگتا، اختلافی نوٹ میں دیے گئے وقت میں ایک دن کا اضافہ ہوسکتا ہے، دوبارہ ووٹنگ کے لیے مناسب وقت ہونا چاہیے، وقت 24 گھنٹے ہو، 36 گھنٹے ہو یا 48 گھنٹے ہو۔

پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ہماری 5 مخصوص نشتوں کا نوٹی فیکیشن نہیں ہوا، ہمارے کچھ ارکان حج پر گئے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز شریف کو بلا لیں، یہ کسی کی انا کا مسئلہ نہیں ہے۔

مجھے حمزہ شہباز پر اعتبار نہیں، پرویز الہٰی

اس کے ساتھ ہی کیس کی سماعت چار بجے تک ملتوی کردی گئی۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں تحریک انصاف کی اپیل پر سماعت کے آغاز پر وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور چوہدری پرویز الہٰٰی روسٹرم پر آ گئے۔

عدالت نے ویڈیو لنک پر پرویز الہٰی سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی نے یہ کہا ہے کہ حمزہ شہباز وزیر اعلی رہیں، انہیں کوئی اعتراض نہیں ، کیا یہ بات درست ہے؟

چوہدری پرویز الہٰی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دراصل ایسا نہیں ہے، آج بھی اسمبلی میں پولیس تعینات کی گئی ہے، مجھے ان پر بالکل اعتبار نہیں ہے۔

اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں جمہوری روایات برقرار رہیں ،اسی لیے آپ دونوں کو طلب کیا گیا، اپیل کنندہ کی درخواست ہے کہ ری پول کے لیے 26 گھنٹے کا وقت دیا گیا جو کم ہے، آپ کے وکیل نے 7 روز مانگے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے ووٹنگ کے وقت کا ہے، کہا گیا کہ مناسب وقت پولنگ کے لیے نہیں دیا گیا، ایک سوال یہ ہے عدالت وقت دے تو حکومت کون چلائے گا، آئین کے مطابق صوبہ وزیر اعلی کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا، چوہدری پرویز الہٰی کا حمزہ شہباز کے بطور وزیر اعلیٰ رہنے پر کوئی اعتراض ہے؟

پرویز الہٰی نے کہا کہ جب سے حمزہ شہباز وزیر اعلی ہیں، آج بھی سارا کنٹرول پولیس نے سنبھالا ہوا ہے،عدالت نے جو فرمانا ہے عدالت کے حکم کو بجا لانا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئینی بحران بڑھتا جا رہا ہے، اس بحران کو اچھے طریقے سے آئین کے مطابق حل کیا جائے۔

چوہدری پرویز الہٰی نے کہا کہ کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہاں پہ کہا گیا ارکان دستیاب نہیں، کہا گیا کہ پانچ مخصوص نشتوں پر بوٹی فیکیشن نہیں ہوا، کہا گیا کہ ضمنی الیکشن تک آپ کو حمزہ شہباز پر اعتراض نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ عدالت سے کہا گیا کہ ووٹنگ کا وقت بڑھایا جائے، عدالت سے 7 دنوں کا وقت مانگا گیا، عدالت نے کہا وقت مناسب نہیں تو وقت بڑھایا جا سکتا ہے، ارکان کو اکھٹا کرنے والی بات نہیں ہو سکتی۔

پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ ہاؤس بھی اس وقت مکمل نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے دوبارہ پولنگ کے لیے وقت نہ دینے کا سوال ہے، سوال یہ ہے عدالت وقت دے تو حکومت کون چلائے گا، وقفے کے بعد بتایا گیا کہ چوہدری پرویز الہی کو حمزہ شہباز کو وقت ملنے پر اعتراض نہیں ہے۔

پرویز الہٰٰی نے کہا کہ آج بھی ایوان کا کنٹرول پولیس نے سنبھالا ہوا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کے وکیل نے بتایا کہ ضمنی الیکشن مکمل ہونے تک حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ رہنے پر اعتراض نہیں، جس پر پرویز الہی نے کہا کہ ایسی صورتحال میں ان پر اعتماد نہیں کر سکتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہاؤس مکمل ہونے کے بعد جس کی اکثریت ہوگی وہ وزیراعلی بن جائے گا، اس نقطے پر آپ دونوں حضرات کو طلب کیا گیا ہے، دوسری صورت الیکشن کیلئے وقت کی کمی کی ہے، پاکستان میں موجود اراکین کے آنے تک دوسری صورت میں وقت دیا جا سکتا ہے۔

پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز 17 جولائی تک رہنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے اختیار کو طے کرلیں، 17 جولائی تک وزیر اعلی رہے لیکن ارکان کو ہراساں نہ کیا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر پکڑ دھکڑ ہوتی ہے تو عدالتیں کھلی ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ پرویز الہٰی ہمارے اتحادی اور وزارت اعلی کے امیدوار ہیں، (ق) لیگ اور تحریک انصاف دونوں الگ سیاسی جماعتیں ہیں، میں اپوزیشن لیڈر سبطین خان کا وکیل ہوں۔

پرویز الہٰی نے کہا کہ میں نے تجویز پی ٹی آئی پنجاب کے رہنما محمود الرشید کیساتھ مشورہ کرکے دی ہے۔

دو آپشنز ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دو دن کے بعد رن آف الیکشن ہوگا، دو دن میں جو اکثریت لے گا وہ وزیر اعلی ہوگا۔

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہمیں حمزہ شہباز عبوری وقت میں وزیر اعلیٰ قبول نہیں، مناسب وقت نہ کم ہو نہ زیادہ ہو، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے امیدوار پرویز الہٰی کچھ اور کہتے ہیں اور آپ عدالت سے کچھ کہ رہے ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ آرٹیکل 187 کے تحت فیصلہ کرے، عدالت کسی تیسرے کو صاف شفاف الیکشن کرانے کا حکم دے، پرویز الہٰی اور حمزہ نے کچھ واقعات کا ذکر کیا، صرف استدعا ہی کر سکتے ہیں فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کی آپس میں بات نہیں بن رہی تو عدالت کیا کرے، پانی میں مٹی ڈالنے کے بجائے مسئلے کا حل نکالیں۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آرٹیکل 187 کو ایسے تو استعمال نہیں کر سکتے، اس موقع پر بابراعوان نے کہا کہ میری ایک سیاسی پوزیشن بھی ہے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اپنا کام کر ہی ہے، عدالت کا شکریہ ادا نہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین ارکان کو مناسب وقت فراہم کرنے کی بات کرتا ہے،رن آف الیکشن کے لیے 3 سے 5 دن مناسب وقت ہوگا، ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز کو ہٹانے کا حکم نہیں دیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دو دن میں دوبارہ انتخاب یا حمزہ شہباز 17 جولائی تک وزیراعلی، یہی دو آپشنز ہیں۔

بابراعوان نے عدالت سے کہا کہ سیاسی پوزیشن سے عدالت کو آگاہ کر دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی پوزیشن ایوان میں لیں، عدالت میں قانونی بات کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں وزیر اعلی کو ابھی ہٹا دیا جائے، دو تین دن کے لیے متبادل انتظام ہو سکتا ہے لیکن لمبے عرصے کے لیے نہیں، پرویز الہٰی نے جو شرائط رکھیں وہ آپ کے اطمینان کے لیے حمزہ شہباز پر عائد کی جا سکتی ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد والے کیس میں عدالت ایسی شرائط عائد کر چکی ہے۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنما محمودالرشید نے کہا کہ میں نے اسپیکر کے ساتھ طے کیا ہے کہ 17 جولائی تک حمزہ وزیر اعلی رہیں،17 جولائی تک ضمنی الیکشن کا نتیجہ بھی آجائے گا۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے محمود الرشید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو درخواست گزار ہی نہیں ہیں اور اس موقع پر بابراعوان نے کہا کہ مجھے معاملے پر پارٹی سربراہ سے ہدایات لینے دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ محمود الرشید پاکستان تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ہیں، آپ اور آپ کے امیدوار ہی ایک پیج پر نہیں ہیں۔

اس موقع پر عدالت نے بابر اعوان کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ہدایات لینے اور مشورہ کرنے کے لیے آدھا گھنٹے کا وقت دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز الہٰی عمران خان سے رابطہ کریں اور آدھے گھنٹے میں آگاہ کریں، جس کے بعد عدالت میں ایک مرتبہ پھر وقفہ کیا گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے 16 اپریل کو ہونے والے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے منحرف اراکین کے ووٹ شمار کیے بغیر آج یکم جولائی بروز جمعہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا حکم دیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے گزشتہ روز کے حکم پر پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج سہ پہر 4 بجے طلب کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب: منحرف ارکان کے بغیر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم

پی ٹی آئی نے آج وزیر اعلیٰ پنجاب سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ عدالت عالیہ کے فیصلے کےخلاف اپیل منظور کی جائے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو اجلاس میں شرکت کے لیے مناسب وقت دینا ضروری ہے۔

درخوست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ حمزہ شہباز کو عہدے سے ہٹایا جائے تاکہ صاف و شفاف الیکشن ہوسکیں، جبکہ درخواست پر فیصلے تک وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب روکا جائے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی کہ وزیراعلیٰ حمزہ شہبازکی کامیابی کا نوٹی فیکیشن معطل کیاجائے، پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلی کا الیکشن فوری معطل کیاجائے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف کل سپریم کورٹ جانے کا اعلان

تحریک انصاف کی جانب سے اپیل کی گئی کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو تبدیل کرکے اجلاس بلانے کا مناسب وقت دیا جائے۔

تحریک انصاف نے اپیل آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا بھی کی تھی، آج ہی اپیل پر سماعت کے لیے متفرق درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کر دی گئی تھی جسے اب منظور لیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ 16 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی پی ٹی آئی کے منحرف قانون سازوں کے 25 ووٹوں کو شمار کیے بغیر کی جائے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اگر حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ بننے کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کر سکے تو آرٹیکل 130 (4) کے تحت دوبارہ انتخاب کرایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی اتحادیوں سے اہم ملاقات، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر تبادلہ خیال

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 130 (4) کے مطابق ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں کسی امیدوار کو 186 ووٹوں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے صرف موجودہ اراکین اور ان کے ووٹوں میں سے اکثریت کی ضرورت ہوگی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پریزائیڈنگ افسر کی جانب سے 25 ووٹوں کو نکالنے کے بعد حمزہ شہباز مطلوبہ اکثریت سے محروم ہو گئے تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا تھا کہ آج جو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ہے ہم اس کے خلاف کل سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں کہ حمزہ شہباز اب کیسے وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے جبکہ عدالت نے کہہ دیا ہے کہ اس کا انتخاب ہی غلط ہوا ہے تو وہ وزیر اعلیٰ کیسے ہوا۔

اس کے علاوہ، پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے میں جاری سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور فیصلے کی خامیوں پر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) آج پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے پراعتماد

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ 'لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے نے پنجاب میں سیاسی بحران میں مزید اضافہ کر دیا ہے، حمزہ شہباز کی حکومت برقرار نہیں رہی لیکن جو حل دیا گیا ہے اس کے نتیجے میں بحران ختم نہیں ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس فیصلے میں کئی خامیاں ہیں، قانونی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے میں خامیوں کو لے کر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے'۔

وزیراعظم کی اتحادیوں سے اہم ملاقات، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر تبادلہ خیال

فیفا نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کی معطلی ختم کردی

’میں سمجھی صرف پاکستانی ایسا سوچتے ہیں‘ زارا نور کی عالیہ بھٹ کی حمایت