باکرہ بیوی چاہیے!
بھابی!
جی۔
آپ میری شادی کا انتظام کردیں۔
لیکن ایک شرط ہے۔
وہ کیا؟
لڑکی باکرہ ہونی چاہیے۔
( راجہ گدھ۔ صفحہ نمبر 366)
باکرہ لڑکی؟
بات آگے بڑھانے سے پہلے لفظ باکرہ کو دیکھ لیتے ہیں۔ مترادفات کی فہرست دیکھیے: ان چھیڑ، چیرا بند، بن بیاہی، در ناسفتہ، غنچہ نا شگفتہ، ناکتخدا، دوشیزہ۔
ارے ان مشکل الفاظ میں الجھیے نہیں، ہم بتائے دیتے ہیں۔ مفہومِ عام میں وہ لڑکی جو شادی سے پہلے کبھی جنسی عمل سے نہ گزری ہو اور اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد اس کا شوہر ہو۔
ناول میں یہ فرمائش کرنے والا کردار قیوم سیمی شاہ نامی کلاس فیلو، عابدہ نامی کزن اور امتل نامی طوائف سے متعدد بار جنسی تعلقات قائم کرچکا ہے۔ لیکن پھر بھی چاہتا ہے، باکرہ بیوی۔ کیا کہیے سوائے اس کے کہ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔
مزید پڑھیے: پھٹی ہوئی آنول، اندھیرا اور راز!
ہمارے معاشرے میں یہ سوچ آج بھی اسی شکل میں موجود ہے۔ اسی لیے ایک بچی کا ایسا سوال ہم تک آ پہنچا ہے جس کی تپش روح کو سلگاتی ہے۔
’ہمارے خاندان میں شادی کے اگلے دن سفید کپڑا جس پر لڑکی کے کنوار پن کا ثبوت ہو، مانگا جاتا ہے۔ میں بہت خوفزدہ ہوں اگر سفید کپڑے پر کوئی داغ نہ لگا تو میں کیا کروں گی؟‘
کیوں؟
آخر کیوں؟
ہم چلا اٹھتے ہیں۔
کوئی جواب نہیں ملتا۔
کیا کہیں ہم؟
آزردہ ہوتے ہوئے ہم سوچتے ہیں۔
عورت کے باکرہ ہونے کا ثبوت مرد کو چاہیے اور مرد کے کنوارے ہونے کا ثبوت؟ کیا اس بارے میں کبھی کوئی سوال اٹھائے گا؟ کیا کبھی کوئی دانشور اس پر بھی ناول لکھے گا؟
نہیں، ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ مرد کو ایسی ہر آزمائش اور پیمانے سے مبرا سمجھا جاتا ہے۔ وہ حاکم ہے، سو سات خون بھی معاف۔ عورت لونڈی ہے سو ان چھوا ہونے کا سرٹیفیکیٹ چاہیے۔
اس بچی کا سوال پھر یاد آجاتا ہے۔
کیسا نیچ خاندان ہے جو بیٹے کی طرف سے آنکھیں بند رکھتے ہوئے بہو کی ذات بیچ چوراہے میں زیرِ بحث لا رہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے معاملے پر جس کی طبّی طور پر کوئی حیثیت ہی نہیں۔
سمجھ لیجیے کہ ایسے خاندان میں عورت کی شادی کرنا، شادی نہیں یومِ حساب ہے جہاں پہلی رات ہی عورت کو پُل صراط سے گزرنا ہے اور اگلی صبح سفید چادر پر خون کے کچھ دھبے طے کریں گے کہ دلہن عزت کے قابل ہے کہ نہیں؟
اب تو تھک کے ہم کہتے ہیں کہ لعنت بھیجو ایسی شادی پر اور ایسی رسومات پر جہاں عورت جیتی جاگتی انسان کی بجائے ایسی میزان میں تولی جاتی ہے جہاں اس کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ایک جھلی اور خون کے کچھ دھبوں سے لگایا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: چھاچھرو سندھ کی جادوگرنی!
پردہ بکارت یا ہائمن ہمیں تو انتہائی منحوس لگتی ہے جب بھی اس کا ذکر سنیں۔ ایک ٹھنڈی سانس بھر کے رہ جاتے ہیں جب کبھی معائنہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ پھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دوبارہ دیکھتے ہوئے سوچتے ہیں کہ کیا مقام پایا ہے اس ایک انچ کی بے شکل، بے وقعت جھلی نے کہ عورت کا مقام اس کے ہونے یا نہ ہونے سے طے ہوتا ہے۔
کچھ صاحبان دانش کے خیال میں شاید ہائمن ویجائنا میں اس عہدے پر فائز ہے جیسے کسی بوتل کا ڈھکن یا ڈبے کے اوپر بندھا ہوا ربن۔
بھابھی کہنے لگیں، 'بالکل باکرہ با عصمت لڑکی ہے۔ جیسی تمہیں درکار ہے بالکل ویسی۔ وہ ڈبے میں پیک ہے پوری طرح، تم ہی اس کا ربن کھولو گے پہلی بار۔ پڑھی لکھی تو خیر زیادہ نہیں لیکن خوبصورت بہت ہے'۔
(راجہ گدھ۔ صفحہ نمبر 388)
بانو قدسیہ نے تو شاید ہائمن سے متعلق کچھ تحقیق نہیں کی، لیکن چلیے ہم ہی بتائے دیتے ہیں کہ ہائمن یا پردہ بکارت ہے کیا؟
ویجائنا رحم تک جانے والی ایک تنگ نالی ہے جو تقریباً 10 سینٹی میٹر یا 4 انچ لمبی ہے۔ یہ نالی پیشاب اور پاخانے کی درمیانی جگہ پر باہر کی طرف کھلتی ہے۔ نالی کا منہ بند نہیں ہوتا جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے اسی لیے ماہواری کا خون شادی سے پہلے بھی آسانی سے خارج ہوتا ہے۔
ویجائنا کے سوراخ سے ایک انچ اندر ایک باریک سی جھلی پائی جاتی ہے جسے ہائمن یا پردہ بکارت کہا جاتا ہے۔
ابتدائی چاند کی شکل جیسی جھلی جس کی کوئی افادیت یا مقصد نہیں بالکل ویسے ہی جیسے اپنڈکس جسم میں پایا تو جاتا ہے لیکن ہے ایک عضو معطل۔
پردہ بکارت کی ماہیت اور حجم کسی بھی 2 عورتوں میں ایک جیسا نہیں ہوتا جیسے آنکھیں، ناک اور دہانہ ہر انسان کا اپنے جسم کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ پردہ بکارت انتہائی نرم و نازک، باریک اور مختصر بھی ہوسکتا ہے اور سخت بھی۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا۔ لیکن جو بھی ہو، ایک بات لازم ہے کہ نارمل پردہ ویجائنا کو بند نہیں کرتا۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عورت جو پہلی بار جنسی عمل سے گزرے گی، اس کا پردہ بکارت پھٹنے سے خون نکلے گا اور یہ اس کے کنوارپن اور پاکیزگی کا ایک ثبوت ہوگا۔
عرض کرتے چلیں کہ ہرگز ضروری نہیں کہ پردہ بکارت پہلی دفعہ پھٹنے سے خون کا اخراج ہو، جھلی اگر بہت نرم ہوگی تو پھٹنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ جنسی عمل سے پہلے ہی کسی اور سرگرمی میں پھٹ جائے جیسے گھوڑ سواری، جمناسٹک اور مختلف اقسام کی جسمانی سرگرمیاں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ پردہ بکارت موجود ہی نہ ہو۔ وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔
مزید پڑھیے: منشی پریم چند کی بدھیا اور اکیسویں صدی کی عورت!
لیکن کون دھرتا ہے ان معلومات پر کان؟ یہ ایسے مردوں کا معاشرہ ہے جن کے حواس اور دانش پر مہر لگی ہوئی ہے۔
پھر عورت کیا کرے جب اس کے لیے نہ نظام بدلتا ہے، نہ خیالات، نہ معاشرہ اور نہ مرد!
کچھ مہربانوں کے خیال میں وہ کرنا چاہیے جو روم میں رہنے والے کرتے ہیں، یعنی جیسا دیس ویسا بھیس۔ ڈر ڈر کر زندہ رہنے کے بجائے عقل استعمال کی جائے اور عقل کے اندھوں کو اسی سے ہانکا بھی جائے۔
تو سن لیجیے خوشخبری کہ مصنوعی ہائمن پیک بازار میں آچکا ہے اور ایمازون پر دھڑا دھڑ بک رہا ہے۔ اس کے لوازمات میں ایک ایسا کیپسول بھی شامل ہے جو ویجائنا میں رکھا جاتا ہے اور جنسی سرگرمی کے بعد خون کا اخراج ہوتا ہے۔
جس بھی حکیم جالینوس نے یہ بنایا ہے، اس نے ایشیائی معاشروں میں عورت کی تذلیل روکنے کا خوب بندوبست کیا ہے۔ اب اس پیک کی مدد سے ہائمن پھٹے گی، سفید چادر پر سرخ دھبے لگیں گے اور ڈھول کی تھاپ پر برادری میں اعلان ہوگا،
مبارک، سلامت، لڑکی باکرہ ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی پیشے کے اعتبار سے کنسلٹنٹ گائناکالوجسٹ ہیں۔ آپ اردو بلاگ نگاری اور پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ آپ کی دو کتابیں بعنوان 'مجھے فیمینسٹ نہ کہو' اور 'کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ' بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے گائنی فیمنزم کا خیال پیش کیا ہے۔ آپ سمجھتی ہیں کہ خواتین کو اس وقت تک بااختیار نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ معاشرتی ممنوعات کو توڑتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں کھل کر بات نہ کرسکیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔