قومی اسمبلی ‘فون کالز’ پر چلانے کی رپورٹس، ملکی سیاسی صورتحال کشیدہ ہے، فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسی رپورٹ موصول ہورہی ہیں کہ قومی اسمبلی فون کالز کے ذریعے چلائی جا رہی ہے جس سے بے ظابطگی ہو رہی ہے اور ملک کی سیاسی صورت حال کشیدہ ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان ( ای سی پی) کے دفتر کے باہر سابق وزیر خزانہ اسد عمر اور شیریں مزاری کے ہمراہ میڈیا نمائندگان سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ تین دنوں سے قومی اسمبلی میں کیا ہو رہا ہے اور دو دن قبل بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے یہ کہا کہ قومی اسمبلی کو فون کالز کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جکہ فہمیدا مرزا نے بھی اسی طرح کا دعویٰ کیا ہے۔
فواد چوہدری بلوچستان کے ضلع گوادر سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور حکومتی اتحادی اسلم بھوتانی کی طرف سے رواں ہفتے بجٹ تقریر کے دوراں حکومت سے کیے گئے شکوے کا حوالہ دے رہے تھے۔
مزید پڑھیں: سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی رپورٹس ’غلط‘ ہیں، فواد چوہدری
آزاد رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کی مسلسل درخواستوں کے باوجود بھی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں اپنے حلقے لسبیلہ کے لیے ترقیاتی منصوبے شامل نہ کرنے پر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال کے خلاف قومی اسمبلی میں احتجاج کیا تھا۔
فون کالز کے حوالے سے مزید وضاحت سے گریز کرتے ہوئے اسلم بھوتانی نے کہا تھا کہ اس کے بعد میں نے ان مقتدر قوتوں سے درخواست کی جہاں سے ہمیں عمومی طور پر فون کالز موصول ہوتی رہتی ہیں کہ اگر ان کے فون کالز میں اب بھی کوئی وزن ہے تو وہ احسن اقبال سے پوچھیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بی اے پی کے رکن قومی اسمبلی خالد مگسی نے بھی اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ جو تحریک عدم اعتماد کے وقت حمایت حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے اب ان کو ہمارے چہرے بھی پسند نہیں ہیں۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ قومی اسمبلی اب مزید خودمختار نہیں رہی کیونکہ اسمبلی کا متعصب اسپیکر متعصب سیشن چلا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس خبر نے ملک میں بے ضابطگی پیدا کر دی ہے، انہوں نے معاشی استحکام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے سیاسی طور پر مستحکم ہونا بے حد ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کو تبدیل کرنے کیلئے (ن) لیگ، پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں، فواد چوہدری
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین کو 25 مئی سے ترک کردیا گیا ہے اور دعویٰ کیا کہ ریاست میں کوئی بھی کام آئینی طور پر نہیں ہو رہا ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ فیصل واڈا کی طرف سے دائر کیے گئے ریفرنس پر عدالت عظمیٰ سماعت کیوں نہیں کر رہی ہے اور صدر پاکستان کی جانب سے متعدد خطوط کے باوجود عدالت بیرونی مداخلت پر کمیشن تشکیل کیوں نہیں دے رہی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کو تنہا کرکے آپ کو کیا حاصل ہوگا، کیا آپ یہ توقع کرتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت اپنی مسلح ونگز تشکیل دے یا پھر آپ چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف خون ریزی میں ملوث ہو جائے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا یہ تمام مسائل ملک میں بحران کو جنم دے رہے ہیں اور اس کا واحد حل ہے کہ ملک میں فوری طور پر نئے انتخابات کرائے جائیں کیونکہ سیاسی استحکام اس وقت آتا ہے جب آپ آئین پر عمل کریں اور یہ اس وقت ہوگا جب آپ نئے انتخابات کی طرف بڑھیں گے۔
'اندرونی مداخلت اور صوبائی اسملبی کی 20 نشستوں پر بدعنوانی'
میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے دعویٰ کیا کہ پنجاب حکومت صرف اپنے دن گنتی کر رہی ہے اور جلد ہی حکومت ختم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر عدالت کا حکم موجود ہے، آج ہم نے ای سی پی میں درخواست دائر کی اور مطالبہ کیا ہے کہ مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن جاری کیا جائے کیونکہ اس وقت پنجاب میں غیر قانونی حکومت چل رہی ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی گرفتاری کی کوشش کی گئی تو کارکنوں کو رد عمل سے وہ خود بھی نہیں روک سکتے، اسد عمر
واضح رہے کہ 27 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے ای سی پی کو ہدایات جاری کی تھی کہ 25 منحرف اراکین کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی 5 مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے اراکین کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ہدایت دی تھی۔
اس سے قبل گزشتہ مہینے تحریک انصاف کے 25 قانون سازوں جن میں خواتین اور اقلیتی نشستوں پر منتخب ہونے والے 5 اراکین بھی شامل تھے، ان کو پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے ہونے والے انتخابات کے دوران حمزہ شہباز کو ووٹ دینے پر نااہل قرار دیا گیا تھا جن کا ای سی پی نے باضابطہ طور پر 23 مئی کو نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا تھا۔
بعدازاں تحریک انصاف نے 28 مئی کو لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ ای سی پی کو حکم دیا جائے کہ وہ مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے 5 اراکین کو منتخب کرے اور انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کرے۔ تاہم، ای سی پی نے فیصلہ کیا تھا کہ صوبے میں 27 جولائی کو ضمنی انتخابات ہونے تک نوٹیفیکیشن مؤخر کیا جائے گا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسد عمر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ان نشستوں پر دھاندلی کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جب انتخابات نزدیک ہیں تو ایک ایسا مکینزم بنایا گیا ہے کہ آپ 8300 پر میسیج بھیجیں اور آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کے ووٹ کا اندراج کہاں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کو ٹھیک کرنے کے لیے قابض پیپلز پارٹی کو فارغ کرنا پڑے گا، اسد عمر
تاہم، لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے حلقوں کے بارے میں اطلاع دینے کے بجائے جو پیغام موصول ہو رہا ہے اس میں عام انتخابات کے بارے میں معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔
اسد عمر نے کہا کہ یہ واضح دھاندلی ہے اور اس سے لوگوں کو غلط معلومات فراہم کرکے ان کو گمراہ کیا جا رہا ہے، اس لیے پی ٹی آئی نے ای سی پی میں ایک درخواست جمع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں مطالبہ کیا جائے گا کہ لوگوں کو وہی فہرست فراہم کی جائے جس کے تحت انتخابات ہونے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ان انتخابات میں اندرونی مداخلت کی خبر بھی سامنے آئی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ای سی پی کو فی الفور اس معاملے کی تفتیش کرنی چاہیے کیونکہ منصفانہ انتخاب کروانا ان کی ذمہ داری ہے۔
مزید پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب نہ ہوتے تو آج حکومت میں ہوتے، فواد چوہدری
اسد عمر نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ای سی پی اور دیگر ادارے پنجاب میں غیر آئینی حکومت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
'چیف الیکشن کمشنر کو مستعفی ہونا چاہیے'
سابق وفاق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے مطالبہ کیا کہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا کو فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنی ساکھ کھو بیٹھے ہیں۔
شیریں مزاری نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ سی اسی سی آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ جس طرح انہوں نے مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن روکا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جبری گمشدگی سے متعلق بل پر آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرز میں پیش ہونے کا کہا گیا، شیریں مزاری
انہوں نے کہا کہ ای سی پی منصفانہ انتخابات نہیں کروا سکتا، اس لیے یہی وقت ہے کہ عدالت عظمیٰ اس معاملے پر نوٹس لے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ سی ای سی کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ خود ہی مستعفی ہو جائیں کیونکہ آئین کے برعکس ان کے فیصلے کرنے کی کوششیں مسلسل ہائی کورٹ کی طرف سے منسوخ کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے سی ای سی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہو جبکہ سی ای سی کہہ چکے ہیں کہ عہدہ چھوڑنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔