پاکستان

کاغذ کی قیمت میں 200 فیصد اضافے سے کتابوں کی اشاعت متاثر

بچوں کے لیے درسی کتب دستیاب نہیں ہوں گی اور اگر ہوئیں تو قیمت کے اعتبار سے لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوں گی، تاجر رہنما

کاغذ کی قیمت میں 200 فیصد اضافے اور مقامی ملز کی جانب سے منافع خوری کے سبب کتابوں کی اشاعت ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آل پاکستان مرچنٹ ایسوسی ایشن کے سابق نائب چیئرمین عابد ناصر نے کہا کہ ’درآمدی کاغذ پر بلند شرح ٹیکس، روپے کی قدر میں نمایاں کمی، ڈالر کے مہنگا ہونے اور کاغذ کی مقامی ملز کی منافع خوری کے سبب ملک بھر میں کاغذ کا سنگین بحران ہوگیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں کاغذ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہے، بچوں کے لیے درسی کتب دستیاب نہیں ہوں گی اور اگر ہوئیں تو وہ قیمت کے اعتبار سے لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 23-2022 : تین شعبوں پر ڈیوٹی ریشنلائزیشن جزوی طور پر منظور

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اشاعتی صنعت میں پیداواری طلب پوری کرنے میں درآمد کنندگان ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بیرونِ ملک سے درآمد کی جانے والی کتب ڈیوٹی فری ہیں جو ملائیشیا، سنگاپور، انڈونیشیا وغیرہ میں چھپوا کر درآمد کی جارہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر قسم کا شائع شدہ مواد بھی ڈیوٹی فری ہے جس کی وجہ سے اشاعتی صنعت تباہی کے دہانے پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اشاعتی صنعت سے بڑی تعداد میں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، انہوں نے اس بات پر تنقید کی کہ یہ ایک المیہ ہے کہ شائع شدہ کتب اور مواد کو بیرونِ ملک سے درآمد کرنے پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: بجٹ 23-2022: 'ریلیف ممکن ہے اور نہ ہی دیا جانا چاہیے'

خیال رہے کہ حکومت نے کاغذ کی درآمد پر 70 فیصد ڈیوٹی عائد کردی تھی جو کتابوں اور دیگر مواد کی اشاعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

وفاقی بجٹ برائے سال 23-2022 کی دستاویز کے مطابق درآمدی کاغذ پر 20 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد ہوتی ہے جس کے بعد 17.5 فیصد سیلز ٹیکس، 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی، 29 فیصد اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی اور 6 فیصد اضافی ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے۔

تحریک انصاف نے انتخابی فہرستوں میں 'غیر قانونی تبدیلیوں' کو چیلنج کردیا

کراچی کو ناقابل رہائش شہروں کی فہرست میں شمار کیے جانے پر شہزاد رائے کو تشویش

نوخیز اتحادی حکومت کو اپنی ہی صفوں سے تنقید کا سامنا