پاکستان

طالبہ ہراسانی کیس: گورنر خیبر پختونخوا اور استاد کو نوٹس جاری

پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے طالبہ کی جانب سے دائر درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد نوٹسز جاری کیے۔

پشاورہائی کورٹ کے بینچ نے طالبہ کو ہراساں کرنے کے معاملے میں گورنر خیبر پختونخوا اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے استاد کو نوٹس جاری کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نوٹس میں طالبہ کو ہراساں کرنے کے معاملے میں انسداد ہراسانی محتسب کی جانب سے استاد کو سروس سے برطرف کرنے کی سزا کو ختم کرکے گورنر کے معمولی سزا دینے کے حکم کو چیلنج کیا گیا ہے۔

جسٹس لال جان خٹک اور جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے طالبہ کی جانب سے دائر درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد نوٹسز جاری کیے۔

عدالت نے گورنر، یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹکل سائنس کے پروفیسر اور رجسٹرار کو آئندہ سماعت پر درخواست کا جواب کی ہدایت کی۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ گورنر خیبر پختونخوا کے 4 جنوری 2022 کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم کیا جائے۔

درخواست گزار نے استدعا کی ہے کہ خیبر پختونخوا کے محتسب برائے ہراسانی کے 12 اپریل 2021 کے حکم کو بحال کیا جائے جس میں استاد کو ملازمت سے برطرف کرنے کی سخت سزا دی گئی تھی اور یونیورسٹی حکام کو اس حکم پر عملدرآمد کی ہدایت کی جائے۔

عدالت میں درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ سنگین خان پیش ہوئے اور کہا کہ ان کی مؤکلہ شعبہ سیاسیات کی طالبہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کو 5 نومبر 2020 کو استاد کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے استاد کے خلاف کارروائی کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کو درخواست دی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ کیس کی انکوائری کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے جامع تحقیقات کرنے کے بجائے واقعے کو من گھڑت قرار دے کر فیکلٹی اراکین کو شہ دی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامیہ کالج ٹیچنگ اسٹاف ایسوسی ایشن کی جنرل باڈی نے بھی استاد کی حمایت میں ایک قرارداد منظور کی۔

وکیل نے کہا کہ انکوائری کمیٹی نے متاثرہ طالب علم پر الزام تراشی کی جس کی وجہ سے درخواست گزار نے شکایت کے ذریعے محتسب سے رجوع کیا۔

انہوں نے کہا کہ محتسب نے 24 نومبر 2020 کو کیس کا نوٹس لیا ور انکوائری کمیٹی کے اراکین کو بھی طلب کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ محتسب نے انکوائری کمیٹی کو اس معاملے میں مزید کارروائی کرنے سے روک دیا اور خواتین کو ملازمت کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010 کے سیکشن 8 (1) کے تحت شکایت پر غور کرنے کا اختیار استعمال کیا۔

ایڈووکیٹ سنگین خان نے کہا کہ حکم امتناع کے باوجود کمیٹی نے 7 دسمبر 2020 کو رپورٹ جاری کی جس میں درخواست گزار کی شکایت کو جھوٹا اور گھناؤنا قرار دیا اور درخواست گزار اور کیس میں بطور گواہ پیش ہونے والوں کے خلاف تعزیری کارروائی کی بھی سفارش کی۔

انہوں نے کہا کہ 12 اپریل 2021 کو محتسب نے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت استاد کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کا جرم ثابت ہونے پر انہیں ملازمت نے ہٹانے کی سفارش کی گئی۔

وکیل نے کہا کہ فریق نے گورنر سے سزا کے خلاف درخواست کا اختیار استعمال کیا اور دعویٰ کیا کہ 4 اکتوبر 2021 کو گورنر نے درخواست گزار اور ان کے والدین کو طلب کیا اور معاملہ حل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، تاہم درخواست گزار اور ان کے والدین نے انکار کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گورنر نے اپیل کو منظور کرتے ہوئے استاد کے خلاف سخت سزا کو معمولی سزا میں تبدیل کرتے ہوئے ان کی صرف سرزنش کی۔

انہوں نے کہا کہ اس زیر اعتراض حکم کو خفیہ رکھا گیا اور درخواست گزار کو اس کی نقل حاصل کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑی۔

وکیل نے استدعا کی کہ یہ زیر اعتراض حکم دیتے ہوئے مواد اور حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور معاملہ خراب ہونے کے پیش نظر من مانی انداز میں دیا گیا۔