عالمی طاقتوں کا روس سے سونے کی برآمدات پر پابندی پر اتفاق
دنیا کی 7 اہم معیشتوں ’جی 7‘ کے سربراہان نے یوکرین کی حمایت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے روس کی مالی لائف لائن کو منقطع کرنے کے لیے ماسکو سے سونے کی برآمدات پر پابندی پر اتفاق کرلیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن اور دنیا کے اہم صنعتی ممالک کے ان کے ہم منصب نیٹو شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کے لیے میڈرڈ جانے سے قبل باویرین الپس کے ایلماؤ کیسل میں ملے۔
مزید پڑھیں: روس، یوکرین جنگ کے باعث پاکستان کو ایل این جی کی خریداری میں مشکلات کا سامنا
امریکی صدر اور ان کے اتحادی ممالک روس کے حملے کے خلاف یوکرین کی مزید حمایت کا عزم کریں گے جبکہ جنگ کے تیز ہوتے ہوئے عالمی نتائج سے نمٹنے کے لیے بھی کوشش کریں گے۔
روس کی یوکرین کے خلاف جنگ، جو کہ اب پانچویں مہینے میں ہے، کی وجہ سے عالمی سطح پر توانائی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اقتصادی ترقی متاثر ہو رہی ہے اور مہنگائی اور تیز ہوتے خوراک کے بحران سے لے کر توانائی کی قلت نے دنیا کو مزید دیگر بحرانوں میں ڈھکیل دیا ہے۔
دنیا کی بڑی معیشتوں کے سربراہان معاشی بحران کے رونما ہونے کے خطرات سمیت موسمیاتی تبدیلی پر بڑھتے ہوئے دباؤ جیسے معاملات پر بات چیت کریں گے۔
اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ماسکو پر دباؤ بڑھانے کی کوششوں میں اضافہ کرتے ہوئے سات بڑی معیشتوں نے روس سے درآمد ہونے والے سونے پر پابندے عائد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس کا دوسرا بڑا برآمد کنندہ امریکا ہے جو کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور ان کے اتحادیوں کے لیے رونیو پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق سال 2020 میں روس نے مجموعی طور پر 5 فیصد سونے کی برآمدات کی اور روس کا 90 فیصد سونا ’جی 7‘ ممالک خاص طور پر برطانیہ کے پاس گیا۔
یہ بھی پڑھیں: روس، یوکرین جنگ کئی برسوں تک جاری رہ سکتی ہے، نیٹو سربراہ
’ہار مت مانیں‘
جب سے روس نے 24 فروری کو یوکرین میں فوجی حملہ شروع کیا ہے تب سے مغربی اتحادی اس پر اپنے ردعمل کو مربوط کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
تاہم انہوں نے روس کی معیشت کو کمزور کرنے کے لیے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور روسی صدر کی افواج جنگ سے پیچھے ہٹنے سے انکاری ہیں۔
جرمنی میں بات چیت شروع ہونے سے قبل برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے تمام اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ یوکرین کی حمایت سے پیچھے نہ ہٹیں۔
برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ یوکرین جنگ جیت سکتا ہے اور وہ ضرور جیتے گا مگر جنگ جیتنے کے لیے ان کو ہماری مدد کی ضرورت ہے اور یہ وقت نہیں ہے کہ یوکرین کی حمایت سے پیچھے ہٹیں۔
برطانیہ نے اس سال کے آخر میں عالمی بینک کے قرضے کے لیے مزید ساڑھے 52 کروڑ ڈالر کی ضمانتوں کا اعلان کیا ہے۔
اس بات کی بھی توقع کی جارہی ہے کہ پیر کو ہونے والے اجلاس میں وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کرتے ہوئے یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی بھی اس بات کی درخواست کریں گے کہ ان کی مدد کی جائے۔
وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ جی 7، روس کو جوابدہ ٹھہرانے اور صدر پیوٹن اور ان کی معیشت کے خلاف جنگ کے اخراجات اور نتائج کو بڑھانے کی کوشش جاری رکھے گا۔
مزید پڑھیں: روس، یوکرین جنگ پر پاکستان ’غیر جانبدار‘ ہے، وزیر خارجہ
ساتھ ہی ان کا مقصد یہ بھی ہوگا کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور جس طرح روس نے توانائی کو ہتھیار بنایا ہوا ہے اس کے اثرات کو جتنا ممکن ہو کم سے کم کیا جائے۔ جی 7 کے افتتاحی سیشن کا مرکز معاشی بحران سے پیدا ہوتی صورتحال ہوگا۔
صرف 6 ماہ قبل عالمی معیشت وبائی مرض ’کورونا وائرس‘ کے بعد تیزی سے بحالی کی طرف گامزن تھی لیکن اب معیشت بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔
جان کربی نے کہا کہ ہم سب کے ذہن میں جو بنیادی مسائل ہیں وہ بڑھتی ہوئی قیمتیں، عالمی سطح پر سپلائی چین میں درپیش رکاوٹیں ہیں جو کہ یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے مزید بڑھ گئے ہیں۔
منظم بدلہ
دنیا کی بڑی معیشتین روسی توانائی پر انحصار سے خوفزدہ ہیں جس نے جرمنی اور اٹلی سمیت متعدد یورپی ممالک کو روس کے خلاف اقدام کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، اس صورتحال میں اب جی 7 بھی توانائی کے لیے چین کی طرف دیکھ رہا ہے اور اس عمل کو وہ ایک ’منظم بدلے‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔
جان کربی نے مزید کہا کہ چین کے جبری معاشی طریقوں، جبری مشقت کے استعمال اور دانشوارانہ چوری جیسے عوامل جی 7 کے سامنے اور مرکز ہیں
انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے روس اور چین سے مغربی اتحادیوں کو الگ کرنے والا خلا وسیع ہوتا جارہا ہے تو اب جی 7 دیگر بڑے کھلاڑیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس-یوکرین جنگ کے نتائج پر امریکا نے پاکستان کو خبردار کردیا
جرمن چانسلر اولاف شولز نے ارجنٹائن، بھارت، انڈونیشیا، سینیگال اور جنوبی افریقہ کے رہنماؤں کو بھی الپائن میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں مدعو کیا ہے جبکہ ارجنٹائن اور انڈونیشیا نے یوکرین پر جنگ مسلط کرنے پر روس کی مذمت کے لیے اقوام متحدہ میں ووٹ دیا، تاہم باقی تین ممالک نے اس مذمتی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
تاہم یوکرین سے اناج اور گندم کی برآمدات میں رکاوٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والے بڑھتے ہوئے بحران سے یہ تمام ممالک براہ راست متاثر ہو رہے ہیں، جس کا مثال یہ ہے کہ بھارت نے گندم کی برآمدات پر پابندی عائد کردی ہے۔