ڈنمارک میں مقیم پاکستانیوں کی بپتا: ’ہمیں پی کے 751 اور 752 لوٹا دیجیے‘
ہمیں پردیس کی خاک چھانتے 12 سال ہوگئے لیکن اب بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ دل وہیں کہیں پاکستان میں اپنے گاؤں کی گلیوں میں اٹکا ہوا ہے۔ شروع کے 7، 8 سالوں میں سال میں 2 دفعہ پاکستان کا چکر لگانا میرا معمول رہا، پھر جب سے ریسٹورنٹ شروع کیا تو یہاں کی مصروفیات بڑھ گئیں اور پاکستان کے سفر میں وقفے بڑھنے لگے، پھر بھی سال میں ایک دفعہ چکر تو لگ ہی جاتا تھا۔
پچھلے سال مارچ میں پاکستان جانا ہوا تو ارادہ یہی تھا کہ بس والدہ کو مل کر آجاؤں گا لیکن کورونا نے وہیں روک لیا۔ عین آخری دن جس رات سفر کرنا تھا کورونا مثبت نکل آیا اور پھر اس نے منفی ہوتے ہوتے دو ہفتے لگادیے۔
اس کڑے وقت میں جس طرح بہن بھائیوں اور بھتیجے، بھانجوں نے خیال رکھا اس کی لذت تاحیات ذہن پر نقش رہے گی۔ اتنے عرصے بعد بیماری کے بہانے گھر میں قید ہوگیا تو بھانجی نے طرح طرح کے سوپ پلائے، بھانجوں سے خوب شطرنج کھیلی، ماں سے جی بھر کر ڈانٹ کھائی اور بہن سے بے شمار ہمدردیاں بٹوریں۔ اپنوں میں جینے کی جو لذت اب آتی ہے وہ پردیس میں گزرے 12 سالوں کی دین ہے۔
کوپن ہیگن سے لاہور کے لیے پی آئی اے کی پرواز 751 اور 752 قریباً 7 گھنٹوں میں لاہور جا پہنچتی اور ہماری پیاسی آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی۔ بڑے بھائی صاحب ایئرپورٹ پر ہمارے منتظر ہوتے۔ یہ وہ فرض ہے جس کی ادائیگی میں انہوں نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ ایئرپورٹ سے لینا اور واپس ایئرپورٹ چھوڑنا ان کی پکی ڈیوٹی رہی۔
میں نے کئی بار دوسری ایئرلائنز جیسے قطر، ایمیریٹس اور ٹرکش ایئرلائنز کے ساتھ سفر بھی کیا۔ ان کا سفر پی آئی اے سے زیادہ آرام دہ تھا لیکن سفر کا دورانیہ قریباً دُگنا ہوجاتا تھا، کیونکہ قطر ایئرلائنز پہلے دوحہ، ایمیریٹس دبئی اور ٹرکش ایئرلائنز استنبول میں رکتی ہے اور یہاں 3، 4 گھنٹے کا لے اوور بھی پڑ ہی جاتا ہے۔ اس لیے ایک ہی تاریخ میں پاکستان پہنچنا بہت ہی مشکل تھا۔ جبکہ پی کے 751 پر کوپن ایئرپورٹ سے سوار ہونے پر ہی یوں لگنے لگتا جیسے آپ پاکستان پہنچ گئے ہوں۔
ایئرپورٹ پر متعلقہ عملے سے لے کر جہاز کے اسٹاف تک سب پاکستانی ہوتے اس لیے ایئرپورٹ پر سامان جمع کروانے والی قطار میں کھڑے ہوں تو دُور سے دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ فلائٹ پاکستان جانے والی ہے۔ سامان سے لدی ہوئی ٹرالیاں، سامان ڈھونے والے گتے کے ڈبے، رنگ برنگے کپڑوں اور ریپرز میں لپٹا ہوا سامان، ایسی آپا دھاپی اور تیزی کہ جیسے پاکستان کے کسی لاری اڈے پر ہوں۔
لاؤنج میں جاکر بھی وہی چہل پہل جیسے شاہ عالمی لاہور کے کسی گنجان علاقے کی بیٹھک ہو، ’ہور چوہدری صاحب، تسی وی جا رہے ہو، جی جی سانوں منع تاں نہیں‘، اور پھر ایک بلند قہقہہ۔ ہر طرف اونچی آواز میں گپ شپ یوں چل رہی ہوتی جیسے کسی مسئلے پر محلہ دار اکٹھے ہوئے ہوں۔ ایک دوسرے کے اضافی سامان کو سہارا دیتے ایک عجیب سرشاری کے ساتھ وطن کے راستے پر گامزن پردیسی میرے ذہن پر ایک ایسی تصویر بناتے ہیں جو بھلائے نہیں بھولتی۔
پھر فلائٹ کے اندر اس سفر کو اپنے اپنے ڈھنگ سے گزارنے کے منصوبے بنانے والے، آڑھی ترچھی نگاہوں سے خالی سیٹوں کی طرف نظریں جمائے یہ جانچ رہے ہوتے کہ کس کو اٹھا کر کس کے ساتھ بٹھائیں تو تاش کی بازی جم سکے گی، یا سیاست پر بحث کے لیے کونسا گروپ موزوں رہے گا۔ ابتدائی لمحوں بعد جوں ہی سیٹ بیلٹ کا سائن آف ہوتا، لوگ ایک دوسرے کو تلاش کرنے اٹھ کھڑے ہوتے۔
مجھے ایک دفعہ ایک دوست کہنے لگا کہ وہ پی آئی اے میں سفر نہیں کرتا کیونکہ ان کی ایل سی ڈی کام نہیں کرتی، 7 گھنٹے کا سفر کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی آدم بیزار کو اس بات کا احساس ہوتا ہو، مجھے یاد نہیں کہ ایسے کسی سفر میں بوریت ہوئی ہو، ہر دفعہ کوئی نہ کوئی ایسا مشن ساتھ چل پڑتا ہے جسے اخلاقی طور پر نبھانا پڑتا ہے۔ کسی دوست کی اکیلی فیملی یا والدہ جا رہی ہیں جن کو سفر سے خوف آتا ہے یا اخلاقی مدد کی ضرورت ہے، دوستوں کا ایک گروپ پاکستانی سیاست میں تبصرہ کرنے میں مصروف ہے، یا کھانے کے لیے ایک آدھ وقفہ آیا، کچھ دیر آنکھ لگانے کی کوشش کی، کچھ مانوس چہروں کو دیکھا، یعنی ہر فلائٹ میں اتنا کچھ ہوتا کہ مجھے یہ بھول گیا کہ میں کیا کچھ لکھوں۔
ممکن ہے کہ قطر ایئر ویز یا ایمیریٹس کا کھانا یا ان کا فضائی عملہ زیادہ اچھا ہو، لیکن دیسی اسٹائل کی مہمان نوازی کا اپنا ہی مزہ ہے، اور اچھی بات یہ ہے کہ اتنے سالوں میں کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ لکھنے کے لیے نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جلد سے جلد پاکستان پہنچنے کی خوشی سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی۔
افسوس کہ کورونا کے بعد پی آئی اے کی یہ فلائٹ بند کردی گئی۔ اس فیصلے کے خلاف کچھ احتجاج کی آوازیں بلند تو ہوئیں، لیکن اقتدار کے ایوانوں میں پردیسیوں کی آواز سننے والا کوئی نہیں تھا۔
کاروبار کی دنیا میں کم منافع دینے والے راستوں پر سفر کرنا کٹھن ہوتا چلا جاتا ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان شاید ان لوگوں کا ہوا جن کی آخری خواہش پاکستان میں دفن ہونے کی ہوتی تھی۔ پی آئی اے کی یہی فلائٹ ان بہت سے سالوں سے بیرونِ ملک انتقال کرجانے والوں کی میت کو بلامعاوضہ پاکستان لے کر جانے کا فریضہ بھی ادا کرتی تھی۔ ابھی پچھلے دنوں ایک پاکستانی مزدور کی میت وطن بھیجنے کا معاملہ درپیش تھا تو پتا چلا کہ ایک میت بھیجنے پر 5 سے 6 لاکھ پاکستانی روپے کا خرچ آتا ہے۔
مسافروں کو لے جانے کے لیے اب دوسری ایئرلائنز نے استحصال کا ایسا آغاز کیا ہے کہ کوئی بھی اچھا روٹ آسانی سے دستیاب نہیں، ابھی بڑی عید کے لیے پاکستان جانے کی ٹکٹ چیک کر رہا تھا تو ایک، دو سستے کنیکشن جو استنبول کے راستے پاکستان جاتے ہیں ان کی قیمت سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے کے قریب تھی۔ ان میں استنبول کا قیام 5 گھنٹے کا ہے یعنی 7 گھنٹے کا سفر 12 سے 14 گھنٹے کے سفر تک جا پہنچا ہے۔ جولائی کے پہلے ہفتے سے لے کر آخری ہفتے تک کوئی بھی مناسب کنیکشن 9 ہزار ڈینش کرون سے کم پر دستیاب نہیں۔
بس ایسے میں مجھے پی آئی اے کی پرواز 751 اور 752 کی یاد چلی آئی، شاید میری آواز کسی صاحبِ اختیار تک پہنچے جو اس روٹ کو پھر سے بحال کرنے کی کوشش کرسکے۔
صاحب ہماری یادیں تو وابستہ ہیں ہی لیکن ہمارے گھر تک جانے کے لیے مختصر ترین راستے کو کھول دیجیے، ہاں ہم زیادہ پیسے دینے کو بھی تیار ہیں، یہ جو کھڑکی تھی جس میں سے ہم پل بھر میں پاکستان جا پہنچتے تھے بس اس کو کھول دیجیے۔ راستے کے دلکش شہر دل کو نہیں بھاتے، دبئی، دوحہ، استنبول میں کچھ نہیں دھرا، دل میں پاکستان جانا سمایا ہو تو کچھ اور اچھا نہیں لگتا۔ کسی طرح ہمیں پی کے 751 اور 752 لوٹا دیجیے۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔