تنخواہ دار طبقے کو دیا گیا ریلیف ختم، ٹیکس کی حد 12 لاکھ سے واپس 6 لاکھ روپے مقرر
اتحادی حکومت نے نئے ٹیکس اقدامات کا اعلان کیا ہے جس میں 13 بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس بھی شامل ہے تاکہ اضافی 465 ارب روپے ریونیو اکٹھا کیا جا سکے تاکہ تعطل کا شکار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کو بحال کرنے کے لیے بجٹ خسارے کو کم کیا جا سکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جن کی سالانہ آمدنی 15کروڑ روپے سے زیادہ ہے ان پر ایک فیصد، 20 کروڑ سے زائد آمدن پر 2فیصد، 25 کروڑ سے زائد آمدن پر 3 فیصد اور 30 کروڑ سے زائد آمدن پر 4 فیصد ٹیکس لگے گا۔
مزید پڑھیں: حکومت کو ‘مشکل فیصلے’ کرنے ہوں گے، مفتاح اسمٰعیل کا آئی ایم ایف سے اتفاق
یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب یہ امید ہے کہ ملک جلد ہی آئی ایم ایف فنڈز کی نئی قسط کے لیے عالمی مالیاتی ادارے ایک معاہدہ کر لے گا تاکہ ادائیگیوں میں توازن لا کر بحران سے بچا جا سکے۔
جمعہ کی صبح قوم سے خطاب میں سپر ٹیکس کے اعلان کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی تقریر نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ہلچل مچا دی اور اس کے بینچ مارک کے ایس ای 100انڈیکس میں ٹریڈنگ رکنے سے پہلے 2ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی، دوپہر تک یہ 4.81 فیصد کم ہوکر 40ہزار 663.62 پر تھا
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بعد ازاں ٹوئٹر پر واضح کیا کہ ’سپر ٹیکس‘ ایک بار لگنے والا ٹیکس ہے جو پچھلے چار ریکارڈ بجٹ خساروں کو کم کرنے کے لیے درکار تھا، تمام شعبوں پر 4 فیصد سپر ٹیکس لاگو ہو گا لیکن 13 مخصوص شعبوں پر مزید 6 فیصد لگ کر یہ مجموعی طور پر 10فیصد ہو جائے گا اور 9 فیصد سے 29 فیصد پر پہنچ جائے گا۔
حکومت پیٹرول اور ڈیزل سمیت تمام پیٹرولیم مصنوعات پر زیادہ سے زیادہ 50 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی لاگو کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اس کے علاوہ مائع پیٹرولیم گیس پر 30 ہزار روپے فی ٹن لیوی بھی عائد کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: چین سے 2.3 ارب ڈالر قرض کی رقم موصول ہوگئی، مفتاح اسمٰعیل
ساتھ ہی حکومت کی جانب سے اگلے سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے 47 ارب روپے کے ٹیکس ریلیف کا اعلان بھی واپس لے لیا گیا ہے اور ٹیکس چھوٹ کی حد کو 12 لاکھ روپے سے تبدیل کر کے 6 لاکھ روپے کردیا گیا جبکہ 100 روپے کے فکسڈ ٹیکس کو 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے کے درمیان کمانے والے افراد کے لیے 2.5 فیصد ٹیکس سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔
موجودہ حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں سیاسی ردعمل کے خوف سے غیر مقبول ٹیکس اقدامات سے گریز کیا تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے عملی اقدامات کے مطالبے کے بعد حکومت کو کئی امدادی اقدامات واپس لینے پڑے۔
جمعہ کو اعلان کردہ محصولاتی اقدامات 10 جون کو اعلان کردہ 440 ارب روپے کے ٹیکس کے علاوہ ہیں یعنی 23-2022 کے بجٹ میں اعلان کردہ خالص محصولاتی اقدامات اب 905 ارب روپے ہیں۔
مزید پڑھیں: ملک دیوالیہ پن نہیں، ترقی کی راہ پر گامزن ہے، وزیر خزانہ
یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ 400 ارب روپے سے زیادہ کی آمدنی کا بڑا حصہ مالی سال 23-2022 میں متوقع 12.8 فیصد مہنگائی سے حاصل ہو گا جبکہ بقیہ اقتصادی ترقی میں حصہ ڈالے گا۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی تکنیکی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ٹیکس وصولی کا ہدف بھی 70کھرب روپے سے بڑھا کر 74 کھرب 70 ارب روپے کر دیا ہے تاہم نان ٹیکس ریونیو کے ہدف پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے 20 کھرب سے کم کر کے 19کھرب 40 ارب روپے کر دیا گیا۔
تنخواہ دار طبقہ
مجوزہ سلیب کے مطابق 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے سالانہ کمانے والے 2.5 فیصد ٹیکس ادا کریں گے جب کہ 12 لاکھ سے 24 لاکھ روپے کمانے والے پچھلے سال کے مقابلے میں 7.5 فیصد کے بجائے 12.5 فیصد ٹیکس ادا کریں گے۔
سالانہ 24 لاکھ سے 36 لاکھ روپے کمانے والے افراد سے ایک لاکھ 65 ہزار روپے کے علاوہ 24 لاکھ روپے سے زائد رقم کا 20 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
سالانہ 36 لاکھ سے 60 لاکھ روپے کمانے والوں سے 4 لاکھ 5ہزار روپے کے علاوہ 36 لاکھ روپے سے زائد رقم کا 25 فیصد وصول کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ’سپر ٹیکس‘ کے اعلان کے بعد اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی
60 لاکھ سے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے افراد سے 10 لاکھ 5 ہزار روپے کے علاوہ 60 لاکھ روپے سے زائد رقم کا 32.5 فیصد وصول کیا جائے گا۔
آخری سلیب میں سالانہ ایک کروڑ 20لاکھ روپے سے زیادہ کمانے والے افراد سے 29 لاکھ 55 ہزار روپے اور ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد رقم کا 35 فیصد وصول کیا جائے گا۔