پاکستان کے لیے میثاق معیشت ناگزیر کیوں ہے؟
پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران پر کھڑا نظر آرہا ہے اور اب سیاست میں بھی سب سے زیادہ بات معیشت اور معاشی اشاریوں خصوصاً مہنگائی پر ہورہی ہے۔
موجودہ وزیرِاعظم اور ان کے اتحادی جب اسی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے تھے تو ان کی طرف سے حکومت کو میثاق معیشت کی تجویز پیش کی گئی مگر سیاسی وجوہات کی بنیاد پر میثاق معیشت پر عمل نہیں ہوسکا۔ اب جبکہ ملکی معیشت اور عالمی معیشت ایک بحران سے گزر رہی ہے تو ایسے میں پاکستان کے پاس کیا مواقع موجود ہیں اور کیا سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاق معیشت ممکن ہے۔ اس حوالے سے آج کی تحریر میں جائزہ لیں گے۔
میرے خیال میں پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز ایک دائرے میں سفر کررہے ہیں، جیسے کہ ہر مرتبہ ہوتا ہے کہ پاکستان معاشی طور پر ترقی کرتا ہے اور جیسے ہی ترقی 6 فیصد کے قریب پہنچتی ہے تو معیشت میں بیرونی خسارہ یا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ پاکستان جو اشیا برآمد کرتا ہے اس میں ویلیو ایڈیشن کے لیے بڑے پیمانے پر درآمدات بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں اور معیشت کو چلانے کے لیے بڑے پیمانے پر ایندھن بھی درآمد کرنا پڑتا ہے۔
یہ معاملہ پاکستانی معیشت میں ہر چند سال بعد آتا ہے خاص کر جب حکومت کی تبدیلی ہونے والی ہو۔ اسی لیے پاکستان میں آنے والی ہر حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے تاکہ پاکستان اپنی بیرونی ادائیگیوں کو مستحکم کرنے کے لیے زرِمبادلہ ذخائر میں اضافہ کرسکے۔ ایسا سال 2008ء میں بھی ہوا جب بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، پھر 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑا اور وہ دوسرا پروگرام بن گیا جو مکمل ہوا۔
پھر عمران خان جب مسند اقتدار پر آئے تو انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ اب جب 4 سال بعد پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی ہے تو نئی آنے والی حکومت کو ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ چند سال سے نہیں بلکہ گزشتہ 30 سال سے جاری ہے اور پاکستان کی معیشت ایک دائرے میں گھوم رہی ہے۔ جب بھی پاکستان کو بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے اس میں سب سے بڑا بحران زرِمبادلہ کا رہا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں آکر ہماری معیشت زوال کا شکار ہوتی ہے۔
حال ہی میں معیشت کے حوالے سے ایک آن لائن سیمینار نیشنل اکانومی ڈائیلاگ میں شرکت کا موقع ملا۔ اس ڈائیلاگ سے خطاب میں اوورسیز انویسٹر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر غیاث خان نے جو بات کی اس نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کردیا۔
اس ڈائیلاگ سے موجودہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل، سابق وزیرِ خزانہ سینیٹر شوکت ترین اور کارپوریٹ شعبے کی اہم شخصیات نے خطاب کیا۔
مفتاح اسمٰعیل اور شوکت ترین نے معیشت پر تبصرے اور اقدامات کے بارے میں وہی کچھ کہا جو وہ عام طور پر میڈیا پر کہتے ہیں۔ مگر اس مذاکرے میں پاکستان کو غذائی اور توانائی کی قلت کے حوالے سے درپیش مسائل پر شرکا نے توجہ دلائی اور سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاق معیشت پر زور دیا۔ تحریر کو انہی امور کے درمیان اور ماہرین و کارپوریٹ سیکٹر کے خدشات اور تجاویز تک محدود رکھا جائے گا۔
پاکستان کو درپیش معاشی بحران پر غیاث خان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان سمیت دنیا کو جس معاشی اور مالیاتی بحران کا سامنا ہے وہ بہت حد تک مختلف، سنجیدہ اور گہرا ہے۔ یعنی یہ بحران اتنا سادہ نہیں جتنا ہم سمجھ رہے تھے کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر زرِمبادلہ کی قلت کا شکار ہوگیا‘۔
غیاث خان کے مطابق ’اس وقت دنیا کی معیشت کورونا وبا سے نکل رہی ہے۔ معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کورونا وبا کے دوران مختلف حکومتوں کی جانب سے دیے جانے والے معاشی پیکجز کی وجہ سے مہنگائی اور سپلائی چین کے مسائل کا سامنا تھا کہ اس جلتی پر تیل کا کام روس کے یوکرین پر حملے نے کردیا ہے۔ اس بگڑتے عالمی منظرنامے میں پاکستان کے مقامی اور سیاسی حالات کی وجہ سے مزید ابتری ہورہی ہے جس سے دنیا میں غذائی تحفظ اور انرجی سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے لیے عالمی سطح پر معاشی رسک اور مواقع دونوں پیدا ہوئے ہیں‘۔
غذائی تحفظ
غیاث خان کا کہنا تھا کہ ’اقوامِ عالم کے لیے فوڈ سیکیورٹی بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے غذائی اجناس کی طلب بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سال 2050ء تک غذائی اجناس کی طلب دگنی ہوجائے گی۔ سال 2020ء میں 80 کروڑ انسان غذائی قلت کا شکار تھے اور ان میں اضافے کے خدشات ہیں۔ روس اور یوکرین مل کر دنیا کی گندم کا 20 فیصد فراہم کرتے تھے۔ مقامی سطح پر دیکھیں تو پاکستان کی آبادی 2050ء سے پہلے ہی دگنی ہوجائے گی۔ اس لیے معیشت کو سب سے بڑا خطرہ فوڈ سیکیورٹی کا ہے۔
’پاکستان سال 2020ء سے گندم کا درآمد کنندہ ہے۔ اس سال پاکستان 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرے گا اور اگر پاکستان نے گندم کی پیداوار میں اضافہ نہ کیا تو ہماری ادائیگیوں کا توازن مزید بگڑ جائے گا مگر پاکستان کے لیے اس میں ایک موقع بھی ہے۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں اس وقت گندم کی فی ایکڑ پیداوار 30 سے 40 فیصد کم ہے۔ اگر پاکستان اپنی گندم کی پیداوار کو بہتر بنائے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنے کے اقدامات کرے تو پاکستان گندم کے درآمد کنندہ ممالک کی فہرست سے نکل کر برآمد کنندہ کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔‘
انفرا ضامن کی چیف ایگزیکٹو ماہین رحمٰن نے نیشنل اکانومی ڈائیلاگ میں بات چیت کرتے ہوئے غیاث خان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان میں زرعی شعبہ غیر منظم اور بکھرا ہوا ہے۔ ذراعت کا شعبہ دستاویزی بھی نہیں ہے۔ زرعی شعبے میں سپلائی چین، تحقیق اور بیج پر تحقیق کے بڑے منصوبے بھی نہیں ہیں۔ مقامی کمپنیوں اور حکومت کو مل کر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہوگی اور یہ منصوبے اس قدر بڑے ہونے چاہئیں کہ وہ اسٹاک مارکیٹ سے سرمایہ کاری حاصل کرسکیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سیاسی اور معاشی رسک کو الگ الگ کرنے کے لیے چارٹر آف اکانومی پر جانا ہوگا۔ اس وقت ہم صرف لگی آگ بجھانے میں مصروف ہیں جبکہ ہمیں 10 سال کا چارٹر دینا ہوگا جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو دستخط کرنا ہوں گے‘۔
ماہین رحمٰن کے مطابق ’کسانوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پیداوار کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ معیار کو بھی بڑھائیں۔ پاکستان میں بیجوں کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے۔ باقی ہر ملک نے بیج اپنی مقامی زمین اور موسم کے مطابق ڈھال لیے ہیں۔ پاکستان کی زمین منفرد ہے، یہ نہ تو افغانستان اور نہ ہی بھارتی زمین کی طرح ہے۔ پاکستان کو بیج کی طلب مقامی زمینی حالات کے مطابق درکار ہے جس پر تحقیق اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملکی ذراعت کو لارج اسکیل میکنائز فارمنگ پر جانا ہوگا۔ ٹریکٹر کے علاوہ دیگر زرعی میکنائز آلات کا استعمال بڑھانا ہوگا جو گندم، کپاس اور دیگر فصلوں کی پیداوار بڑھائے گی۔ کسانوں کی انجمن سازی ہونی چاہیے تاکہ وہ بیجوں، میکنائزیشن اور دیگر امور پر مل جل کر کام کرسکیں اور جدید ٹیکنالوجی کا بوجھ مل کر اٹھا سکیں۔ ملک میں اجناس کو محفوظ بنانے کے لیے سائلوز اور گوداموں کی ضرورت ہے۔ اس میں حکومت اور نجی شعبہ یا نجی شعبہ از خود بھی یہ کام کرسکتا ہے۔ اس بارے میں یہ ضروری ہے کہ اجناس کے ذخیرہ کرنے کے لیے جو بھی منصوبہ بندی کی جائے وہ بڑے پیمانے پر ہو یعنی کم از کم صوبائی سطح پر‘۔
توانائی کا تحفظ
ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ پاکستان کو توانائی کے تحفظ میں مشکلات درپیش رہی ہیں۔ اور ہر گزرتے دن پاکستان میں توانائی کے تحفظ کے لحاظ سے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ملک میں سوئی کے بڑے گیس ذخائر اور 2 بڑے ڈیمز بنانے کے بعد 1980ء کی دہائی کے اختتام تک پاکستانی معیشت کا انحصار مقامی توانائی پر تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب بڑھنے، ڈیمز کی گنجائش میں کمی اور قدرتی گیس کے ذخائر ختم ہونے سے پاکستان میں انرجی سیکیورٹی اہم مسئلہ بن گئی ہے۔
پاکستان نے جب ایٹمی دھماکے کیے اور ملک پر امریکا سمیت متعدد ملکوں کی پابندیاں لگ گئیں تو ایسے میں سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر مالیت کا مفت ایندھن پاکستان کو فراہم کیا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے مؤخر ادائیگیوں پر ایندھن فراہم کرنے کی سہولت متعدد مرتبہ دی اور یہی سہولت سابقہ حکومت کو بھی دی گئی تھی۔
ڈائیلاگ میں بات کرتے ہوئے غیاث خان کا کہنا تھا کہ ‘روس دنیا میں گیس کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ روس-یوکرین جنگ کے بعد کس طرح سیال اور گیس ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کو توانائی میں اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔ اس وقت پاکستان میں 70 فیصد مقامی گیس اور 30 فیصد درآمدی گیس استعمال ہوتی ہے۔ اگر پاکستان نے اپنے مقامی وسائل پر توجہ نہ دی اور صورتحال اسی طرح سے تبدیل ہوتی رہی تو یہ تناسب الٹ جائے گا اور سال 2030ء تک درآمدی گیس 70 فیصد اور مقامی گیس 30 فیصد رہ جائے گی۔ پاکستان کی مجموعی درآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ایندھن کا ہے۔ رسک بالکل واضح ہے مگر اس میں ایک موقع ہے اور یہ سب کے سامنے ہے کہ ہمیں اپنے مقامی وسائل کا استعمال اور انحصار بڑھانا ہوگا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’تھرکول پاکستان میں مقامی توانائی وسائل کی اہم مثال ہے۔ اس وقت فی کلو واٹ بجلی ایل این جی پر 27 روپے فی یونٹ ہے، درآمدی کوئلے پر 35 روپے ہے جبکہ مقامی کوئلے پر بجلی کی فی یونٹ قیمت 13.4 روپے ہوگی۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل موجود ہیں۔ ہمیں توانائی کی درآمد کم کرنے کے لیے تھرکول کی طرح توانائی کے مقامی وسائل کو بروئے کار لانے کی حکمتِ عملی بنانا ہوگی‘۔
اس حوالے سے ماہین رحمٰن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو متبادل توانائی پر جانا ہوگا کیونکہ پاکستان سالانہ 10 ارب ڈالر کا ایندھن درآمد کرتا ہے۔ اگر آئندہ 2 سال میں پاکستان متبادل توانائی کے استعمال کو 20 فیصد بڑھا لے تو درآمدی بل آدھا ہوکر 5 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ یہی وہ رقم ہے جس کے لیے ہم آئی ایم ایف اور دیگر قرض دینے والے اداروں کے پیچھے گھومتے ہیں۔ عالمی بینک کی تحقیق ہے کہ اگر پاکستان اپنی 0.7 فیصد زمین کو استعمال کرے تو اس کے ذریعے 24 ہزار میگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرسکتا ہے۔ پوری دنیا اس جانب منتقل ہورہی ہے اور دنیا بھر میں متبادل توانائی پر منتقل ہونے کے لیے سرمایہ کاری دستیاب ہے جس کا فائدہ پاکستان اٹھا سکتا ہے۔
میثاق معیشت
پاکستان کی سیاست میں 1990ء کی دہائی 2 بڑی جماعتوں کی لڑائی کی نذر ہوگئی جس کے بعد دونوں جماعتوں نے جلاوطنی کے دور میں میثاق جمہوریت کی دستاویز پر دستخط کیے۔ اس دستاویز پر دستخط کے بعد ہی ممکن ہوا کہ آج پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی اتحادی حکومت قائم ہے۔ میثاق جمہوریت 2 سیاسی جماعتوں کے درمیان طے پانے والی ایک مفاہمتی یاداشت تھی۔ اس کی کوئی قانونی حیثیت تو نہیں مگر اس کی اخلاقی اہمیت مسلمہ رہی جس کے اثرات ملکی سیاست پر دیکھے گئے۔
میثاق جمہوریت کی کامیابی کے بعد سے کاروباری برادری اور کارپوریٹ سیکٹر میں میثاق معیشت پر بات ہورہی ہے۔ اس حوالے سے اس ڈائیلاگ میں شامل کارپوریٹ شعبے کے تمام شرکا کا اتفاق تھا کہ ملک کو موجودہ صورتحال اور مستقبل کے معاشی چیلنجز خصوصاً توانائی اور غذائی سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے مثیاق معیشت کی اشد ضرورت ہے۔ اس میں کم سے کم معاشی ایجنڈے پر بات کی جائے، اس پر عمل درآمد کیا جائے اور حکومتوں کی تبدیلی سے اس پر کوئی فرق نہ پڑے یعنی کم از کم 10 یا 20 سال تک حکومتیں بے شک تبدیل ہوجائیں لیکن اس ایجنڈے اور چارٹر پر کام جاری رہے۔
نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) فنڈز کے ڈاکٹر امجد وحید کا ڈائیلاگ میں کہنا تھا کہ پاکستان کو سیاسی استحکام پیدا کرنا ہوگا۔ انہوں نے عالمی بینک کے سیاسی استحکام اور تشدد کے حوالے سے انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان 149 ملکوں میں 9ویں نمبر پر ہے۔ ہم سے نیچے صومالیہ، مالی، افغانستان، سوڈان اور یمن جیسے ملک ہیں۔ معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی جماعتوں میں اتفاق بہت ضروری ہے۔
اسی ڈائیلاگ سے خطاب میں موجودہ وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے موجودہ مشکل معاشی حالات اور انہیں حل کرنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔ کارپوریٹ سیکٹر کی جانب سے مطالبہ کیے جانے والے میثاق معیشت پر ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حکومت سابقہ حکومت کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے وعدوں کا احترام اور تکمیل کرے گی۔ موجودہ حکومت سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتی اور یہ سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے‘۔ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کی میثاق معیشت کی دعوت کو دھراتے ہوئے کہا کہ میثاق معیشت کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو کم سے کم نکات پر اتفاق کرنا ہوگا۔
سابق وزیرِ خزانہ سینیٹر شوکت ترین کا نیشنل اکانومی ڈائیلاگ سے خطاب میں کہنا تھا کہ ’وہ ذاتی طور پر میثاق معیشت کو بہتر خیال تصور کرتے ہیں‘۔ انہوں نے بھارت کی مثال بھی دی جہاں معاشی ماہر من موہن سنگھ نے ایک معاشی پالیسی دی جس پر صرف کانگریس نے ہی نہیں بلکہ دیگر مخالف حکومتوں نے بھی اس کی روح کے مطابق کام کیا اور ملک کو ترقی دی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت خدمات کی برآمد کرنے والا چھٹا اور مصنوعات برآمد کرنے والا 16واں بڑا ملک ہے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’ملک میں اس وقت سیاسی ماحول بہت کشیدہ ہے اور سیاسی قیادت ایک ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہے مگر انہوں نے میثاق معیشت کو مکمل طور پر خارج از امکان بھی قرار نہیں دیا۔ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’جب تک ملک میں عام انتخابات نہیں ہوجاتے اس وقت تک میثاق پر بات نہیں ہوسکتی ہے۔ انتخابات کے بعد اگر پی ٹی آئی نے حکومت بنائی یا وہ اپوزیشن کا حصہ ہوئی تو وہ ضرور میثاق معیشت پر کام کریں گے‘۔
پاکستان کو درپیش چیلنجز ملکی معیشت کے لیے بہترین مواقع پیدا کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو توانائی اور غذائیت کے حوالے سے مقامی وسائل کو فروغ دینا ہوگا اور یہ چیلنجز کس طرح موقع میں تبدیل ہوں گے اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو کم از کم نکات پر میثاق معیشت کرنا ہوگا۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔