امریکی خاتون رکن کانگریس کی بھارت کو 'خاص تشویش ناک ملک' قرار دینے کی قرارداد
امریکی کانگریس کی خاتون رکن الہان عمر نے ایوان میں ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے سیکریٹری اسٹیٹ اینٹونی بلنکن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بھارت کو ’خاص تشویش ناک ملک‘ قرار دیں۔
امریکی کانگریس کی ویب سائٹ کے مطابق مذکورہ قرارداد قانون ساز راشدہ طالب اور جووان ورگس کی حمایت سے جمع کروائی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت: مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات کی تحقیقات کرنے والے دو وکلا کیخلاف مقدمہ درج
امریکا کی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی رپورٹ کے نتائج کی بنیاد پر قرارداد میں بھارت کو خاص تشویش کا حامل ملک قرار دینے کی دلیل پیش کی گئی ہے۔
قرارداد کا متن
امریکی کانگریس کی ویب سائٹ پر دستیاب قرارداد کے متن میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ نے مسلسل 3 برسوں تک بھارت کو ایک خاص تشویش والے ملک کے طور پر نامزد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
یو ایس سی آئی آر ایف کی 2022 کی سالانہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے قرارداد میں کہا گیا کہ 2021 میں بھارتی حکومت نے اپنی پالیسیوں کو فروغ دیا، جس میں ہندو قوم پرست ایجنڈے کو تقویت دینا بھی شامل ہے اور اس طرح کی پالیسیوں سے بھارت میں رہنے والے مسلمان، عیسائی، سکھ، دلت اور دیگر مذہبی اقلیتیں شدید متاثر ہوئیں۔
قرارداد کے مطابق، یو ایس سی آئی آر ایف رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے ملک کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف موجودہ اور نئے قوانین اور ساختی تبدیلیوں کے استعمال کے ذریعے قومی اور ریاستی سطح پر ہندو ریاست کے اپنے نظریاتی وژن کو منظم کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔
قرارداد میں رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ بھارت میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور انسداد بغاوت کے قانون جیسے قوانین کے استعمال کا مقصد حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے کسی بھی شخص کو خاموش کرنے کے لیے خوف کا ماحول پیدا کرنے کا ایک ہتھکنڈا ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا کہ بھارتی حکومت کی طرف سے مذہبی اقلیتی رہنماؤں پر جبر اور بھارت میں مذہبی رواداری کے لیے آوازیں اٹھانے والے رہنماؤں کے اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن میں جیسوئٹ انسانی حقوق کے محافظ فادر اسٹین سوامی اور مسلم انسانی حقوق کے سربراہ خرم پرویز شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی مسلمانوں پر حملے، پاکستان نے عالمی برادری کو خبردار کر دیا
قرار داد میں کہا گیا کہ رپورٹ میں بھارتی حکومت کی ’بین المذاہب جوڑوں اور ہندو مذہب سے عیسائیت یا اسلام قبول کرنے والوں کو مجرمانہ طور پر ہراساں کرنے اور دباؤ ڈالنے کی بھی متعدد مثالیں شامل ہیں۔
رپورٹ میں بھارتی شہریت کے ترمیمی قانون اور بھارتی مسلمانوں کے لیے نیشنل رجسٹری آف سٹیزنز کے شدید خطرات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جس میں لاکھوں افراد کو ملک سے نکالنے یا غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کے خدشات بھی شامل ہیں۔
قرارداد کے متن کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 میں مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے محلوں، کاروباروں، گھروں اور عبادت گاہوں پر متعدد حملے کیے گئے اور ان میں سے کئی واقعات پرتشدد، بلا اشتعال اور کئی سرکاری اہلکاروں کی طرف سے حوصلہ افزائی کرنے یا اکسانے سے رونما ہوئے تھے۔
یو ایس سی آر آئی ایف کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہےکہ2021 میں ستمبر 2020 میں نافذ کسان قوانین کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے۔
بتایا گیا ہے کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر رونما ہونے والے مظاہروں کے باوجود اب بھی مظاہرین خاص طور پر سکھ مظاہرین کو دہشت گرد اور مذہبی طور پر متحرک علیحدگی پسندوں کے طور پر بدنام کرنے کی کوششیں کی گئیں جن میں خاص طور پر حکومتی عہدیداروں کی طرف سے بھی ایسی کوششیں کی گئیں۔
مزید پڑھیں: بی جے پی رہنماؤں کے پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق گستاخانہ ریمارکس، مزید کئی مسلم ممالک کا غصے کا اظہار
قرارداد میں کہا گیا کہ رپورٹ میں 2021 کے آکسفیم انڈیا کے مطالعے کا مزید حوالہ دیا گیا ہے جس میں پتا چلا ہے کہ بھارت میں کورونا کے اضافے کے دوران ایک تہائی مسلمانوں کے ساتھ ہسپتالوں میں امتیازی سلوک کیا گیا۔
قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ جون 2022 تک یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی مذہبی آزادی یا عقائد سے متعلق متاثرین کی فہرست میں 45 بھارتی شہریوں کی فہرست دی تھی جن میں سے تمام کو ان کی حراست میں لیا گیا تھا اور ضمیر کے ان 45 قیدیوں میں سے 35 تاحال زیر حراست ہیں۔
قرارداد میں محکمہ خارجہ کی 2021 کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جو 2 جون 2022 کو شائع ہوئی تھی۔
الہان عمر نے قرارداد میں کہا ہے کہ بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ نے 2021 کے دوران بھارت میں مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کا منظرنامہ بھی پیش کیا ہے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک پریس کانفرنس کے دوران رپورٹ کا آغاز کرتے ہوئے اینٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ بھارت جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور عقائد کے وسیع ہم آہنگی کا گھر ہے لیکن اب ہم اس بھارت میں لوگوں اور ان کی عبادت گاہوں پر بڑھتے ہوئے حملے دیکھ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: توہین آمیز بیان کے خلاف بھارتی مسلمانوں کا احتجاج جاری
قرارداد میں حوالہ دیا گیا ہے کہ اسی پریس کانفرنس میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کے سیفر رشاد حسین نے کہا تھا کہ بھارت میں متعدد مذہبی اقلیتوں بشمول عیسائیوں، سکھوں، دلت ہندؤوں، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر ہمیں تشویش ہے۔
ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے قراردادکے آخر میں کہا گیا کہ ایوان نے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بین الاقوامی مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ایوان نے بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بدتر سلوک کے بارے میں بھی گہری تشویش کا اظہار کیا اور اینٹونی بلنکن سے مطالبہ کیا کہ وہ 1998 کے بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت بھارت کو ’خاص تشویش کا حامل ملک‘ کے طور پر نامزد کریں تاہم، قرارداد خارجہ امور کی کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔