فلم ریویو: پاکستان کی پہلی ہارر کامیڈی فلم ’پیچھے تو دیکھو‘
فلمی دنیا میں ڈر اور خوف پر مبنی فلموں کا جداگانہ شعبہ ہے۔ پوری دنیا میں اس طرز کی فلمیں بنائی جاتی ہیں جن کو ’ہارر فلمیں‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی فلمیں ہیں، جن میں خوف، دہشت، ڈر، وحشت اور زندگی و موت کی کشمکش پر مبنی کہانیوں کو پیش کیا جائے۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس فلمی شعبے کو مقبول بنانے کے لیے جنس اور گلیمر کا سہارا بھی لیا گیا، پھر اس میں ایک نیا پہلو شامل ہوا، جس کو ’ہارر کامیڈی‘ کہا جاتا ہے۔ اس طرز کی فلموں کو دنیا بھر میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔
پاکستان میں ہارر فلموں کی تاریخ بہت مختصر ہے۔ چند ایک فلموں کا تذکرہ کیا جائے تو ہدایت کار خواجہ سرفراز کی ’زندہ لاش‘، سعید رضوی کی ’سر کٹا انسان‘، عمر علی خان کی ’ذبح خانہ‘، جواد بشیر کی ’مایا‘، عمران حسین کی ’عکس بند‘، اظفر جعفری کی ’سیاہ‘، سید عاطف علی کی ’پری‘، عدنان احمد کی ’آلٹرڈ اسکن‘، ابوعلیحہ کی ’کتاکشا‘ اور ’اودھم پٹخ‘ شامل ہیں۔
کچھ ایسی فلمیں بھی پاکستان میں بنائی گئی ہیں، جن کا شعبہ تو سائیکو تھرلر ہے، مگر ان کو بھی ہارر فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں کامیڈی کے تناظر میں پہلی بار اور باقاعدہ ایک ہارر کامیڈی فلم بنائی گئی ہے جس کا نام ’پیچھے تو دیکھو‘ ہے۔ اس کے ہدایت کار سید عاطف علی ہیں۔ یہ فلم حال ہی میں پاکستان بھر میں ریلیز ہوئی ہے۔ اس طرح کی فلموں کا بننا پاکستانی فلمی صنعت کے لیے خوش آئند ہے، کیونکہ اس طرح ہمارے فلم ساز لگے بندھے روایتی موضوعات سے ہٹ کر فلمیں بنائیں گے تو سینما بینی میں بھی جدت پیدا ہوگی۔ پاکستان کی پہلی ہارر کامیڈی فلم کا تبصرہ پیش خدمت ہے۔
فلم سازی و ہدایت کاری
پاکستان میں ایسی فلموں کو بننا چاہیے، کیونکہ ڈراؤنی فلموں کی صنعت کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہے۔ ہولی وڈ اور پڑوسی ملک بھارت نے اس شعبے میں بہت نام کمایا ہے۔ اس طرح کی ہلکی پھلکی فلمیں بھی تخلیق ہونی چاہئیں۔
اس فلم کے ایگزیکٹیو پروڈیوسرز انیس خان اور حمزہ حبیب اللہ ہیں، جن میں سے پہلی شخصیت کا تعلق فلم کے ایک نجی تقسیم کار ادارے سے ہے، دوسرے ایک پروڈکشن ہاؤس کے مالک ہیں۔ اس فلم کے ہدایت کار سید عاطف علی بھی فلم کے پروڈیوسر ہیں، اس سے پہلے وہ ایک ہارر فلم ’پری‘ بھی بناچکے ہیں۔ زیرِ نظر فلم میں زبیر آفریدی ایسوسی ایٹ ہدایت کار اور ارما علی نائب ہدایت کارہ ہیں۔ پروڈکشن ہیڈ شاہد ملک اور آرٹ ڈائریکٹر ایم اقبال ہیں۔
مرکزی خیال، کہانی اور اسکرپٹ
اس فلم کی کہانی پاکستان کے شہر حیدرآباد میں واقع ایک ایسے بھوت بنگلے کے بارے میں ہے، جس کی شہرت یہ ہے کہ اس عمارت میں داخل ہونے والا واپس زندہ نہیں آتا اور بعد میں اس کی لاش قریبی ندی سے برآمد ہوتی ہے۔
یہ 2 ایسے دوستوں کی کہانی ہے، جو غیر ارادی طور پر ایسے حالات کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں شہر کا ایک بدمعاش اور اس کے حواری غنڈے ان کی جان لینے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں دوست جان بچانے کے لیے اس بوسیدہ اور کھنڈر نما بنگلے میں روپوش ہوجاتے ہیں اور وہاں ان کا واسطہ بھٹکی ہوئی روحوں سے پڑتا ہے۔
وہ ان پُراسرار حالات سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں اور جان بچا کر نکل پاتے ہیں، پوری کہانی اور اس کے کردار انہی حالات کی منظر کشی کرتے ہیں۔ کہانی میں مزاح کے عناصر نے فلم بینوں کی دلچسپی کو برقرار رکھا۔ کہیں کہیں کہانی میں غیر ضروری طوالت محسوس ہوئی، مگر مجموعی طور پر کہانی کی رفتار اور کرداروں کی آمیزش درست سمت میں آگے بڑھتی ہے۔
اس فلم کی کہانی کے خالق سید عاطف علی ہیں جو اس فلم کے ہدایت کار بھی ہیں۔ انہوں نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں لوگ مزاح پسند کرتے ہیں، مجھے چونکہ ڈراؤنی فلمیں پسند ہیں اور کامیڈی میں اطالوی اداکاروں کی جوڑی ’ٹیرنس ہل اور بڈ اسپنسر‘ سے بھی متاثر تھا، یوں میں نے سوچا کہ دونوں پہلوؤں کو یکجا کردوں۔ اس کہانی کو لکھنے میں میری بیگم عنبر عاطف علی نے بھی معاونت کی۔ میں چاہے کسی ڈرامے کے لیے کہانی لکھوں یا فلم کے لیے، پہلے ہم دونوں اس پر بات چیت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، ہم نے مل جل کر اس کہانی کی بنت کی، یہ مکمل اوریجنل آئیڈیا ہے۔
’اس کہانی کو اسکرپٹ میں تبدیل کرنے کے لیے معروف لکھاری منعم مجید نے اہم تجاویز دیں۔ محمد یاسر نے اور میں نے اس فلم کی کہانی کو پھر مکمل طور پر لکھا۔ حیدرآباد بھی گئے، کہانی کے منظرنامے کو حقیقت سے قریب تر رکھنے کے لیے اصل مقام کو دیکھا اور پرکھا۔ جادوئی کہانیوں میں ہم پڑھا کرتے تھے کہ ایک طلسم پیدا ہوجاتا ہے، جس میں موجود ہر کوئی زمان و مکان سے ماورا ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی کردار کھنڈر میں گیا، تو پھر اسے وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں رہا۔ ہم نے بھی اس فلم میں یہی کوشش کی ہے، ایک طلسم میں کردار مگن ہیں اور ان کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ کہانی میں اس طلسم کی تکنیک کو ان معنوں میں استعمال کیا ہے۔'
اداکاری
اس فلم کے 2 مرکزی کردار ہی پوری کہانی کا بوجھ سنبھالے دکھائی دیتے ہیں۔ فلم میں ان کے نام زلفی اور ٹیپو (یاسر حسین اور عادی عدیل امجد) ہیں۔ بدمعاش پھول ماشی کا کردار عامر قریشی نے نبھایا ہے جبکہ ممتاز اور شبنم کے کردار نوال سعید اور سارہ علی خان نے ادا کیے ہیں۔ ہیرو کا کردار ندیم کہلاتا ہے، اس کو نئے ابھرتے ہوئے باصلاحیت اداکار جنید اختر نے نبھایا ہے۔ فلم میں رانی کا کردار، خواجہ سرا کا کردار ہے، اس کو وقار حسین نے بھرپور طور سے ادا کیا ہے۔
اس فلم میں سب سے زیادہ جن کرداروں نے متاثر کیا، ان میں وقار حسین اور عادی عدیل امجد ہی ہیں جنہوں نے پوری کہانی کو اپنی گرفت میں رکھا۔ نوال اور سارہ مزید بہتر اداکاری کرسکتی تھیں لیکن وہ اپنے کردار کو کُھل کر ادا نہیں کرسکیں، یہ ذمے داری ہدایت کار کی ہوتی ہے کہ وہ ان سے کام لے۔
مجموعی طور پر باقی اداکاروں نے متوازن انداز میں کام کیا، بس عامر قریشی اس کردار میں ضائع ہوئے۔ مزید اداکاروں میں حماد صدیقی، شارق محمود، ملک رضا، یاسر تاج، اصغر کھوسو اور دیگر شامل ہیں۔
موسیقی، نغمات، گیت نگاری و دیگر
اس فلم کے موسیقار ’اے کیو آرٹیسن‘ ہیں۔ یہ نئے موسیقار ہیں اور ان کو فلم کے ہدایت کار نے دریافت کیا ہے۔ فلم میں پس منظر کی موسیقی مرتب کرنے کے علاوہ انہوں نے گیتوں کی دُھنیں بنائیں اور کئی گیتوں میں اپنی آواز کا جادو بھی جگایا ہے۔
فلم کے گلوکاروں میں وجیہ الدین میر، مثال زیدی اور مارٹینا تھامس ہیں۔ فلم کے کُل 5 گیت ہیں جن میں سے 4 گیتوں کو معروف شاعر، مصور اور ڈرامہ نگار شمیم باذل نے لکھا ہے۔ یہ گیت بالترتیب ’بھاگ‘، ’خدا وہی ہو‘، ’تم ہو وہی‘ اور ’اک بے درد نے لوٹی دنیا‘ ہیں۔
فلم کے آخر میں ایک گانا چلتا ہے ’حیدرآباد کے چیتے‘ اس کو ایک نئے گلوکار نعمان جلال نے گایا اور اس گیت کو لکھ کر کمپوز بھی کیا ہے۔ فلم کے ڈی او پی اور سینماٹوگرافر عاطف صدیقی ہیں۔ سلمان تہذیب نے فلم کو ایڈیٹ کیا، جبکہ میک اپ سعدیہ ناز کا ہے۔
ویژول ایفیکٹس
حیدر، ابرار اور اسامہ نوجوان آرٹسٹ ہیں جنہوں نے اس فلم کے بصری اثرات یا ویژول ایفیکٹس تخلیق کیے ہیں۔ ان کو دریافت کرنے کا سہرا بھی سید عاطف علی کے سر جاتا ہے۔ وہ شمیم باذل سے دوسری بار اپنی فلم کے گیت بھی لکھوا چکے ہیں، وہ بھی بطور گیت نگار انہی کے ذریعے متعارف ہوئے، ویسے وہ باکمال مصور بھی ہیں۔
اس فلم میں ایک جھیل کا منظر اور اس کا پانی، پھر فلم میں کئی جگہ جنگل کے مناظر اور ڈراؤنی شکلیں، روحوں کا فضا میں معلق ہونا اور پرواز کرنا، سوتے ہوئے لڑکے پر، لڑکی کا پانی بن کر گرنے کا منظر، کنویں میں لڑکی کو گرانے کا منظر، اس کھنڈر کے اردگرد کی چیزیں اور اس طرح کے بہت سارے مناظر انہی بصری اثرات کی بدولت ممکن ہوئے ہیں۔
یہ شاید پہلی پاکستانی فلم ہے جس میں اس قدر تفصیل سے بصری اثرات کا استعمال کیا گیا ہے، حتیٰ کہ مرکزی حویلی، جس میں یہ ساری کہانی اور کردار گردش کرتے ہیں، اس کے کئی مناظر بھی اس کو قابلِ داد بناتے ہیں۔ اس فلم کا ایک مرکزی کردار نبھانے والے یاسر حسین کا کہنا ہے کہ ’میں جب شوٹنگ ختم کرکے آگیا اور جب فلم تیار ہوئی اور میں نے دیکھی، تو فلم کے اندر کی دنیا بدل چکی تھی، جو بصری اثرات کا ہی کمال تھا، مجھے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی‘۔
حرفِ آخر
ہم جیسے فلم کے ناقدین ہمیشہ پاکستانی فلم سازوں سے کہتے آئے ہیں کہ وہ منفرد موضوعات پر فلمیں بنانے کی کوشش تو کریں۔ روایتی اور کمرشل سینما سے ہٹ کر کچھ تخلیق کریں۔ اس بات پر کم فلم ساز ہی کان دھرتے ہیں مگر کچھ فلم ساز ایسے ہیں جنہوں نے تجرباتی بنیادوں پر اس طرح کی فلمیں بنائیں۔
زیرِ نظر فلم بھی ایسی ہی ایک فلم ہے جو شاید بہت معیاری تو نہیں اور نہ ہی اس کی باکس آفس رپورٹ زیادہ حوصلہ افزا ہے لیکن یہ طے ہے کہ یہ ایک منفرد فلم ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے فلم بینوں نے لطف حاصل کیا ہرچند کہ اس میں متعدد تکنیکی غلطیاں بھی تھیں۔
کہنے کو پھر وہی بات ہے، جب منفرد موضوعات پر ہم فلمیں بنانے کے عادی ہوجائیں گے تو پھر معیاری فلمیں بھی بننے لگیں گی، لیکن کوشش تو کی جائے اور یہ فلم ایک اچھی کوشش ہے، جس پر فلم ساز اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت میں ایک مختلف موضوع کا انتخاب کیا، محدود بجٹ کی فلم میں ویژول ایفیکٹس جیسی مہنگی اور مشکل چیز سے بھی استفادہ کیا۔ ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم ایسی فلموں کی حوصلہ افزائی کریں۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔