نقطہ نظر

'یہ پنکھا جب تک گھومے گا تب تک سکون اور تخلیق کی کوئی اہمیت نہیں'

کیا انسان گرمی میں صرف پنکھے کے شور پر اکتفا کرسکتا ہے؟ کیا کبھی غور کیا ہے کہ یہ شور کس قدر زحمت اور بھرپور صوتی آلودگی ہے؟

میں قلم اٹھاتی ہوں اور لکھنا چاہتی ہوں۔ کوئی امرتا پریتم سا افسانہ جسے پڑھ کر ہر درخت اور ہر پتی سے محبت کی کونپلیں نکلتی دکھائی دینے لگیں، جس کا قلم عورت کی ہر اذیت ہر آزمائش رقم کردے اور کوئی بھی لکھنے والی عورت اپنا قلم توڑ دینا چاہے۔

کوئی انتظار حسین سا ناول جس میں صدیاں ایسے گُم ہوجائیں جیسے کبھی وہ تھی ہی نہیں اور انسان پر ایسا سحر طاری ہوجائے جیسے وہ زمان اور مکان کی قید سے نکل چکا ہو۔

کوئی مستنصر حسین تارڑ سا سفرنامہ جس کی طوالت میری دنیا کی لمبائی سے لمبی ہو اور جس کے کردار میرے آس پاس کے لوگوں سے مختلف اور خوبصورت ہوں۔ جس کے مناظر میری تمام زندگی کے کُل مناظر سے بہتر ہوں۔ میں یہ سب لکھنا چاہتی ہوں لیکن پہلی سطر لکھتے ہی میرا قلم ایک آواز پر رک جاتا ہے، میری سوچ کی زرخیزی پر 'گھن گھن گھن' کی تکرار غالب آجاتی ہے۔ میرے تخیل کی پرواز سر پر لگے پنکھے کے پروں سے ٹکرا جاتی ہے اور کہانیاں بننے کے بجائے 'گھن گھن گھن' کے پھیروں میں الجھ جاتی ہے۔

میری نظر چھت پر لگے غضب ناک رفتار میں گھومتے پنکھے میں پھنس کر رہ جاتی ہے جس کا طوفانی شور میرے ماتھے سے بہتا پسینہ تو خشک نہیں کر پاتا مگر میری کہانی کے ہر کردار کو صفحہ ہستی سے غائب کردیتا ہے۔

کیا انسان موسمِ گرما میں صرف پنکھے کے شور پر ہی اکتفا کرسکتا ہے؟ کیا کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ پنکھے کا شور کس قدر غیر ضروری زحمت اور بھرپور صوتی آلودگی ہے؟ کیا آپ پنکھے کے شور والے کمرے میں بیٹھ کر تخلیق کرسکتے ہیں، خوبصورت زبان میں ان چھوئی حقیقتوں کو جی سکتے ہیں، افسانوں کو سچائیوں میں لپیٹ کر اپنی تمام نفاستوں کے ساتھ بن سکتے ہیں؟ لوگ پنکھے کو پس منظر سمجھتے ہیں مگر میرے لیے یہ مرکزی کردار ہے۔ کہانی کے ناول کی طرح جس سے دھیان ہٹتا ہی نہیں، جس سے پرے نظر جانی مشکل ہے۔

ایک گرم کمرہ اور ایک پنکھا، شور مچاتا ہوا، ہر کام اور ہر سوچ میں دخل اندازی کرتا ہوا، اس قدر دخل اندازی کہ بندہ کرسی پر بیٹھا بیٹھا نڈھال ہوجاتا ہے۔ پُرسکون ملکوں اور ٹھنڈے علاقوں میں پُرتعیش زندگی گزارتے معاشروں میں، زندگی کی بہترین سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے غریب معاشروں کے لوگوں کو میٹھے میٹھے خوبصورت بھاشن دینے کس قدر آسان ہیں مگر اس غریب ترین ملک کے پسماندہ ترین معاشرے میں غصے سے غراتے پنکھے اور آگ برساتی گرمی کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ 'تھوڑا دھیرج دھرو!' جب تک آپ اے سی کی قیمت برداشت نہیں کرسکتے، بجلی کے وزنی بل نہیں بھر سکتے، آپ پنکھے اور اس کے غضب ناک شور سے بھی نہیں بچ سکتے۔

یہ غریب کی گرمی اور پسینے سے بچاؤ کی پہلی اور آخری سہولت ہے اور جن کو گرمی اور پسینے کے لالے پڑے ہوں ان کا تخلیق سے، خموشی سے اور ذہنی سکون سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ جن کو روٹی ہی میسر نہ ہو وہ متوازن غذا اور صحت مند خوراک کا فلسفہ کبھی نہیں سمجھ سکتے۔

کیوں ہمارے معاشرے کا غریب طبقہ چلّا چلّا کر، چیختی چنگھاڑتی آواز میں بولنے کا عادی ہے کہ سال کے 6 ماہ پنکھے اور ایئر کولر سے زیادہ بلند آواز میں چلّائیں گے تو ہی قریب بیٹھے دوسرے فرد تک اپنی آواز پہنچائیں گے۔ خدا کے کرم اور واپڈا کی مہربانی سے لوڈشیڈنگ گھڑی گھڑی منہ دکھا کر سکوت اور شور میں فرق مزید دوبالا کرتی رہتی ہے۔ پنکھے کے نیچے بیٹھا بولتا انسان خموش کمرے میں بیٹھ کر اپنی ہی آواز سن لے تو اپنے کانوں کے پردے پھاڑ بیٹھے۔

گرمی کے ایک توڑ نے کانوں کو بہرا اور زبان کو فلک بوس اور اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ ایسے میں کسی کا بھی جھوٹا وعدہ یا میٹھی بات دل کو بھا جاتی ہے اور انسان نخلستانوں کی آس میں سراب راستوں پر نکل پڑتا ہے۔ پھر چاہے وہ آزادی کا نعرہ ہو، جہاد کا یا محض والدین کی مار سے بچاؤ کا، بس انسان اور معاشرہ جو پہلی چیز دکھائی دے اسی طرف لپک پڑتا ہے۔

وہ سکون کہاں ہمارے مقدر میں ہے کہ انسان اچھے بُرے میں اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرسکیں۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کے حواس ہمیشہ لاچار رکھنے والی جہالت اور غربت میں پنکھے کی اپنی ایک نمایاں جگہ ہے جس کا کم سے کم سال کے 6 ماہ انسانوں کو متوجہ اور منتشر دماغ کیے رکھنے میں اہم کردار ہے۔

یہ پنکھا جب تک گھومتا رہے گا کمرے میں اس کے راج پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ اس کے سامنے کسی کے سکون اور تخلیق کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ غصے میں غراتا ہے، چلاتا ہے اور کہتا ہے کہ 'اتنا ہی دماغ خراب ہے تو اے سی لے آؤ! بجلی کا بل بھرو! میں نے کب درخواست کی ہے تمہیں کہ مجھے چلاؤ۔ جاؤ میری جان چھوڑ دو میں تو خود اپنی آواز اور رفتار کی سزا میں بندھا ہوا ہوں'۔

پنکھا غراتا ہے اور مزید زور زور سے چکراتا ہے اور میں تمام دن اس کے نیچے بیٹھ کر صرف یہی سوچ سکتی ہوں کہ اسے چلانا ہے کہ بند کرنا ہے؟ تخلیق کرنی ہے کہ بس صرف جینا ہے؟ آگے کنواں پیچھے کھائی!

غربت کس قدر ظالم چیز ہے جو انسان کو کلمہ تک بھلا دیتی ہے تو یہ سکون، تخلیہ اور تخلیق کیا چیز ہے؟ پنکھے کی موجودگی میں ان تینوں چیزوں کا داخلہ منع ہے۔ غریب ملکوں کے غریب لوگوں کی آخری جائے پناہ یہ پنکھا ہی تو ہے اور غریب معاشروں اور مسکین لوگوں کی زندگیوں سے سکون، تخلیق اور تخلیہ ہمیشہ غیر حاضر رہتا ہے۔

ہمارا نصیب بس یہی ہے کہ ہم ہمیشہ شور میں الجھ کر صحیح اور غلط کی آوازوں سے دُور رہیں پھر چاہے وہ شور غربت کا ہو، جہالت کا یا چھت کے پنکھے کا۔ شور ہمارے اعصاب کو ہمیشہ اس قدر شل رکھے کہ ہم انسانیت کی، اخلاقیات کی یا آدمیت کی کوئی بھی آواز سن نہ سکیں یا سن لیں تو سمجھ نہ پائیں اور سمجھ جائیں تو صرف بیٹھ کر یہی سوچتے رہیں کہ اسے بند کرنا ہے کہ چلانا ہے تو اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔

صوفیہ کاشف

صوفیہ کاشف ادبی مضامین اور افسانے لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ آپ ان کے مزید مضامین ان کی ویب سائٹ SofiaLog پر پڑھ سکتے ہیں اور ان کے ولاگ ان کے یوٹیوب چینل SofiaLog. Vlog

پر دیکھ سکتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔