پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی آخری سالگرہ کی یادیں!
‘بی بی کی یادیں سائے کی طرح میرے ساتھ رہتی ہیں، میں نے انہیں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مارشل لا کے خلاف طویل جدوجہد کرتے، جیلیں کاٹتے اور 2 مرتبہ وزیرِاعظم بننے کے مراحل سے گزرتے دیکھا ہے۔ میرے سامنے وہ زار و قطار روئیں بھی اور کھلکھلا کر ہنسیں بھی۔ وقت نے انہیں بہت کچھ سکھا دیا تھا، بے نظیر اگر زندہ ہوتیں تو آج ملک کا منظر بہت مختلف ہوتا،‘ پاکستان کی سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان نے یہ باتیں محترمہ کی سالگرہ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور 2 مرتبہ منتخب ہونے والی اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو 21 جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انہیں 35 سال کی عمر میں وزارتِ عظمیٰ حاصل ہوئی اور 2 مرتبہ اس عہدے پر فائز رہیں تاہم دونوں مرتبہ ان کی حکومت بدعنوانی کے الزامات پر برطرف کردی گئیں۔
بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت پر اعتراضات موجود ہیں لیکن انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں عورتوں کے حقوق کے لیے مثالی اقدامات کیے جن میں فرسٹ وومن بنک، وومن پولیس اسٹیشن اور یونیورسٹیز میں وومن اسٹڈی سینٹرز کا قیام، سرکاری ملازمتوں میں خواتین کے لیے 5 فیصد کوٹے کا اجرا، لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام، خواتین کی ترقی کے لیے وفاقی وزارت کے قیام جیسے اقدامات شامل ہیں۔
ہم نے محترمہ کی سالگرہ کے موقع پر ان کی پولیٹیکل سیکرٹری اور ‘محرم راز’ ناہید خان سے گفتگو کی ہے۔ ناہید خان نو عمری میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوئیں، 84ء میں محترمہ کے ساتھ کام کا آغاز کیا اور یہ رفاقت اس وقت اختتام کو پہنچی جب 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ گولیاں لگنے کے بعد گاڑی میں اپنے ساتھ بیٹھی ناہید خان پر آگریں اور ان کے ہاتھوں میں دم توڑا۔
ناہید خان نے پاکستان میں محترمہ کی آخری سالگرہ کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’21 جون 98ء کو ہم نے بی بی کی سالگرہ کوکونٹ گروو میں منائی۔ یہ ریسٹورنٹ آرٹس کونسل کے پاس تھا مگر اب ختم ہوچکا ہے۔ بی بی اپنی سالگرہ ہمیشہ نجی سطح پر چند گنے چنے دوستوں کے ساتھ مناتی تھیں البتہ پارٹی کی سطح پر الگ تقریبات ہوتی تھیں۔ اس سالگرہ میں وہ بہت خوش اور خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے شوخ رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور سب دوستوں سے ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔ سالگرہ میں میرے اور صفدر (ناہید خان کے شوہر ڈاکٹر صفدر عباسی) کے علاوہ بی بی کی کلاس فیلوز سمیعہ وحید، سلمیٰ وحید، اسکول کی دوست ٹُچی (مسز راشد)، کزن فخری بیگم، کزن طارق اور اس کی بیگم یاسمین اور کزن کا بیٹا جہانزیب جس کے والدین لندن میں تھے اور وہ اپنی تعلیم کی وجہ سے بی بی کے پاس رہتا تھا شریک تھے۔ بی بی کا پسندیدہ چاکلیٹ کیک منگوایا گیا تھا۔ بے نظیر اپنے دوستوں کے حلقے میں دل کھول کر ہنستی تھیں، وہ مزاح پسند کرتی تھیں اور خود بھی لطائف سناتی تھیں۔ پاکستان میں یہ ان کی آخری سالگرہ ثابت ہوئی، کیونکہ اپریل 1999ء میں وہ دبئی چلی گئی تھیں۔
ناہید خان نے بتایا کہ ’بی بی سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئی تھیں، ناز و نعم میں پرورش پائی تھی لیکن جس طرح کم عمری میں ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے، اگر ان کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو بِکھر جاتی۔ وہ 26 سال کی تھیں جب ان کے والد کو پھانسی دی گئی، اس کے بعد ان کے لیے طویل جدوجہد بھری زندگی کا آغاز ہوا۔ میں جب تک ان سے نہیں ملی تھی ان کے بارے میں یہی جانتی تھی کہ وہ ذوالفقار بھٹو کی بڑی صاحبزادی ہیں اور اپنے والد کی سزا کے خلاف جدوجہد کررہی ہیں۔
'84ء میں میری ان سے لندن میں جام صادق صاحب کے ہاں پہلی ملاقات ہوئی۔ پاکستان میں یہ مارشل لا کا بدترین دور تھا، بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو ناصرف سزائے موت اور کوڑوں کی سزائیں دی جارہی تھیں بلکہ وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ جاری تھی اور چادر اور چار دیواری کے حقوق پامال کیے جارہے تھے۔ یہ کسی بھی گھر میں گھس کر لوگوں کو اٹھا لے جاتے تھے۔ میرے اپنے 14 سالہ بھائی اور افغانستان سے آئے ہمارے کزن کو بھی گھر سے اٹھا لیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن ہونے کی وجہ سے میں اور دیگر ساتھی مکمل زیرِ عتاب تھے۔ صفدر ہمدانی، اقتدار شاہ، ابن رضوی، ریاض خان اور میرے خلاف کیس بنا دیے گئے اور گرفتاری سے بچنے کے لیے ہم سب ملک چھوڑ کر لندن چلے گئے۔ یہ 83ء کا اختتام تھا۔ جام صادق لندن میں مقیم تھے اور وہ ہم نوجوانوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ہم انہیں چاچا کہتے تھے، مجھے انہوں نے اپنی بیٹی بنایا ہوا تھا۔ انہی کے گھر پر میری پہلی مرتبہ بی بی سے ملاقات ہوئی۔ وہ نہایت گرم جوشی سے ملیں اور اسی روز مجھ سے کہا کہ ‘کیا آپ میرے ساتھ کام کرنا چاہو گی‘۔ میں نے کہا ‘کیوں نہیں! یہ میرے لیے اعزاز ہوگا’۔ اس پر انہوں نے کہا ‘کل سے میرے پاس آجاؤ’۔
'اس کے بعد سے کوئی دن ایسا نہیں تھا جب میں ان کے ساتھ نہ ہوں۔ میں صبح سے بی بی کے پاس چلی جاتی اور رات تک وہیں رہتی اور دوسرے ساتھی بھی پہنچ جاتے۔ بی بی ہم سے مارشل لا کے خلاف سفارتخانوں کو خط لکھواتیں، ہم انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے کرتے، سردی، بارش کی پرواہ کیے بغیر احتجاجی مظاہرے کرتے، خصوصاً پاکستان سے کوئی حکومتی فرد آتا تو ہم سفارتخانے پر جاکر احتجاج کرتے تھے۔ بی بی نے پاکستان میں بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد خود ضیا حکومت کے بدترین جبر کا سامنا کیا تھا، لاٹھیاں کھائیں، جیلیں کاٹیں لیکن کوئی ظالمانہ ہتھکنڈا اس نازک وجود کو نہ توڑ سکا۔ لندن میں وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ بھٹو صاحب کے نظریہ جمہوریت کو فروغ دے رہی تھیں۔ بی بی کی قیادت میں مارشل لا کے خلاف ہماری جدوجہد کو بیرونی دنیا میں پزیرائی حاصل ہورہی تھی۔ لندن میں لارڈ ایوبری ہماری جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے لیے یہ ایک نہایت مشکل وقت تھا۔ نو عمر بے نظیر کو اپنے والد کی پھانسی کے صدمے کے ساتھ، پیپلز پارٹی کو سنبھالنے کا چیلنج درپیش تھا جس کی ذمہ داری اچانک ان کے نازک کاندھوں پر آگئی تھی۔ پاکستان میں بھٹو کے انتہائی قریبی ساتھی اور جغادری رہنما پیپلز پارٹی کو چھوڑ گئے تھے۔ ایم آر ڈی کی تحریک بھی اچانک ختم کردی گئی تھی اور کارکنوں کے خلاف مارشل لا کا کریک ڈاؤن جاری تھا۔
'بی بی پاکستان فون کرتیں تو ان کو کارکنوں کی گرفتاریوں اور سزاؤں کی خبر ملتی تھی۔ اس دوران بی بی نے نہایت حوصلے، ہمت اور سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چومکھی لڑائی لڑی۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے کارکنوں سے رابطہ نہیں ٹوٹنے دیا، جس کارکن کا خط ملتا یا کسی کی تکلیف کے متعلق خبر پہنچتی تو بی بی خود فوری نوٹس لیتیں اور ان کی فیملیز سے رابطہ رکھتیں۔ انہوں نے عوام سے اور کارکنوں سے اپنا تعلق اتنا مضبوط بنایا کہ جب 86ء میں وہ پاکستان واپس آئیں تو ان کا فقید المثال استقبال دنیا نے دیکھا۔ کارکنوں سے یہ تعلق انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک نہیں ٹوٹنے دیا۔‘
ناہید خان نے کہا کہ ’بے نظیر بھٹو سیاست میں مفاہمت اور رواداری پر یقین رکھتی تھیں، جب 80 کی دہائی کے آخر میں وہ پاکستان آئیں تو اس وقت کراچی میں الطاف حسین سیاست میں سرگرم تھے۔ بے نظیر نے مہاجر قومی موومنٹ کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا۔ مجھے انہوں نے مفاہمت کا پیغام دے کر نائن زیرو بھجوایا تھا۔ میں الطاف حسین سے ملی اور انہیں کہا کہ بی بی چاہتی ہیں کہ سندھ میں سب کو مل کر رہنا چاہیے۔ بی بی کے پیغام کے بعد الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی رہنما زریں مجید 70 کلفٹن بی بی سے ملنے آئے تھے۔ وزیرِاعظم بننے کے بعد بی بی خود بھی نائن زیرو آئی تھیں۔وہ اپنے بدترین مخالفین پر بھی مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتی تھیں، اسی لیے نوازشریف کے ساتھ بھی میثاقِ جمہوریت کا معاہدہ کیا تھا‘۔
ناہید خان نے بے نظیر بھٹو کی ذاتی زندگی کے حوالے سے یاد تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاست میں بی بی کی شخصیت ایک کرشماتی حیثیت رکھتی تھی اور بڑے بڑے لیڈر ان سے سوچ سمجھ کر بات کرتے تھے، لیکن ذاتی زندگی میں وہ بالکل درویش منش تھیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت خوش ہوجاتی تھیں۔ انہیں چٹپٹے کھانے پسند تھے۔ مجھے یاد ہے کراچی میں جب ہم بی بی کے ساتھ آصف زرداری صاحب سے جیل میں ملنے جاتے تو واپسی پر منور سہروردی (مرحوم) ہمیں جیل کے نزدیک واقع اپنے گھر لے جاتے۔ ان کی بیگم ناہید حیدرآبادی کھانے بناتیں۔ خوبانی کا میٹھا اور اچار چٹنی بی بی بہت شوق سے کھاتی تھیں۔ کبھی اچانک ان کا دل چاہتا اور وہ کہتیں کہ برنس روڈ کے دہی بڑے کھانے چلو، بس پھر بی بی، میں، صفدر اور منور چپکے سے بغیر سیکیورٹی کے گاڑی میں نکل جاتے۔ بی بی کے ساتھ چاٹ اور دہی بڑے کھاتے۔ لندن کی فریمونٹ اسٹریٹ پر بھی وہ چٹپٹے کھانوں کے لیے جاتی تھیں‘۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’بی بی نہایت سادہ مزاج تھیں اور دولت مند خاندان سے تعلق کے باوجود ان میں غرور نہیں تھا۔ عوام میں گھل مل جاتیں، ان کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ جاتیں، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتی تھیں۔ مجھے یاد ہے بی بی کی شہادت سے کچھ عرصہ پہلے عید کے دنوں میں ہم نوڈیرو آئے تھے۔ انتخابی مہم کے سلسلے میں نادر مگسی نے شہداد کوٹ میں جلسہ رکھا تھا۔ بی بی نے خطاب کیا اس کے بعد ہم وہاں سے نکل آئے۔ راستے میں کوریجا نامی گاؤں آیا جہاں بچے کھیل رہے تھے، بی بی نے نثار کھوڑو سے کہا کہ یہاں گاڑی روکیں، مجھے ساتھ لے کر نیچے اتریں کہ بچوں کو عیدی دیتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کو 100، 100 کے نوٹ دینا شروع کیے، بچے لپک لپک کر آنے لگے۔ ایک بچے نے اپنا نوٹ چھپا کر دوبارہ مانگا تو مجھ سے کہنے لگیں ‘دیکھو بدمعاشی کررہا ہے’۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں بہت سے بچے جمع ہوگئے اور انہوں نے دھکم پیل شروع کردی۔ وہاں قریب میں ہی نہر بہہ رہی تھی، بی بی نے مجھے بازو سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے کہنے لگیں ’بھاگو ورنہ یہ تو ہمیں پانی میں دھکیل دیں گے‘۔
ناہید خان نے یہ بھی بتایا کہ بی بی اولیا کرام پیروں، درویشوں، ان کی درگاہوں کا بہت احترام کرتی تھیں۔ ’نوڈیرو میں قیام کے دوران ہم پیر سائیں حسین شاہ سے ملنے گئے، وہ وہیل چیئر پر بیٹھتے تھے۔ زمین پر چٹائی بچھی ہوئی تھی، بی بی آرام سے نیچے چٹائی پر بیٹھ گئیں۔ میں بھی پاس بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد ہماری تواضع کے لیے چائے بسکٹ لاکر رکھے گئے۔ وہاں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ بی بی نے بسکٹ اٹھا کر کھانا شروع کیا، مجھے کھاتے ہوئے ہچکچاہٹ ہو رہی تھی، بی بی مجھے نظروں سے اشارہ کرنے لگیں کہ میں بھی بسکٹ کھاؤں تو میں نے بادل نخواستہ کھا لیا۔ وہاں سے نکلے تو بی بی نے مجھے کہا ’دیکھو اگر ہم ان کی رکھی چیزیں نہیں کھاتے تو ان کا دل ٹوٹ جاتا’۔
بی بی نے اپنے بچوں کی تربیت میں بھی اخلاقی اقدار کو یقینی بنایا۔ بقول ناہید خان کہ وہ بچوں کو اکانومی کلاس میں سفر کرواتی تھیں۔ ایک مرتبہ دبئی کے سفر کے دوران بچے اپنی آیا کے ساتھ اکانومی میں بیٹھے تھے، ایک صحافی بھی اس فلائیٹ میں تھے۔ انہوں نے بی بی سے کہا میں نے آپ کے بچوں کو پیچھے بیٹھے دیکھا ہے تو بی بی کہنے لگیں ’ہاں وہ اس لیے تاکہ انہیں اس زندگی کا تجربہ ہو’۔ وہ اپنے بچوں کی اسکول میں تعلیم کے علاوہ ان کے دوستوں اور ان کے جیب خرچ کی بھی معلومات رکھتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ بچے صرف تعلیم پر توجہ رکھیں اس کے بعد جو بھی کیریئر اپنانا چاہیں۔
بے نظیر بھٹو اپنی شہادت سے ایک ہفتے قبل بے پناہ مصروف رہیں، وہ انتخابی دورے کر رہی تھیں، ناہید خان بھی اس دوران مستقل ان کے ساتھ تھیں۔ ناہید خان نے بتایا کہ 'بی بی کی زندگی کے آخری دنوں میں ان کے طرزِ عمل اور باتوں میں مجھے غیر معمولی پن محسوس ہوا'۔
ناہید خان بتاتی ہیں کہ 'ان کی شہادت سے پہلے کی عیدالاضحیٰ جو 20 دسمبر 2007ء کو تھی، ہم گڑھی خدا بخش گئے۔ بی بی بھٹو خاندان کے قبرستان جاتیں تو پہلے اپنے والد اور پھر بھائیوں کی قبر پر جاتی تھیں مگر اس روز انہوں نے یہ کیا کہ پورے قبرستان کا چکر لگایا، سب رشتے داروں کی قبروں کا جائزہ لینے لگیں۔ خورشید جونیجو ہمارے ساتھ تھے، انہیں ہدایات دیتی رہیں کہ یہ چچا کی قبر ٹھیک کروائیں، اس قبر کو بھی مرمت کی ضرورت ہے، وہ ہر قبر کے کتبے کو بھی پڑھ رہی تھیں، ایک قبر پر رکیں اور کہنے لگیں ‘بھٹوز اپنی زندگی کے 50 سال بھی نہیں پورے کر پاتے’ پھر ایک دم ہنستے ہوئے بولیں ’مگر میں نے تو 54 کرلیے ہیں’۔
'اس کے بعد وہ اپنے والد کی قبر پر بیٹھ گئیں اور مجھے کہا کہ سورۃ رحمٰن نکال دیں، سورۃ پڑھ کر اٹھیں اور اپنے بھائیوں کی قبروں پر گئیں، فاتحہ پڑھ کر جب ہم نکل رہے تھے تو بی بی جاتے ہوئے، دروازے سے مڑ کر واپس آئیں، مرتضٰی بھٹو کی قبر کے پاس عین اس جگہ جہاں آج ان کی قبر ہے کھڑی ہوگئیں، ان کے بائیں جانب خورشید اور دائیں ہاتھ میں کھڑی تھی۔ بی بی نے مرتضیٰ کی قبر جس پر تعمیراتی کام ہو رہا تھا اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے خورشید جونیجو سے پوچھا ‘یہ مزار کب مکمل ہوگا، پھر اچانک کہا ’میں نے بھی تو اب یہیں آنا ہے’۔ میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہا کیوں ناہید ہمیں بھی تو یہیں آنا ہے۔ میں نے فوراً کہا بی بی اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ خورشید نے بھی یہی کہا اور انہیں مزار کے متعلق تفصیل بتانے لگے۔
'اسی دوران خورشید نے بی بی سے کہا کہ آپ یہاں ہیں تو ہمیں پروگرام دے دیں، 5 جنوری کو بھٹو صاحب کی سالگرہ کا جلسہ لاڑکانہ میں رکھتے ہیں، جواب میں بے خیالی میں بی بی کے منہ سے نکلا کہ ‘میں تو نہیں ہوں 5 جنوری کو’۔ پھر چونک کر میری طرف دیکھا اور پوچھا کہ اس تاریخ کو ہمارا کیا پروگرام ہے۔ میں نے بتایا کہ شاید ہمارا سیالکوٹ میں جلسہ ہے تو اس پر کہنے لگیں کہ ہاں ہمارا تو جلسہ ہے۔'
دسمبر کو لاڑکانہ میں جلسہ تھا، ہم گھر واپس آئے تو رات کو مجھے کہنے لگیں کہ میرے پاس بہت سے کپڑے، چادریں پڑی ہیں جو مجھے بانٹنی ہیں تم پروین (قائم خانی) کو بلا لو وہ ضرورتمندوں میں بانٹ دیں گی۔ انہوں نے اپنے کپڑے اور دیگر سامان نکال کر بانٹنے کے لیے دے دیا۔
بقول ناہید خان '23 دسمبر کو جلسے میں وہ بار بار ’قائدِ عوام‘ کا نام لیتی رہیں، بار بار گڑھی خدا بخش کی طرف منہ کرکے بھٹو صاحب سے مخاطب ہوکر کہہ رہی تھیں کہ آج بھی تیرے یہ بیٹے بیٹیاں تجھے یاد کرتے ہیں۔ جلسے سے واپس ہمارے گھر (بیگم اشرف عباسی کے گھر) آئیں، کھانا کھایا اور فارغ ہوکر برآمدے میں لگے جھولے پر بیٹھ گئیں۔ سب سے باتیں کرتی رہیں پھر کچھ دیر بعد کمرے میں آکر آرام کرنے لگیں اور مجھے بلاکر کہا کہ صفدر کے علاوہ کسی کو نہیں بتانا ہم یہیں سے پنجاب کے دورے کے لیے آج ہی روانہ ہوں گے، تم چیتا (ان کی خادمہ) سے کہو گھر جاکر میرا سامان لے آئے، میں نے پوچھا کہ آپ خود گھر نہیں جا رہیں تو انہوں نے منع کردیا۔ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق وقت پر جلسے کے لیے پہنچنا چاہتی تھیں۔ آخری دن اپنے گھر بھی نہ گئیں اور ہمارے گھر سے ہی پنجاب کے لیے مہم پر روانہ ہوگئیں۔ میں اور صفدر ان کے ساتھ ہی تھے۔ اگلے دن رحیم یار خان میں جلسہ تھا وہ ان کی توقع کے مطابق نہیں تھا تو منتظمین پر ناراض ہوئیں کہ آپ لوگوں کو محنت کرنی چاہیے تھی، آپ جانتے ہیں ہمارے لیے ایک ایک سیٹ کتنی قیمتی ہے۔ اس کے بعد پھر جلسے پر جلسہ کرتے ہوئے ہم ملتان، لودھراں اور دیگر جگہوں پر گئے۔
'26 تاریخ کو ہمارا پشاور میں جلسہ تھا، وہاں ہم ظاہر شاہ کے گھر پر ٹھیرے۔ پشاور میں جلسہ ہوا وہ بھی ان کو زیادہ پسند نہیں آیا تھا، جلسے سے پہلے پشاور پولیس نے 2 خودکش بمبار پکڑے تھے۔ ہمارے ایک لیڈر نے آکر مجھے کہا کہ بی بی سے پہلے کی تقریریں مختصر کروائیں اور بی بی سے بھی گزارش کریں کہ مختصر تقریر کریں۔ میں نے جاکر ان کو کان میں ساری بات بتا دی۔ اب دوسرے لوگوں کی تقریریں تو مختصر تھیں مگر بی بی نے اس روز معمول سے لمبی تقریر کی۔ عموماً وہ 50 منٹ بولتی تھیں مگر اس دن ایک گھنٹہ 10 منٹ تقریر کی اور کھل کر دہشتگردی کے خلاف بات کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے خودکش بمباروں سے ڈراتے ہیں، شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ جلسہ ختم کرکے نکلے تو وہاں بھی لوگ بی بی کے راستے میں، اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے تھے، ہاتھ ہلا رہے تھے۔ بی بی بھی اپنی گاڑی کی چھت کھول کر کھڑی ہوگئیں اور ہاتھ ہلانے لگیں۔ مجھ سمیت ہمارے کئی لیڈران مخدوم امین فہیم، یوسف رضا گیلانی و دیگر بی بی کو منع کرتے تھے کہ آپ اس طرح عوام میں نہیں نکلیں، سیکیورٹی رسک ہیں، تو بی بی اس پر خفا ہوجاتیں اور کہتیں کہ ایسے سیاست کرنی ہے تو بہتر ہے میں دبئی واپس چلی جاؤں اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کروں، تم لوگ بھی چھوڑ دو سیاست اگر عوام میں جانے سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
'اس جلسے سے واپسی پر ظاہر شاہ کے گھر پہنچے تو کافی دیر ہوچکی تھی۔ انہوں نے ہمارے سامنے ڈرائی فروٹس رکھے۔ بی بی کو سخت بھوک لگ رہی تھی کیونکہ وہ تو 7، 8 بجے تک رات کا کھانا کھا لیتی تھیں۔ مجھے کہا کہ سجاول (ڈرائیور) سے کہو کہ چپلی کباب وغیرہ لے آئے ہم یہاں سے نکلتے ہیں تو راستے میں کھالیں گے۔ میں نے منگوا لیے۔ جب ہم نکلے تو مجھے ہنستے ہوئے کہنے لگیں ’تم پشاور والے مہمانوں کو ڈرائی فروٹس پر ٹرخاتے ہو’۔ میں نے کہا بی بی ان بے چاروں کو کیا پتا تھا کہ ہم واپس ان کے گھر آئیں گے اور دیر بھی اتنی ہوگئی کہ کھانے کا انتظام کرتے۔ بی بی کہنے لگیں کہ مذاق کر رہی ہوں۔ پھر بولیں کہ لاؤ چپلی کباب کہاں ہیں۔ میں نے ڈرائیور سے لے کر ہاٹ پاٹ انہیں دیا۔ گاڑی میں ان کے ایک طرف رحمٰن ملک بیٹھے تھے، دوسری طرف میں تھی، پیچھے خالد شہنشاہ اور سیکورٹی افسران بیٹھے تھے۔ بی بی نے ہاٹ پاٹ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیا اور ایک ایک نان پر چپلی کباب رکھ کر سب کو دیا۔ پھر گاڑی رکوائی اور پیچھے آنے والی سیکیورٹی کی گاڑی میں بیٹھے لوگوں کو بھی نان کباب دیے۔ بی بی کے ساتھ یہ ہمارا یادگار ڈنر تھا۔
'اگلے دن بھی (27 دسمبر) جلسہ تھا۔ ہم رات گئے اسلام آباد پہنچے، میں نے بی بی سے اجازت لی اور پنڈی آگئی کیونکہ صفدر اور دیگر رہنماؤں کے فون آرہے تھے۔ ہمیں جلسے کے انتظامات دیکھنے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس رات 2 یا ڈھائی بجے کے قریب آئی ایس آئی کے چیف جنرل ندیم تاج آئے تھے اور انہوں نے بی بی کو کہا تھا کہ آپ کی جان کو سخت خطرہ ہے آپ کل جلسے میں نہ جائیں لیکن بی بی ان باتوں سے نہیں ڈرتی تھیں، وہ ایک بہادر لیڈر تھیں۔
'27 کی صبح ان کی حامد کرزئی سے ملاقات تھی۔ میں دن ڈیڑھ بجے کے قریب ان کے گھر پہنچی تو ملازم نے کہا بی بی کئی مرتبہ آپ کا پوچھ چکی ہیں خیر میں ان کے پاس گئی تو پہلے مجھے کھانا کھانے کو کہا، میں نے کہا ابھی بھوک نہیں۔ اس کے بعد اپنی تقریر نکالی اور ڈسکس کرنے لگیں۔ پھر پوچھا کہ ہم کتنے بجے نکلیں گے، میں نے کہا 3 بجے تک کیونکہ اس کے بعد یہاں اندھیرا شروع ہوجاتا ہے۔ ٹھیک ساڑھے 3 بجے جب ہم نکل رہے تھے تو انہوں نے مجھے لائف جیکٹ دی اور کہا کہ یہ پہن لو، میں نے کہا کہ بی بی میں نے فٹنگ والی شرٹ پہنی ہے یہ نہیں پہن سکوں گی تو اصرار کیا کہ نہیں یہ ضرور پہن لو، خیر میں نے ان سے جیکٹ لے کر اپنے پاس رکھ لی۔
'ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ راستے میں مجھے صحافی محسن نقوی کا فون آیا تو بی بی کہنے لگیں کہ میری بھی بات کرواؤ اور اس سے انہوں نے کافی لمبی بات کی۔ لیاقت باغ کے راستے میں سینٹ میری اسکول آتا ہے وہاں بہت سے لوگ جمع تھے، وہ جئے بھٹو کے نعرے لگارہے تھے۔ بی بی نے وہاں گاڑی کا ہیچ کھلوایا اور اٹھ کر کھڑی ہوگئیں، لیاقت باغ تک پہنچنے تک ایسے ہی کھڑی رہیں۔
'جلسہ گاہ میں ہم پہنچے تو بی بی لوگوں کی تعداد دیکھ کر بہت خوش ہوئیں، حقیقتاً یہ بہت بڑا جلسہ تھا اور لیاقت باغ میں تل دھرنے کی جگہ نظر نہیں آتی تھی۔ ماضی میں پنڈی کے جلسے زیادہ اچھے نہیں ہوتے تھے۔ بی بی نے اس جلسے میں سوات میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے اور دہشتگردی کے خلاف کھل کر بات کی۔ ایک اور اہم بات اس جلسے کی یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے جتنے ٹکٹ ہولڈر تھے ان سب کو اسٹیج پر کھڑا کروایا اور کہا کہ مجھے حلف دو کہ تم میرے کارکنوں کا خیال رکھو گے، اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں کا نہیں، انہوں نے 3 مرتبہ ان سے یہ کہلوایا۔ اس سے پہلے انہوں نے کبھی ایسے نہیں کیا تھا۔
'جلسے کے دوران جب وہ اسٹیج پر بیٹھی ہوئی تھیں تو مجھے اشارے سے بلایا اور کہا ‘کیا تمہیں سامنے وہ 2 درختوں کے درمیان کچھ نظر آرہا ہے‘۔ میں نے دیکھا تو سامنے ٹنڈ منڈ سے درخت تھے، خزاں کی وجہ سے پتے جھڑے ہوئے تھے۔ میں نے کہا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ مسکرائیں اور مخدوم صاحب جو ان کے ساتھ بیٹھے تھے، ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’مخدوم بھی یہی کہہ رہے ہیں، شاید میری نظر خراب ہوگئی ہے، کراچی واپس جاکر یاد کروانا میں چیک کرواتی ہوں۔
'جلسے میں بی بی نے بہت نعرے لگوائے۔ جلسے کی کامیابی پر وہ حد درجہ خوش تھیں۔ باہر نکل کر جب ہم گاڑی میں بیٹھنے لگے تو میں بائیں جانب بیٹھ گئی، بی بی نے مجھے آواز دے کر کہا کہ کہا تم میری دائیں جانب آؤ اور صفدر کو بھی یہاں بُلا لو، مجھے کچھ بات کرنی ہے۔ عموماً بی بی ہمیں نہیں کہتی تھیں کہ کس طرح بیٹھنا ہے، مگر ہاں سیکیورٹی کے تحت ہم انہیں درمیان میں بٹھاتے۔ ایک طرف میں اور دوسری جانب کوئی اور بیٹھ جاتا۔ بی بی نے اس سے پہلے گھر میں مجھ سے ذکر کیا تھا کہ انہوں نے صفدر سے ٹکٹوں کے معاملات ڈسکس کرنے ہیں۔ دوسرے انہوں نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ زرداری صاحب میری انتخابی مہم کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں لیکن میں نے انہیں منع کردیا ہے۔ بی بی سمجھتی تھیں کہ یہ انتخابات ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس موقع پر کوئی اونچ نیچ نہیں چاہتی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ صفدر سے ڈسکس کرنا ہے کہ جن علاقوں میں ہمارے امیدوار کمزور ہیں، وہاں کیا حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ میں نے صفدر کو بھی بی بی کی گاڑی میں بُلا لیا۔ اس رات کو چند امریکی سینیٹرز بھی ان سے ملنے آرہے تھے۔
'ہماری گاڑی جب جلسہ گاہ سے باہر نکل رہی تھی تو لوگوں نے گاڑی کو گھیر لیا کچھ لوگ بونٹ پر بھی چڑھ گئے، گاڑی آگے نہیں بڑھنے دے رہے تھے، اس دوران یہ اطلاع آچکی تھی کہ میاں نواز شریف کی سیکیورٹی گاڑی پر حملہ ہوا اور ان کے 8 کارکن شہید ہوگئے۔ بی بی نے گاڑی میں مجھ سے کہا کہ میری میاں صاحب سے بات کروا دو، ان سے اظہارِ افسوس کرتی ہوں۔ میں نے جیسے ہی فون ملایا اور ابھی پہلی بیل ہوئی تو بی بی نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر مجھے روک دیا اور کہا بعد میں بات کرتی ہوں کیونکہ اس دوران گاڑی کے باہر لوگوں کا شور وغل بہت بڑھ گیا تھا۔ جئے بھٹو، جئے بے نظیر، وزیرِاعظم بے نظیر کے نعرے لگ رہے تھے۔
'بی بی کہنے لگیں ‘میں ان کو ہاتھ ہلا دوں’۔ انہوں نے گاڑی کا ہیچ کھلوایا اور ڈرائیور سے کہا کہ مجھے میگا فون دیں۔ اٹھنے سے پہلے صفدر سے کہنے لگیں ’ہاؤ اباؤٹ سم نعراز’ اور صفدر کو مائیک پکڑا دیا۔ اب صفدر نعرے لگانے لگے اور بی بی اٹھ کر ہیچ سے سر باہر نکال کر کھڑی تھیں۔ بی بی خود بھی زور زور سے نعروں کا جواب دے رہی تھیں۔ میں اس دوران گاڑی کی کھڑکی سے سر لگائے سیاہ شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی۔ دیکھا لوگ ناچ رہے تھے، بی بی کی تصاویر اٹھائی ہوئی تھیں، نعرے لگ رہے تھے، نہایت گرمجوشی کا ماحول تھا، اتنے میں ایکدم فائر کی آواز آئی، میں نے دل میں سوچا کسی نے پٹاخا چلادیا، فوراً ہی دوسرے فائر کی آواز آئی اور سیکنڈز کے دوران ہی میرے اوپر کچھ گِرا، میں جیسے ہی مڑی دیکھا بی بی خون میں لت پت مجھ پر گر گئی تھیں۔ میں بُری طرح چیخنے لگی، صفدر جلدی سے بی بی کی نبض دیکھنے لگے، بی بی کا خون فوارے کی طرح بہہ رہا تھا میں نے اپنا دوپٹہ ان کے سر پر باندھ دیا۔
'میرے کپڑے ان کے خون سے تر بتر ہوگئے تھے ۔صفدر ڈاکٹر ہیں، انہوں نے بتایا کہ بی بی کی نبض نہیں چل رہی۔ گاڑی کے اندر قیامت کا عالم تھا، ہیچ کھلا ہونے کی وجہ سے ہمیں کرچیاں آکر لگیں تھیں مگر اس وقت ہمیں اپنا ہوش ہی نہیں تھا، بی بی کے گرنے کے بعد بم بلاسٹ ہوا تھا، گاڑی کا ٹائر پنکچر تھا۔ ہمیں فوری اسپتال پہنچنا تھا، ڈسٹرکٹ اسپتال نزدیک تھا لیکن پولیس کی گاڑیوں نے راستے بند کیے ہوئے تھے۔ ڈرائیور نے گاڑی بڑی سڑک کی طرف نکال لی، اسی دوران گاڑی بند ہوگئی، سیکیورٹی کی گاڑی کو فون کریں تو جیمرز کی وجہ سے فون نہیں لگ رہے تھے، یہ لوگ باہر نکل کر ٹیکسی دیکھنے لگے، اتنے میں ایک خالی گاڑی نظر آئی اسے روکا تو وہ شیری رحمٰن کا ڈرائیور تھا، اس کی گاڑی میں ڈال کر بی بی کو اسپتال لے کر گئے۔ وہاں گئے تو کوئی سینئر ڈاکٹر ہی نہیں تھا، ایک جونیئر نے دیکھا اور کہا کہ سر میں گولی لگی ہے اور دماغ باہر آگیا ہے، 10، 15 منٹ میں وہاں سینئر ڈاکٹر بھی آگئے، بی بی کو فٹافٹ آپریشن تھیٹر میں لے گئے، جہاں انہوں نے ہارٹ پمپنگ بھی کی لیکن 7، 8 منٹ بعد ڈاکٹرز نے آکر بتا دیا کہ ’she is no more’۔ اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں رہا۔ بی بی کی میت C 130 میں لاڑکانہ منتقل کردی گئی۔‘
ناہید خان نے کہا کہ ’بی بی ایک نہایت میچور سیاستدان کی حیثیت میں پاکستان واپس آئی تھیں، ان کے پاس پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کا، سیاسی نظام کی مضبوطی کا، پارلیمنٹ کے استحکام کے لیے کہ کبھی بھی صدر اٹھ کر اسمبلی نہ توڑ دے، جمہوریت کو پٹری سے نہ اتار دیا جائے، دہشتگردی سے نپٹنے کا ایک پورا پلان موجود تھا۔ انہوں نے ملک میں تعلیم کے فروغ، خواتین اور اقلیتوں کی بہتری کے لیے منصوبے بنائے ہوئے تھیں۔ بے نظیر اگر زندہ رہتیں تو پاکستان کا منظر بہت بہتر ہوتا‘۔
ناہید خان اور صفدر عباسی نے پیپلز پارٹی کے دیرینہ/نظریاتی ساتھیوں کے ساتھ مل کر پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز قائم کی ہوئی ہے جس کی چیئر پرسن کا عہدہ آج بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام ہے۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
غزالہ فصیح دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور بےنظیر بھٹو سمیت پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے انٹرویو کرچکی ہیں۔ آپ پاک۔ یو ایس جرنلسٹ ایکسچینج پروگرام 2014ء کی فیلو رہی ہیں۔ آپ نے ایک کتاب Birds without wings کو 'پر کٹے پرندے' کے عنوان سے اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔