پاکستان

ٹریڈ مارک تنازع میں سپریم کورٹ کا شیزان سروسز کے حق میں فیصلہ

شیزان بیکرز اینڈ کنفیکشنرز لفظ شیزان کے مالک نہیں ہیں اور انہوں نے ٹریڈ مارک شیزان کو رجسٹر نہیں کیا تھا، عدالت

سپریم کورٹ نے جام، جیلی، شربت اور چٹنیاں بنانے والی کمپنی ’شیزان سروسز‘ اور ایک فرم کے درمیان 1988 میں شروع ہونے والے ٹریڈ مارک تنازع پر اپنا فیصلہ شیزان سروسز کے حق میں سنا دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے شیزان سروسز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کی جانب سے لاہور کی شیزان بیکرز اینڈ کنفیکشنرز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو نمٹا دیا۔

عدالت عظمیٰ نے 10 فروری کو شیزان سروسز کی جانب سے جمع کروائی گئی درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جن کی نمائندگی سلطان احمد شیخ کر رہے تھے جبکہ حسن عرفان خان مدعا علیہ شیزان بیکرز اینڈ کنفیکشنرز کی جانب سے پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں شیزان ٹریڈ مارک کیس کا فیصلہ محفوظ

دونوں کمپنیوں کے درمیان قانونی تنازع 33 برس کے طویل عرصے پر محیط ہے، 29 دسمبر 1988 کو شیزان بیکرز نے رجسٹرار آف ٹریڈ مارکس کو اپنے نام پر ٹریڈ مارک 'شیزان' کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

کمپنی اس ٹریڈ مارک کو اپنے پیٹیز، چیز اسٹرا، چکن سینڈوچ، چکن اسپرنگ رول اور دیگر چیزوں کے استعمال کرنا چاہتی تھی، جس کے بعد یہ درخواست ٹریڈ مارک جنرل میں شائع ہوئی۔

درخواست کی اشاعت کا مقصد اس پر اعتراضات وصول کرنا تھا جو شیزان سروسز نے ٹریڈ مارک ایکٹ1940 کے تحت کیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ 10 صفحات پر مشتمل فیصلے نے اپیل کو قبول کیا اور 14 مئی 2018 کو سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) کے حکم کو اس آبزرویشن کے ساتھ مسترد کر دیا کہ اگر یہ صرف استعمال کی اجازت کا معاملہ تھا تو اپیل کنندہ کی جانب سے لفظ ’ٹریڈ مارک‘ کے مسلسل استعمال کے لیے رائلٹی کا دعویٰ کیا جاتا۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں واضح کیا گیا کہ شیزان بیکرز اینڈ کنفیکشنرز لفظ ’شیزان‘ کے مالک نہیں ہیں اور انہوں نے ٹریڈ مارک شیزان کو رجسٹر نہیں کیا تھا۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا منرل واٹر کمپنی نیسلے کے فرانزک آڈٹ کا حکم

فیصلے میں کہا گیا کہ اس کے بجائے شاہنواز لمیٹڈ 'شیزان' لیبل کے مالک ہیں اور جواب دہندہ کی جانب سے رجسٹریشن کے لیے درخواست دینے سے 30 سال قبل 30 ستمبر 1958 کو سب سے پہلے انہوں نے اس نام کا اندراج کرایا تھا۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ٹریڈ مارک شیزان 30 ستمبر 1958 سے اپیل کنندہ (شیزان سروسز) کے پاس ہے جو کہ ایک مخصوص ٹریڈ مارک ہے۔

شیزان سروسز نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹریڈ مارک شیزان ان کا ہاؤس مارک ہے کیونکہ یہ ادارہ بین الاقوامی سطح پر جیمز اور جیلی کی فروخت کا ایک مشہور ادارہ ہے، یہ کمپنی پاکستان میں رجسٹرڈ سیکڑوں ٹریڈ مارکس کی مالک ہے، جن میں سے کچھ بیرون ملک بھی رجسٹرڈ ہیں۔

ٹریڈ مارک شیزان دراصل شاہنواز لمیٹڈ کے نام پر رجسٹرڈ تھا لیکن اس کمپنی نے اس ٹریڈ مارک کو بعد میں شیزان انٹرنیشنل کے حق میں تفویض کردیا۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ شیزان لیبل کے ٹریڈ مارک کے ساتھ مسلسل اور وسیع پیمانے پر استعمال کی وجہ سے یہ پاکستانی مارکیٹ میں بہت مقبول ہو چکا ہے اور درحقیقت شیزان ٹریڈ مارک صرف ان ہی کے ساتھ منسلک ہے لیکن شیزان بیکرز نے مبینہ طور پر بیکری اور کنفیکشنری مصنوعات کے لیے ’شیزان‘ ٹریڈ مارک کی نقالی کی۔

بعد ازاں بیکرز نے ہر قسم کے پیٹیز، پنیر کے اسٹرا، چکن سینڈوچ، چکن اسپرنگ رولز، سبزیوں کے اسپرنگ رولز، فش رولز، فش کباب، پیزا، مچھلی، پولٹری، گوشت کے عرق، محفوظ، خشک اور پکے ہوئے پھل اور سبزیاں، جیلیاں، جام انڈے، دودھ اور اس سے بنی مصنوعات اور خوردنی تیل پر ٹریڈ مارک شیزان لیبل کی رجسٹریشن کے لیے درخواست دی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے ڈبے کے دودھ کی فروخت پر پابندی عائد کردی

درخواست کی جانچ ٹریڈ مارک رجسٹری کراچی کے ٹریڈ مارکس کے رجسٹرار نے کی اور اسے قبول کرلیا، جس پر درخواست گزار نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ غلط فیصلہ تھا۔

علاوہ ازیں بیکرز نے رجسٹرار ٹریڈ مارک کے سامنے 19 فروری 1975 کا ایک معاہدہ پیش کیا جس پر درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ یہ معاہدہ ان کی جانب سے نہیں کیا گیا تھا بلکہ کسی تیسرے فریق کو لاہور میں 2 ریسٹورنٹس (اورینٹل ریسٹورنٹ اور کانٹی نینٹل ریسٹورنٹ) چلانے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن بیکرز کو ہرگز کوئی حق نہیں دیا گیا تھا، جس کا دعویٰ ان کی جانب سے کیا جارہا ہے۔

بعد ازاں ٹریڈ مارکس کے رجسٹرار نے درخواست گزار کی طرف سے کی گئی درخواست کو مسترد کر دیا اور ایس ایچ سی نے اس کی تائید کی۔

دوسری جانب حسن عرفان خان نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ 1975 سے لے کر اب تک اس کے استعمال کے دوران درخواست گزاروں نے بیکرز کی جانب سے لیبل کے آزادانہ اور مسلسل استعمال پر کبھی اعتراض نہیں کیا، ساتھ ہی لاہور میں اضافی ریستوران یا بیکریاں وغیرہ کھولنے پر بھی اپیل کنندہ نے کوئی مخالفت نہیں کی تھی۔

پاکستان کا گرے لسٹ سے اخراج ’ایک قدم دور‘ ہے، حنا ربانی کھر

شادی سے قبل ہی آئمہ بیگ اور شہباز شگری کے درمیان اختلافات کی افواہیں

17ویں صدی، بکھرتی مغل سلطنت اور نیکولاؤ منوچی (پہلا حصہ)