’نامناسب‘ منظر تشہیر کیلئے استعمال کرنے پر کراچی کے ریسٹورنٹ پر لوگ برہم
کراچی کے معروف ریسٹورنٹ ’سوئنگ‘ کی جانب سے اپنی تشہیری مہم میں بولی وڈ فلم ’گنگو بائی کاٹھیاواڑ‘ کے ایک نامناسب منظر کو استعمال کرنے پر لوگوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریسٹورنٹ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کردیا۔
’سوئنگ‘ نے 17 جون کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک مختصر تشہیری ویڈیو شیئر کی، جس میں ’گنگو بائی کاٹھیاواڑ‘ کے نامناسب منظر کو ایڈٹ کرکے شامل کیا گیا تھا۔
مذکورہ ویڈیو میں عالیہ بھٹ کی جانب سے ’جسم فروشی‘ کے لیے گاہکوں کو بلانے والے منظر کو ایڈٹ کرکے شامل کیا گیا اور لوگوں کو ریسٹورنٹ پر آکر کھانا کھانے کی ترغیب دی گئی۔
مذکورہ ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے مرد حضرات کے لیے ہر پیر کے دن کھانے پینے پر 25 فیصد ڈسکاؤنٹ کا اعلان بھی کیا گیا۔
تاہم ویڈیو کو شیئر کیے جانے کے فوری بعد ہوٹل انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں یاد دلایا گیا کہ جس سین کو تشہیری ویڈیو میں شامل کیا گیا ہے، اس میں ایک خاتون کی توہین کی گئی ہے۔
لوگوں نے کمنٹس کرتے ہوئے ہوٹل منتظمین کو یاد دلایا کہ مذکورہ سین فلم کی ایک جسم فروش خاتون کا ہے جو انتہائی مجبوری کی حالت میں جنسی انداز میں گاہکوں کو اپنی طرف بلاتی ہیں اور اسی ویڈیو کو کھانے کی تشہیر کے لیے استعمال کیا گیا۔
صارفین نے ہوٹل انتظامیہ کو شرم دلانے کی کوشش کی اور بتایا کہ خواتین کی جانب سے مجبوری یا بلیک میلنگ کی حالت میں جسم فروشی کرنا کوئی مذاق نہیں اور نہ ہی وہ کوئی تشہیر کے لیے اچھی بات ہے، ایسی ویڈیو کو تشہیری مہم میں استعمال کرنا باعث شرمندگی ہے۔
ہوٹل انتظامیہ پر زیادہ تر خواتین صارفین نے تنقید کی اور منتظمین کو شرم دلانے کی کوشش کی۔
مذکورہ تشہیری ویڈیو کو شیئر کیے جانے کے بعد جہاں لوگوں نے ہوٹل انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا، وہیں بعض لوگوں نے ریسٹورنٹ کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کیا اور دوسرے لوگوں کو کہا کہ وہ اخلاقی طور پر ہوٹل کا بائیکاٹ کریں۔
خیال رہے کہ عالیہ بھٹ کی فلم 'گنگو بائی کاٹھیاواڑی' کو فروری 2022 میں ریلیز کیا گیا تھا۔
فلم میں ’گنگو بائی کاٹھیا واڑی‘ نامی ایک خاتون کا مرکزی کردار دکھایا گیا ہے، جو 1960 کی دہائی میں بھارتی شہر ممبئی میں جسم فروشی کا کاروبار کرنے سمیت منشیات اور پیسوں کے عوض قتل کے جرائم کی سربراہی کرتی رہی تھیں۔
فلم کی کہانی قحبہ خانے پر جسم فروشی کرنے والی خاتون کی سیاست میں شمولیت کے گرد گھومتی ہے اور اس کی کہانی ایک کتاب سے ماخوذ ہے۔